حافظ شیرازیؒ غزل کے بادشاہ تھے-انہوں نے کئی اضافِ سخن میں طبع آزمائی کی- وہ جہاں صحراؤں کے سراب میں دل فریبی کا نظارہ کرتے ہیں وہاں حقیقت کے سمندر کی لا محدود گہرائیوں میں غوطہ زنی کے فن سے بھی بخو بی آشنا ہیں- اُن کے تخیلاتِ عارفانہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اُن کےاِس ایک شعرمیں غور و فکر سے لطف اندوزہوتے ہیں- حافظ شیرازیّ ؒ فرماتے ہیں:
زبان مور بر آصف دراز گشت ازان |
|
کہ خواجہ خاتمِ جَم یاوہ کرد و باز نہ جُست |
’’چیونٹی نے آصف پراس لئے زبان درازی کی کہ اُس سردار نے بادشاہ کی انگوٹھی گم کردی اور پھرتلاش نہ کی ‘‘-
یہ شعر جواہرِمعرفت سے بھر پورہے اور اس میں حقائق و معارف کے ایسے انمول موتی پروئے گئے ہیں جو کنگرہُ افلاک پر چمکنے والے موتیوں سے کسی صورت کم نہیں-اگرچہ ظاہری طور پرحضرت سلیمان(علیہ السلام) کے ساتھ پیش آنے والے دو واقعات کا ذکر کیا گیا ہے(جن میں ایک واقعہ چیونٹی کے کلام کا ہے جسے قرآن پاک میں بھی بیان کیا گیا ہے ، دوسرا واقعہ آپ کی ایک انگشتری کے متعلق ہے جو کہ متعدد مفسرین کرام نے بیان فرمایا ہے )-انگشتری کو متعدد صوفیائے کرام نے کئی لطیف معانی کے ساتھ اپنے کلام میں پیش کیا ہے جن میں ایک معروف معنیٰ یہ ہے کہ انسان اس زمین پہ خلیفۃ اللہ ہونے کے ناطے ’’تختِ سلیمان‘‘ کا مالک ہے اور وہ نادر و نایاب انگشتری اس کے سینے میں رکھی امانتِ الٰہیہ ہے ، جب تک انسان اس کی نگہداشت کرتا رہتا ہے تب تک تخت و تاج اس کے قدموں کی دھول ہوتے ہیں-لیکن جب انسان اُس انگشتریٔ سلیمانی یعنی امانتِ الٰہیہ سے غفلت برتتا ہے یہ انسانی عظمتوں سے اپنے آپ کو محروم کر دیتا ہے - حافظ شیرازی نے در حقیقت اس شعر کے تناظر میں خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑتے ہوئے اُس امانتِ الٰہیہ کی طرف متوجہ کیا ہے جو ازل میں حق تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے اور وہ مومن کی مقدس وراثت ہے جس کو سنبھال کر رکھنا فرض عین ہے -
اس شعر کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)اپنے لشکر کے ہمراہ سفر کرر ہے تھے جب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے اپنی ساتھیوں سے کہا کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے لشکر والے تمہیں روند ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو- حضرت سلیمان (علیہ السلام) چونکہ تمام جانوروں کی بولی سمجھتے تھے- آپ (علیہ السلام)نے چیونٹی کی بات سُن کر تبسم فرمایا اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدا نے اُن کو جانوروں کی بولی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے-[1]
حافظ شیرازیؒ نے اس شعر میں چیونٹی کی اس بات کو گستاخی اور زبان درازی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بیان کر دی ہے کہ کیو ں چیونٹی جیسی مخلوقِ ناتواں نے اتنےعظیم الشان بادشاہ اور جلیل القدر پیغمبر کی شان میں یہ حرکت کرنے کی جرأت کی ہے اور ان کو بے خبر کہا ہے ؟؟؟
اس کا سبب بیان کرتے ہوئے حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)کو ایک انگوٹھی عطاکی گئی تھی جس میں یہ کرامت تھی کہ جب آپ وہ انگوٹھی پہن لیتے تو مشرق و مغرب میں تمام مخلوق چرند پرند ،عفریت وجنات آپ کے حکم کے تابع رہتے تھے- ایک دفعہ حسب اتفاق وہ انگوٹھی گم ہو گئی جس کے نتیجہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) رنج والم اور مصائب کا شکار ہوگئےاور انگوٹھی واپس مِل جانے تک چالیس روز سخت تکلیف اور کسمپرسی کی حالت میں مبتلارہے -
یہاں ایک نقطہ خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ وہ انگوٹھی حضرت سلیمان (علیہ السلام)کو عطاکی گئی تھی اوراُن سے ہی گم ہوگئی- مگر حافظ شیرازی ؒنے اس شعر میں چیونٹی کی طعنہ زنی کو حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے بجائے اُن کے وزیر آصف کے ساتھ منسوب کیا ہےاور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے منصبِ نبوت کااحترام ملحوظِ خاطر رکھاہے-کیونکہ ایک چیونٹی کسی نبی یا پیغمبر کو بے خبر کہنے کی جرأت نہیں کر سکتی-
حافظ شیرازیؒ نے چیونٹی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے اس واقعہ کی تمثیل پیش کر کے انسان کو ان حقائق کی طرف متوجہ کیا ہے جو انسان کے ذاتی افعال و کردارکی وجہ سے رونما ہوتے ہیں اورانسان کو ہدایت کی روشی سے ظلمات کے اندھیروں کی طرف دھکیل دیتے ہیں- ازل میں حق تعالیٰ نے انسان کو ایک امانت عطاکرکے زمین پر اپنا نائب اورحکمران بناکر بھیجا-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا‘‘[2] |
|
’’بے شک ہم نے امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ (اپنی جان پر) بڑی زیادتی کرنے والا (ادائیگیِٔ امانت میں کوتاہی کے انجام سے) بڑا بے خبر و نادان ہے‘‘- |
چنانچہ حضرت انسان نےاُس امانت الٰہیہ کو اٹھانے کا اقرارتو کرلیا مگر پھر ثابت قدم نہ رہا؛ اس لئے ظالم کہلا یا اور اُس امانت کو ضائع ہو جانے کا انجام نہ سمجھااس لئے جاہل کہلایا-کیونکہ انسان کو اُس مقدس مَجموعۂ گلدستۂ محبوبی کے اسرار و رموز کی خبر نہ تھی-چونکہ بارِ امانت کا عہد اور قول و اقرار عالم ارواح میں طے پایا تھا- مگر عالم دنیا میں آکر انسان کا اُس عہد سے بے نیاز ہو جانے کا خطرہ لاحق تھا اس لئے تجدید عہد کے لئے حق تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب فرمایا- جن میں نبی، پیغمبر،امام ، علمائے ربانیین اور اولیائے کاملین شامل ہیں-
ظہورِ اسلام سے قبل کرۂ ارض پر ہر طرف شیطان کی فتح مندی کے پرچم لہرا رہے تھے- جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور انسان کا ضمیر عصیانِ عالم کی تاریکی میں گم ہو چکا تھا- چنانچہ اس طوفانِ بدتمیزی کو روکنے کیلئے خالق ارض و سماء نے اپنے پیارے محبوب حضرت مصطفٰے (ﷺ)کو مبعوث فرمایا-آپ (ﷺ)نے وہ قانونِ خداوندی نافذفرمایاجو قیامت تک کے انسانوں کے لئےمشعل راہ ہے-آپ (ﷺ)نے پاکیزہ معاشرے کا تصور پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی-مگر بدقسمتی سے انسان کا ازلی دشمن پھر نئی حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں آیا اور امت مسلمہ کو باہمی انتشار میں مبتلا کیا جس کے نتیجہ میں دورِ حاضر کا مسلمان، ذاتی مفادات، شخصیت پرستی اور ظلمات و حجابات کے دلدل میں پھنس گیا-
چنانچہ حق تعالیٰ نے اپنے بنائے ہو ئے ازلی قانون کے مطابق انسانوں کی اصلاح احوال کے لئے ایک ولئ کامِل کا انتخاب فرمایا جن کا ظہور خانواد ۂ سلطان العا رفین حضرت سلطان باھو ؒ میں سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ)کی صورت میں جلوہ افروز ہوا-آپ نےوقت کی نزاکت کے پیش نظر ایک روحانی و اصلاحی تحریک ’’ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں ظاہری عبادات کے ساتھ قلبی ذکر کی تر بیت کا اہتمام فرمایا- تاکہ معرفت الٰہی کے اُس پودے کو پروا ن چڑھایا جائے جو نفسانی ہواؤں کی وجہ سے خزاں کا شکار ہوگیا ہے-اسی شجر معرفت کےمتعلق حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :
الف:اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو |
اس مقصدکے لئے جماعت کے تر بیت یافتہ افرادملک کے طول وعرض میں دعوت الی اللہ دینے میں مصروف عمل ہیں-ہر سال 12-13اپریل کو دربار عالیہ حضرت سلطان باھوؒ پر سالانہ اجتماعِ میلاِدمصطفےٰ(ﷺ)منعقدکیا جاتا ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام عشقِ مصطفےٰ(ﷺ)کی شمع روشن کرنے کی غرض سے حاضری دیتے ہیں کیونکہ شریعتِ مطہرہ پہ کاربندِ عمل ہو کردل کو ذکر الٰہی سے منور کرکے عشقِ مصطفےٰ(ﷺ)کا حصول ہی اما نتِ الٰہی کی معقول حفاظت کا واحد ذریعہ ہے-
٭٭٭