شریعت دے دروازے اُچے رَاہ فَقر دا موری ھو
عالِم فاضل لنگھن نہ دیندے جو لنگھدا سو چوری ھو
پَٹ پَٹ اِٹاں وَٹے مارن دَردمنداں دے کھوری ھو
راز ماہی دا عاشق جانن باھوؒ کی جانن لوک اتھوری ھو
The gates of Sharia are tall and path of faqr is beyond Hoo
Learned scholars would not allow who ever passes, passes in secret Hoo
They would throw bricks and rocks at the passionate Hoo
Aashiq are aware of the secret of beloved Bahoo what would those bulls know of such state Hoo
Shariat day darwazay ochay rah faqr da mori Hoo
Aalam faazal lan’Ghan nah dainday jo lan’Ghda so chori Hoo
Patt patt etta’aN wattay maran dard mandaa’N di khoori Hoo
Raaz mahi da aashiq janan Bahoo ki janan look athori Hoo
تشریح :
ہر مراتب از شریعت دیدہ ام |
|
بی حجابی از میان بہ دریدہ ام[1] |
1-’’مَیں نے ہر مرتبے کو شریعت کی نظر سے دیکھا ہے اور ہر حجاب کو شریعت ہی سے دُور کیا ہے‘‘ -
یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کوئی بھی صوفی شریعت کامخالف نہیں ہوسکتا،اگربعض اوقات کسی صوفی کے الفاظ سے یہ ظاہرہوکہ اس میں ظاہری احکامِ شرع کو اہمیت نہیں دی جارہی تو اس کی محض وجہ ان لوگوں کی مخالفت ہوتی ہے جوشریعت کوصرف ظاہرتک محدود رکھ کر اس کے باطنی فیوض و برکات سے خود بھی محروم ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی محروم کرتے ہیں-کیونکہ کسی بھی چیز کامقصود مغز ہوتاہے نہ کہ صرف چھلکا-جیساکہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرہٗ) ارشادفرماتے ہیں :
’’مرشد اُسے کہتے ہیں جو فقر میں اِس درجہ کامل ہو کہ اُس نے خود پر غیر ماسویٰ اللہ کو حرام کر رکھا ہو اور ازل سے ابد تک احرام باندھے ہوئے حاجی ٔبے حجاب ہو- ایساہی مرشد کامل و کامیاب ہے کہ اگرچہ وہ بظاہر گناہ کا کام ہی کیوں نہ کر رہا ہو، بباطن وہ عین ثواب کا کام ہو گا جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے واقعہ میں درج ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’(خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ(علیہ السلام) سے کہا)اب مَیں آپ سے علیحدہ ہوتا ہوں اور آپ کو اُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ سے چپ نہ رہا گیا‘‘-چنانچہ خضر علیہ ا لسلام نے کشتی کو توڑنے، ٹوٹی ہوئی دیوار کو جوڑنے اور بچے کو قتل کرنے کی حقیقت موسیٰ (علیہ السلام)کو بتلا دی- یہ واقعہ سورۂ کہف میں درج ہے-یہاں موسیٰ (علیہ السلام)کا رویہّ علمِ ظاہر کی نمائندگی کرتا ہے اور خضر (علیہ السلام) کا رویہ علمِ باطن کی- پس علما ءاور طالب موسیٰ (علیہ السلام) کی سنت کے مرتبے پر ہوتے ہیں اور فقرائے فنا فی اللہ مرشد خضر (علیہ السلام)کے مرتبے پر، اِس لئے فقراء سے خضر (علیہ السلام) جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں‘‘- [2]
بیحضوری علم حجت سر حجاب |
|
عالمِ بی معرفت شیطان خراب |
2-3:’’ حضوری کے بغیر علم سر اسر حجاب اور حجت ہے اور معرفت ِ اِلٰہی کے بغیر عالم شیطان ہے ‘‘-[3]
’’علما ٔکا مرتبہ بلند و بالا ہے لیکن فقیر کہتا ہے کہ بے شک علما ٔ کا مرتبہ بلند و بالاہے مگر راہِ تصوف سے بے خبر ہے- عالم کی نظر لذّت ِدنیا پر لگی رہتی ہے اور فقیر کی نظر خوفِ روز ِقیامت پر ہوتی ہے- عالم کہتا ہے کہ عقبیٰ کتنی اچھی اور خوبصورت جائے بہشت ہے اور فقیر کہتا ہے کہ بجز دیدارِ الٰہی سب کچھ خوا ر و زشت ہے- عالم کہتا ہے فقیر کتنا احمق و مجنون و دیوانہ ہے اور فقیر کہتا ہے کہ عالم خدائے تعالیٰ سے بیگانہ ہے-عالم کہتا ہے کہ علم پڑھنا خوب ہے منطق و معانی اور فقیر کہتا ہے کہ بجز یادِ حق محض تحصیل ِعلم عمر کی بربادی ہے اور نادانی‘‘-[4]
یہ بات ذہن نشین رہے کہ محض ظاہری علم سے صراط ِ مستقیم نصیب نہیں ہوتی جب تک قلب وروح کو علم باطن سے جلانہ بخشی جائے ،جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :
’’جا ن لے کہ شیطان عالم فاضل ہے ، اُس کے پاس اِس قدر ظاہری علم ہے کہ وہ تمام فرشتوں کو تعلیم دیتا رہاہے -شاگردوں کو علم سکھانا اُسی سے شروع ہوا - حضرت آدم علیہ السلام کے پاس ظاہری علم نہ تھا -اُنہوں نے تصورِ اسم اللہ ذات کے علم سے روشنی ٔ روح حاصل کی اور باطن کے علمِ توحید (تصورِ اسم اللہ ذات)و معرفت ِاِلٰہی سے شیطان وفرشتوں پر غالب آئے‘‘-[5]
اس لیے آپؒ ظاہری علماء کو تلقین فرماتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
عالمان را فرض شد تلقین طلب |
|
راہ نمایند خلق را از بہرِ ربّ[6] |
’’علماء پر فرضِ عین ہے کہ وہ مرشد ِ کامل سے تلقین حاصل کریں ،پھر رضائے اِلٰہی کی خاطر خَلق کی راہنمائی کریں‘‘-(کیونکہ ) اگر تُو علم پڑھے اور عالم بن جائے مگر معرفت حاصل نہ کر سکے تو تُو جاہل ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اُس گدھے کی مثل ہے جس پر کتابیں لادی جا تی تھیں‘‘-
4: ’’جان لے کہ عاشق فقیر خدا کا بھید ہے، جو اِس بھید کو پا لیتا ہے وہ اُسے پہچان لیتا ہے اور اُس کی معیت اختیار کر لیتا ہے- اِس بھید کو وہی پاتا ہے جو اپنے سر کی پرواہ نہیں کرتا- جو اِس بھید کو فاش کرتا ہے بھید اُس کا سر لے لیتا ہے‘‘- [8]
آپؒ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
کعبہ را در دل بہ بینم جان کنم بروی فدا |
|
در مدینہ دائمی ہم صحبتم با مصطفٰے (ﷺ)[9] |
’’ مَیں کعبہ کو اپنے دل میں دیکھتا ہوں اور اُس پر اپنی جان فدا کرتا ہوں اور مَیں ہمیشہ مدینہ میں مصطفٰے (ﷺ)کی صحبت میں رہتا ہوں ‘‘-
[1](امیر الکونین)
[2]( عین الفقر)
[3]( کلیدالتوحید(کلاں)
[4]( عین الفقر)
[5]( اسرارالقادری)
[6]( کلیدالتوحید(کلاں)
[7]( امیرالکونین)
[8]( عین الفقر)
[9]( محک الفقر(کلاں)