رحمت اُس گھر وچ وسّے جِتھے بَلدے دِیوے ھو
عِشق ہوائی چڑھ گیا فلک تے کِتھے جہاز گھتیوے ھو
عَقل فِکر دی بیڑی نُوں چا پہلے پُور بُوڑیوے ھو
ہَر جا جانی دِسّے باھوؒ جِت ول نظر کچیوے ھو
Mercy showers is in such house where lamps are lit Hoo
The wind of ishq blown up to sky where could I drop ship’s anchor to sit Hoo
Ship of imagination and intellect on the first instance must drown it Hoo
Whatever direction I look Bahoo my beloved is seen in it Hoo
Rehmat os ghar wich wassay jithay balday di’way Hoo
Ishq hawai cha’R gya falak tay kithay jahaz ghatiway Hoo
Aql fikr di be’Ri Noo cha pehlay por bo’Riway Hoo
Har ja jani dissay Bahoo jit wal nazar kachiway Hoo
تشریح:
:’’ بَلدے دِیوے‘‘سے مراد عشق کے چراغ ہیں جیساکہ حضورسلطان العارفینؒ اپنے بیت مبارک میں فرماتے ہیں ’’رات اندھیری کالی دے وِچ عِشق چَراغ جلانْدا ھو‘‘کیونکہ عشق ہی ایسا بیش بہا خزانہ ہے جس کی بدولت دلوں کے زنگ اترتے ہیں-جیساکہ ایک اورمقام پہ آپؒ فرماتے ہیں :
’’ آگ عشق ہے جو اگر وجود میں داخل ہو جا ئے تو گرمی پیدا کرتا ہے اور وجود کو جلا کر صفائی بخشتا ہے‘‘-[1]
جب عشق کی بدولت دل سے ہرنقش ِ غیر مٹ جائیگا تو وہاں اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول لازمی امرہے-یا دوسرامفہوم یہ ہے کہ آپؒ کے پہلے مصرعہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وہاں برستی ہے جہاں پہ اولیاء اللہ کی قبور اوران کی مزار ہوتی ہیں جیساکہ آپؒ نےفرمایا :
اگر گیتی سراسر باد گیر د |
|
چراغِ مقبلاں ہرگز نہ میرد |
’’خواہ ساری دنیا ہی آندھی ہو جائے مقبولانِ خدا کا چراغ ہرگز نہیں بجھتا،جس چراغ کو خدا روشن کرے اُسے پھونک بجھانے والا اپنی ہی داڑھی جلا بیٹھتا ہے‘‘-
اس کی تائیداللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک ’’اَلَّذِيْ بَارَكْنَا حَوْلَهٗ‘‘سے بھی ہوتی ہے جس کی تفسیرمیں امام ابوعبداللہ محمد بن احمدبن ابوبکرقرطبی () فرماتے ہیں:
وَ قِيْلَ: بِمَنْ دُفِنَ حَوْلَهٗ مِنَ الْاَنْبِيَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ، وَ بِهَذَا جَعَلَهٗ مُقَدَّسًا |
|
اوریک قول یہ کیا گیا ہے کہ اس (بیت المقدس) کے اردگرد انبیاء کرام(علیھم السلام) اور صالحین کرام مدفون ہیں اور اسی وجہ سے اس کو مقدس کہا گیا ہے‘‘- |
2: عشق ایک بحر ِ عمیق اورلامتناہی سمندرہے، اس کی ابتداء وانتہاء اللہ پاک کا قرب و وصال ہے اس میں کوئی ایسامقام نہیں ہے کہ جہاں انسان ٹھہراؤ کرسکے چاہے عشق کے جس اعلیٰ مقام پہ پہنچ جائے؛ جیساکہ آپ ()فرماتے ہیں: ’’ راہِ محبت کی ابتدا بھی قربِ اِلٰہ ہے اور اُس کی انتہا بھی قربِ اِلٰہ ہے‘‘-مزید ارشادفرماتے ہیں: ’’جو اُس کی محبت کا جام پی لیتا ہے وہ جان سے بے جان ہونے سے ہر گز نہیں ڈرتا کیونکہ وہ لاھُوت میں رہ کر نظر لامکان پر رکھتا ہے‘‘-
3:فرمانِ باری تعالیٰ ہے :’’اَفَلَا تَعْقِلُوْن‘‘کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اسی طرح حضورنبی کریم (ﷺ) کافرمان مبارک ہے: ’’ اَلْعَقْلُ نُوْرٌ‘‘ [3](عقل نور ہے)-مزید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے : ’’عقل انسان کی نیام ہے ‘‘[4]-تعلیمات ِ حضرت سلطان باھوؒ میں اوربھی کئی مقام پہ عقل کی اہمیت پہ زور دیا ہے، جیسا کہ آپؒ اپنی کتب میں مختلف مقامات پہ فرماتے ہیں: ’’ خبر دار! عقل سے کام لے ، دانائی سے کام لے‘‘-
اب سوال یہ پیداہوتا ہے ،یہاں اس بیت مبارک میں تو عقل ،فکر کی کِشتی کو ڈبونے کا حکم ہے ،تواس کا جواب یہ ہے جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں : عقل بھی دو قسم کی ہوتی ہے، عقل ِکل اور عقل ِ جز- علمائے عامل اور فقرائے کامل عقل ِکل کے مالک ہوتے ہیں جبکہ اہل ِدنیا کے پاس عقل ِجز ہوتی ہے ، چنانچہ وہ منصوبہ ساز ہوتے ہیں ، اُن پر خدا کا غضب و اعتراض ہے‘‘- [5]
صوفیاء کرام نے جہاں عقل کی نفی فرمائی ہے اس سے مراد وہ عقل ہے جو غفلت کی طرف مائل ہو ،جبکہ راہِ عشق کا تقاضاہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرکے اس کی رضاحاصل کی جائے ، بقول حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ):
تا نمُرد بتیغِ عشق بی سر نشوی |
|
ہمس دوست طلب کنی نہم سر خواہی[6] |
’’جب تک تُو تیغ ِعشق سے سر کٹواکر بے سر مرد نہیں بن جاتا ناممکن ہے کہ تُو دوست کو پا سکے یا سرکو بچا سکے ‘‘-
4:سالک جب عشق کی منازل طے کرتاہے تو اس مقام پہ پہنچ جاتا ہے جہاں ہرطر ف اس کو اپنے مالکِ حقیقی کی جلوے نظرآتے ہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’تُوجدھر بھی رُخ کرے گا تجھے اللہ تعالیٰ کے جلوے نظر آئیں گے‘‘[7]- اس کی وجہ ان کا خلوص،اللہ پاک کی راہ میں قربانی اور خواہشاتِ نفسانیہ کو ختم کرنا ہوتا ہے- بقول حضرت سلطان باھوؒ:’’اے طالب ِحق ! اگر تُو اپنی ذات سے خودی کا پردہ ہٹا دے تو تجھے ایک ہی ذات جلوہ گر نظر آئے گی -یہ جو کثرت و دُوئی تجھے نظر آتی ہے یہ تو محض تیری آنکھ کے بھینگے پن کا نتیجہ ہے‘‘-
[1](محک الفقرکلاں)
[2](عین الفقر)
[3](فیض القدیر للمناوی، باب:حرف الھمزہ)
[4](نور الھدیٰ)
[5](ایضاً)
[6](محک الفقر کلاں)
[7](البقرۃ:115)