مولانارومؒ، حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ محمداقبالؒ : قسط اول

مولانارومؒ، حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ محمداقبالؒ : قسط اول

مولانارومؒ، حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ محمداقبالؒ : قسط اول

مصنف: محمد عظیم اپریل 2020

تاریخ عالم میں ایسی ہستیاں نایاب ہیں جو انسان کی سربلندی کے لیے صدائے حق، احترام آدمیت، محبت اور کامل راہنمائی کی وجہ سے صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ و جاوید ہیں- یہ عظیم روحانی ہستیاں رشد و ہدایت کا منبع ہیں جو ہر لمحہ و لحظہ انسانیت کے آقا و مولا تاجدار انبیاء حضرت محمد (ﷺ) سے نور ہدایت حاصل کرتی ہیں ان کے قلوب عشق الہٰی اور اخلاص فی العمل کی دولت سے معمور ہیں- ان کے الفاظ انسانیت کے لیے تابندہ ستارہ ہیں اور یہ خلق خدا سے محبت کرنے والی عظیم شخصیات میں ممتاز و نمایاں مقام رکھتے ہیں، انہوں نے مردہ دلوں میں روحانی اور اخلاقی رمق دمق پیدا کی سالکین کو نور ہدایت سے مستفید کیا اور آج بھی انسانیت کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہیں- ان ہستیوں میں سلطان العاشقین حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ اور حضرت علامہ محمد اقبالؒ درخشاں ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں بتقاضائے ظاہر اس دنیا سے گزر جانے کے با وجود آج بھی اپنے زمانہ کی طرح دعوت حق پھیلا رہے ہیں- سیرت مصطفےٰ (ﷺ)  کا حقیقی نمونہ اور گفتار و کردار میں اللہ کی برہان نظر آتے ہیں -

حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت سلطان باھُوؒ اور علامہ محمد اقبالؒ اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے ہمیشہ دنیا میں آقا علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی تعلیمات کی تبلیغ کرتے ہوئے بھٹکی ہوئی انسانیت کے اندر محبت، اخلاص و اتحاد کا جذبہ پیدا کیا اورتفرقہ بازی، لسانی، مذہبی، گروہی اور قومیت کے چنگل سے آزاد کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں،مخلوق خدا کو الخلق عیال اللہ کے تحت ایک کنبہ کی صورت میں پرونے کی سعیٔ عظیم کا اہتمام فرمایا-

مولانا روم، سلطان باھُو اور علامہ محمد اقبال کے مابین صدیوں کا فاصلہ ہے مگر بات ایک ہی عظیم مقصد کی فرمائی ہے، مولانا جلال الدین رومی 1207ء بلخ میں پیدا ہوئے، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒ 1629ء شور کوٹ (جھنگ) میں پیدا ہوئے اور علامہ محمد اقبالؒ 9 نوامبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے- مولانا جلال الدین رومی اور حضرت سلطان باھُو میں 422 سال کا عرصہ ہے جبکہ حضرت سلطان باھُو اور علامہ محمد اقبال میں 248 سال کا وقفہ ہے- مولانا جلال الدین رومی اور علامہ محمد اقبال کے درمیان 670 سال کا عرصہ ہے پھر بھی ان کی تعلیمات ایک ہی مرکز سے جُڑی ہیں-

مولانا رومؒ، حضرت سلطان باھُوؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے تجربات الگ الگ ہیں- تعلیم تینوں نے مختلف ذرائع سے حاصل کی ہے مگر نتائج ایک جیسے اخذ کئے جیسا کہ مولانا روم ؒنے مدارس میں قرآن و حدیث اور فقہی تعلیم حاصل کی عرصہ دراز تک درس و تدریس کے امور سرانجام دیتے رہے جبکہ حضرت سلطان باھُوؒ نے ظاہری تعلیم کسی مدرسہ و مکتب میں حاصل نہیں کی آپ کا علم ، علم لَدُنّی ہے- آپؒ خود فرماتے ہیں :

گرچہ نیست ما را علم ظاہر
ز علم باطنی جان گشتہ طاہر

’’اگرچہ ظاہری علم میں نے حاصل نہیں کیا، تاہم علم باطن حاصل کر کے میں پاک و طاہر ہو گیا ہوں، اس لئے جملہ علوم بذریعہ انعکاس میرے دل میں سما گئے ہیں‘‘-

 علامہ محمد اقبال ؒنے تعلیم کی شروعات رائج اسلامی علوم اور سکول کے نصاب سے کی اور پھر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے بین الاقوامی طور پر رائج علوم پر کامل دسترس حاصل کی، اس دوران وہ مشرق و مغرب کے فلاسفہ، حکماء، دانش مندوں کے علوم سے مستفید ہوئے- ان تینوں مفکرین کی تعلیمات کے نتائج ایک جیسے ہیں مثلا: توحید، عشق رسُول (ﷺ)، فقر محمدی،  ذکر اللہ، شریعت مطہرہ کی پیروی، نیابت الھٰی، حسن اخلاق، ادب و حترام، ترکِ خواہش، توکل ، عشق، صبر و شکر، طمع سے پرہیز اور انسانیت سے پیار وغیرہ -

مولانا رومؒ، حضرت سلطان باھُوؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے مگر آج بھی ان کی تعلیمات تروتازہ ہے بلکہ ہر آنے والے دور میں گزرے ہوئے زمانے سے زیادہ ان پر کتب، تحقیقی مضامین لکھے جار ہے ہیں سمینار اور کانفرنسز منعقد ہو رہی ہیں- ان صوفیاء نے کتابی صورت میں بہت سا ادبی ذخیرہ چھوڑا جو ہر دور میں لوگوں کے لئے مکمل رہنمائی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے-

مولانا روم ؒکی مشہور زمانہ تصانیف مثنوی معنوی، فیہ مافیہ، دیوان شمس اور مجالس سبعہ ہیں، حضرت سلطان باھُو ؒ نے 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ایک آپ کی مادری زبان پنجابی میں ’’ابیات باھُو‘‘ کے نام سے موسوم ہے جبکہ139 فارسی زبان میں ہیں اور حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اردو نثر میں ایک علم الاقتصاد، اردو شاعری میں چار، فارسی میں سات اور انگریزی میں دو کتب تصنیف فرمائی ہیں-

ان کا لٹریچر کسی ایک خطے کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہر دور میں ہر طرح کے لوگوں کو مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور کرتا رہے گا ایسے لٹریچر ہی کو عالمگیر کہتے ہیں اِن صوفیاء نے قرآن کریم و سنت نبوی(ﷺ) کو اپنی تعلیمات میں پرویا ہے یہ قرآن کا فیض ہے کیونکہ جس طرح قرآن تروتازہ ہے اُس کے باطن سے فیض یاب ہونے والی ہر چیز اُسی طرح ترو تازہ رہتی ہے- جو لوگ ان کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے بھی رحمت کا سبب بنتے ہیں-

تینوں صوفیاء کا تعلق فقہ حنفی ، عقیدہ ماتریدیہ ، سلسلہ قادریہ سے ہے اور اول الذکر دونوں حضرت شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی(قدس اللہ سرہ)  کے منہج پہ ہیں ، حضرت علامہ اقبال کا بھی فکری کسبِ فیض حضرت شیخ الاکبر ابن العربی سے ثابت ہے -

تعلیمات مولانا رومؒ ، حضرت سلطان باھُوؒ اورعلامہ محمد اقبالؒ :

واحدنیت:

’’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘[1]

’’تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے‘‘-

واحد اندر ملک او را یار نی
بندگانش را جز او سالار نی[2]

’’وہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اسکے بندوں کا اس کے علاوہ کوئی سالار نہیں‘‘-

ھّو الواحد ھّو المقصود لا موجود الّاھوُ[3]

وہ ذات واحد، وہ ذات مقصود ہے اس ذات کے سوا کوئی وجود حقیقی نہیں-

آنکہ ذاتش واحد است و لاشریک
بندہ اش ہم در نسازد با شریک[4]

وہ جس کی ذات واحد اور لاشریک ہے اس کا بندہ بھی اپنے ساتھ کسی کا شریک ہونا گوارا نہیں کرتا-

تا ز زهر و از شکر در نگذری
کی تو از گلزار وحدت بو بری[5]

جب تک تُو زہر و شکر سے نہ گزرے گا وحدت کے چمن کی خوشبو کیسے سُونگھے گا؟

’’اے بت پرست! شرک و کفر سے باز آجا تاکہ تجھے وحدتِ الست تک رسائی حاصل ہو‘‘-[6]

ملت بیضا تن و جاں لا الہ
ساز ما را پردہ گرداں لا الہ[7]

ملت بیضا جسم ہے اور اس کی جان کلمہ توحید لاالہ ہے، ہمارے ساز کے پردوں سے نغمے صرف توحید لا الہ کی بدولت نکل رہے ہیں-

حضرت ابراہیم (علیہ السلام):

’’قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ‘‘[8]

’’ہم نے فرمایا! اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر‘‘-

بر خلیلؑ آتش بُود ریحان و ورد
لیک بَر نمرود آں مرگست و دَرد[9]

آگ خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ پر خوشبودار بُوٹا اور گلاب کا پھول ہے لیکن نمرود پر وہ موت اور درد ہے-

’’ابراہیم(ؑ) دوستئ روحی حضرت ابراہیم (ؑ)خلیل اللہ بخدا تعالٰی می داشت کہ آتش گلزار شُد‘‘[10]

’’حضرت ابراہیمؑ کی دوستی اللہ تعالیٰ سے تھی جس کی وجہ سے آگ گلزار بنی-

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا[11]

حضرت اسماعیل (علیہ السلام):

’’پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں، اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے، کہا اے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘-[12]

خاصه آن منفق که جان انفاق کرد
حلق خود قربانی خلاق کرد[13]

خصوصاً وہ خرچ کرنے والا جس نے جان خرچ کی اور اپنے گلے کو اللہ تعالیٰ کی قربانی بنایا-

پر صادق دین تنہاں دے باھو جیہڑے سر قربانی کردے ھو[14]

دینِ حنیف کے متوالوں کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ جب بھی کڑا وقت آیا تو انہوں نے دستورِ خداوندی کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دی، جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پہ چھری چلی تو اُف تک نہ کی اور صبر کیا-

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی[15]

شریعت:

شاهراه باغ جانها شرع اوست
باغ و بستانهای عالم فرع اوست[16]

’’روح کے باغات کا راستہ اس کی شریعت ہے، دنیا کے باغ و بہار اس کی شاخ ہیں-‘‘

ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم[17]

’’میں نے ہر مرتبہ شریعت پر عمل پیرا ہو کر حاصل کیا ہے اور اپنا پیشوا اور رہبر شریعت ہی کو بنایا ہے‘‘-

این گهر را خود خدا گوهر گر است
ظاهرش گوهر بطونش گوهر است[18]

شریعت ایسا موتی ہے جسےخود الله نے بنایا ہے اس کا ظاہر بھی موتی ہے اور باطن بھی-

قرآن مجید کی فضیلت :

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ‘‘[19]

بے شک ہم نے اسے (قرآن کو )شب قدر میں اتارا-

بطن چارم از نبی خود کس ندید
جز خدای بی ‌نظیر بی‌ ندید[20]

قرآن کا چوتھا باطن کسی نے نہیں دیکھا، لا مثیل، اور لاشریک خدا کے سوا-

’’ تو علم کی ’’ع‘‘ کو (ذاتِ حق) سمجھ اور اُس کی طے سے قرآنِ مجید کے تیس ہزار علوم سیکھ‘‘-[21]

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار[22]

 

در نبی فرمود کین قرآن ز دل
هادی بعضی و بعضی را مضل[23]

قران میں فرمایا ہےکہ یہ قران دل کے اعتبار سے بعض کو ہدایت دینے والا اور بعض کو گمراہ کرنے والا ہے-

با تو گویم بشنو ای جان عزیز
ز قرآن بیرون نباشد ہیچ چیز[24]

اے جان عزیز! میں تجھ سے مخاطب ہوں، میری بات غور سے سن کہ کوئی چیز بھی قرآن سے باہر نہیں ہے-

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لا یزال است و قدیم[25]

(یہ راز) قرآنِ حکیم ہے جو پاک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے-

حیات نبوی ():

حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’اَلْاَ نْبِیَآءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ‘‘[26]

’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے مزارات میں زندہ ہیں وہ نمازیں پڑھتے رہتے ہیں‘‘

اندر احمد آن حسی کو غاربست
خفته این دم زیر خاک یثربست[27]

’’آج بھی جب آپ(ﷺ) کا جسدِ اقدس خاکِ یثرب (مدینہ) میں آرام فرما ہے اور جسمانی حِسیں خوابیدہ ہیں وہ عظیم اور طاقتور رخ بحالۂ قائم اور باقی ہے‘‘-

’’سُن ! اگر کوئی شخص حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات کو مُردہ سمجھ بیٹھے، اُسکا ایمان سَلب ہو جاتا ہے‘‘-[28]

’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام ؓ ہوا کرتے تھے ‘‘-[29]

عشق رسول ():

از درمها نام شاهان بر کنند
نام احمد تا ابد بر میزنندؔ[30]

بادشاہوں کے نام تو سکوں سے مٹا دیتے ہیں، احمد(ﷺ) آپ کا اسم نامی تا قیامت منقش رہے گا-

’’بر اسم محمد(ﷺ ) جان نثار فدا و تصدیق خود در یک دم ہزار بار روی محمدی (ﷺ)‘‘ [31]

’’تُو اسمِ محمد (ﷺ ) پر جان قربان کر دے اور ایک ہی پل میں ہزار بار رخِ محمدی (ﷺ ) پر تصدق و فدا ہو جا‘‘-

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ مُحمد (ﷺ) سے اجالا کردے[32]

فقر محمدی:

فقر فخری از گزاف است و مجاز
نی هزاران عز پنهان است و ناز[33]

’’فقر میرا فخر ہے، نہ گپ ہے نہ مجاز ، لاکھوں عزتیں اور ناز پوشیدہ ہیں‘‘-

فقر کیا چیز ہے؟

’’فقر حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کا ورثہ ہے‘‘-[34]

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم این متاع مصطفٰےؐ است[35]

’’فقر ذوق شوق و تسلیم و رضا کا نام ہے، یہ حضور (ﷺ) کی متاع ہے اور ہم اس کے امین ہیں‘‘-

امتحان کن فقر را روزی دو تو
تا به فقر اندر غنا بینی دو تو[36]

تو دو دن فقر کو آزما لے تاکہ فقر کے ذریعے تجھے دوگنی غنا نظر آے- (مثنوی معنوی، مولانا جلال الدین رومی)

جاودانی التجائی با فقر باشد تمام
احتیاج از کس نباشد فقر لایحتاج نام[37]

فقر جب کامل ہو جاتا ہے تو اسے التجا و التماس کی حاجت نہیں رہتی اور نہ وہ کسی سے غرض رکھتا ہے کہ اس کا نام ہی لا یحتاج فقر ہے-

فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ[38]

 

عظمتِ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ):

’’لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ‘‘[39]

’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا‘‘-

چون عمر شیدای آن معشوق شد
حق و باطل را چو دل فاروق شد[40]

’’جب حضرت عمرؓ اُس معشوق کے نور کے شیدا بنے دل سے حق و باطل میں امتیاز کرنے والے (فاروق) ہو گئے‘‘-

’’ طالبِ مولیٰ کے کیا معنی ہیں؟ طواف کنندۂ دل، جیسے کہ صاحبِ عدل حضرت عمر بن خطاب(رضی اللہ عنہ)‘‘-[41]

درون خویش بنگرن جہان را
کہ تخمش در دل فاروق کشتند[42]

اپنے اندر اس جہان کو آباد کر، جس کا بیج فاروقِ اعظمؓ کے دل میں بویا گیا تھا-

حضرت علی (رضی اللہ عنہ):

مَن کنتُ مُولاه فهذا علي مولا ‘‘[43]

’’جِس کا مَیں مُولا اُس کا علیّ مولا ہے‘‘-

گفت پیغامبر علی را کای علی
شیر حقی پهلوان پر دلی
مر علی را در مثالی شیر خواند
شیر مثل او نباشد گرچه راند[44]

’’ (حضرت) علی(رضی اللہ عنہ) سے پیغمبر(ﷺ) نے فرمایا اے علی(رضی اللہ عنہ)! تو اللہ کا شیر ہے، بہادر ہے، دلیر ہے-حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو شیر کی مانند کہا، شیر ان جیسا نہیں ہوتا ہے اگرچہ (یہ مثال) جاری ہو گئی ہے-

شاہ علی شیر بہادر وانگن وڈھ کلمیں کُفر نوں سَٹیا ھو[45]

’’شاہِ مرداں حضرت مولیٰ علیؓ نے حضور (ﷺ) سے فقر کی دولت پائی‘‘-[46]

مسلم اول شہ مرداں علی ؓ
عشق را سرمایہ ایمان علی  ؓ[47]

مولا علیؓ سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے، بہادروں کے سردار اور مولا علی (رضی اللہ عنہ)عشق حقیقی کیلئے ایمان کا سرمایہ ہیں‘‘-

 

اقراء :

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا -

آدم خاکی ز حق آموخت علم
تا به هفتم آسمان افروخت علم[49]

حضرت آدم علیہ السلام نے حق تعالی سے علم سیکھا اس علم نے آپ (ﷺ ) کو ساتویں آسمان تک روشن کردیا-

’’ اگر حضور(ﷺ ) کا کوئی اُمتی اَقْرَأْ بَسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقْ، پڑھے اور اسم اللّہُ کے ذکر میں مشغول رہے تو اس کے دل میں معرفت اِلَا اَللّهَ روشن ہو جاتی ہے‘‘-[50]

مدعای "علم الاسما" ستی
سر "سُبحَانَ اَلذَی اسرا" ستی[51]

وہ قرآن پاک کی اس آیت پاک کا مدعا ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دئیے- وہ اسرار کے بھید کا رازدان ہے ( دینوی اور روحانی علوم سے آشنا ہوتا ہے )

(جاری ہے)


[1](اخلاص : 1)

[2]( مثنوی معنوی)

[3]( دیوان باھُو، غزل نمبر :1)

[4]( رموزِ بیخودی )

[5](مثنوی معنوی)

[6]( کلید التوحید کلاں)

[7]( ضربِ کلیم)

[8](الانبیاء: 69 )

[9](مثنوی معنوی)

[10](محک الفقر)

[11]( بانگ درا)

[12](الصفٰت: 102)

[13](مثنوی معنوی)

[14](ابیاتِ باھو)

[15]( بالِ جبریل )

[16](مثنوی معنوی)

[17](عقل بیدار)

[18]( رموزِ بیخودی)

[19](القدر:1)

[20](مثنوی معنوی)

[21](محک الفقر)

[22](ضربِ کلیم)

[23](مثنوی معنوی)

[24]( نور الھدیٰ)

[25]( رموزِ بیخودی)

[26](جامع صغیراز سیو طی، ج:1)

[27](مثنوی معنوی)

[28](عین الفقر)

[29](خط بنام نیازالدین خاں - فتراکِ رسول-7، حضرت علامہ اقبالؒ )

[30](مثنوی معنوی)

[31](عقلِ بیدار)

[32]( بانگِ درا)

[33](مثنوی معنوی)

[34](عین الفقر)

[35]( پس چہ بائد کرد)

[36](مثنوی معنوی)

[37](محک الفقر کلاں)

[38]( ضربِ کلیم)

[39](صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابۃ)

[40](مثنوی معنوی)

[41](عین الفقر)

[42]( ارمغانِ حجاز)

[43](سنن الترمذی ،رقم  الحدیث:23 )

[44](مثنوی معنوی)

[45](اَبیاتِ باھُو)

[46](محک الفقر)

[47]( اسرارِخودی )

[48](العلق:1)

[49](مثنوی معنوی)

[50]( محک الفقر)

[51]( اسرارِ خودی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر