ردِبدعات : تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

ردِبدعات : تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

ردِبدعات : تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد اپریل 2020

بدعت کی لغوی تعریف :

بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے- اس کا معنی ہے:

’’کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا‘‘؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں-[1]

جوہری بدعت کی لغوی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’انشاء الشیء لا علی مثال السابق، و اختراعہ و ابتکارہ بعد ان لم یکن ‘‘[2]

’’کسی بے سابقہ چیز کو وجود میں لانا اور اس چیز کا اختراع و ’’ابتکار کرنا جس کا نمونہ پہلے موجود نہ ہو‘‘-

امام ابنِ حجر عسقلانی الشافعی، بدعت کی لغوی تعریف یوں کرتے ہیں:

’’البدعة أصلها: ما أحدث علی غير مثال سابق‘‘[3]

’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو‘‘-

بدعت کی شرعی تعریف :

امام راغب اصفہانیؒ بدعت کی شرعی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’والبدعة فی المذہب ایراد وقول لم یستسن قائلھا وفاعلھا فیہ بصاحب الشریعة و اماثلھا المتقدمة واصولھا المتقنة ‘‘[4]

’’دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل ہے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا ہو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا ہو ‘‘-

امام ابنِ حجر عسقلانی الشافعیؒ بدعت کے شرعی و اِصطلاحی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا‘‘[5]

’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو- اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں- لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے- شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں- پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ‘‘-

فقہاءِ اسلام کی نظر میں بدعت کی تقسیم:

آئمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام نے ارشاد نبوی (ﷺ)اور سنّتِ خلفائے راشدین(رضی اللہ عنھم) کی روشنی میں خاص علمی نظم سے بدعت کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں :

1- بدعتِ حسنہ

2- بدعتِ سیئہ

امام بیہقیؒ (المتوفی: 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ سیدنا امام شافعیؒ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’المحدثات من الأمور ضربان:  أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذکانت فليس فيها ردُّ لما مضي‘‘[6]

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ (گمراہی والی) ہے - اور (بدعت کی) دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو - پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومہ ہیں (یعنی ان کی تردید نہیں کی جائے گی) - اسی لیے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی ’’اچھی بدعت‘‘ ہے‘‘ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور جب اس طرح ہے تو اس میں ایسی چیز کا رد نہیں ہے جو گزر چکی ہے‘‘-

سیدنا امام شافعیؒ کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا - بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو، مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو - اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا اس کی تردید یا مذمت نہیں کی جائے گی - جیسا کہ علمِ اسما الرجال و جرح و تعدیل اور صوفیائے کرام کے اسمائے باری تعالیٰ و آیاتِ قرآنیہ سے مختلف اذکار کے طریقے- اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام کے اصل اصول سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ’’بدعتِ سیئہ‘‘ ہو گی - جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے ظاہری و باطنی فضائلِ کثیرہ و معجزات کا انکار ، اُمتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی تکفیر ، بے گناہ و معصوم لوگوں پہ بنامِ دین خود کش حملے اور دہشت گردی کے فتوے -

اسلام کی علمی روایت میں بدعتی گروہ:

بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو-  اس اعتبار سے بدعت اہل سنت کے خلاف ایک نقطہ نظر اور مکتبہ فکر ہے -  فکر اور اعتقاد کا پہلا فتنہ جس سے امت میں بدعت کا آغاز ہوا وہ گستاخی و اہانتِ رسول (ﷺ) تھا- اسلام کی تاریخ میں پہلا بدعتی پہلا گستاخِ رسول (ﷺ) تھا اور وہ شخص صحیح احادیث مبارکہ کے مطابق ذوی الخویصرہ تمیمی تھا جس سے خارجیت اور گستاخی رسول (ﷺ) کی فکر کا آغاز ہوا-

آئمہ علم جب اہل بدعت کے ابتدائی طبقات کی ترتیب کو بیان فرماتے ہیں تو سب سے پہلا نام ہر ایک نے بلااختلاف خوارج  کا لکھا ہے ،  خوارج کی دو سب سے بڑی نشانیاں ہیں ، ایک اُمتِ محمدی (ﷺ) کی بات بے بات تکفیر کرنا اور دوسرا سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے توہین و اہانت کا رویہ روا رکھنا - شیخ الاسلام والمسلمین امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نَوَوی الشافعیؒ خوارج کی تعریف یوں کرتے ہیں :

’’الخوارج : صنف من المبتدعة يعتقدون أن من فعل کبيرة کفر، وخلد فی النار، ويطعنون لذلک فی الأئمة ولا يحضرون معهم الجمعات والجماعات‘‘[7]

’’خوارج بدعتیوں کا ایک گروہ ہے- یہ لوگ گناهِ کبیرہ کے مرتکب کے کافر اور دائمی دوزخی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں- اسی وجہ سے مسلم اُمراء و حکام پر طعن زنی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین وغیرہ کے اجتماعات میں شریک نہیں ہوتے‘‘-

 معجزات مصطفےٰ (ﷺ) کا انکار اور عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ)   کے اظہار کو غلو سے تعبیر کرنے کی روش کو بھی علمائے اسلام نے بدعت لکھا ہے اسی حوالے سے امام نَوَوِی الشافعی رحمہ اللہ نے حضرت زجاج کا بہت ہی معنیٰ خیز قول نقل فرمایا ہے :

’’قَالَ الزَّجَّاجُ وَقَدْ أَنْكَرَهَا بَعْضُ الْمُبْتَدِعَةِ الْمُضَاهِيْنَ الْمُخَالِفِي الْمِلَّةِ وَذَلِكَ لَمَّا أَعْمَى اللهُ قَلْبَهٗ وَلَا إِنْكَارَ لِلْعَقْلِ فِيْهَالِأَنَّ الْقَمَرَ مَخْلُوْقٌ لِلهِ تَعَالَى يَفْعَلُ فِيْهِ مَا يَشَاءُ كَمَا يُفْنِيْهٖ‘‘

’’حضرت زجاج نے فرمایا کہ بعض’’ بدعتی سرکش‘‘ اور ملت کے مخالفین نےاس (معجزۂ شق القمر) کا انکار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو (نورِ بصیرت سے) اندھا کر دے حالانکہ عقلی طور پر اس میں انکار کی گنجائش نہیں ہےکیونکہ چاند اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جوچاہتا ہے تصرف فرماتا ہے-جیسا کہ اسے فنا فرما دے گا‘‘-

فقہائے اسلام نے معتزلہ، منکرین حدیث اور خبر احاد کی حجیت کا انکار کرنے والوں کو بھی بدعتی گروہ کے تحت بیان کیا ہے جبکہ بعض ائمہ کرام نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی عظمت کا انکار کرنے والوں کو بھی بدعتی شمار کیا ہے

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:

’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں- یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں- جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے‘‘-[8]

فقہائے اسلام نے قدریہ، جبریہ، مرجیئہ اور مجسمہ کے نظریات کے حامل باطل فرقوں کو بھی بدعتی گروہ کے طور پر بیان کیا ہے

امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعتی گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے  اپنی کتاب تہذیب الاسماء واللغات ‘‘میں فرماتے ہیں:

’’ للبدع المحرمة أمثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجئة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة‘‘[9]

’’بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں: قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے‘‘-

اِمام ملا علی قاریؒ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکاۃ میں بدعتی گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة‘‘[10]

’’جہاں تک بدعت محرمہ کا تعلق ہے جیسا کہ جبریہ، قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور ان جیسے مذاہب کا رد بدعت واجبہ سے کیا جائے گا‘‘-

تعلیماتِ باھوؒ کی روشنی میں مفہوم بدعت:

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ صوفیاء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو زندگی کے ہر گوشے میں اتباع کتاب و سنت کی تلقین اہل سلوک و طالبانِ مولیٰ کو فرماتے تھے- آپؒ کسی ایسے قول و فعل کے قائل نہ تھے جن سے شرع محمدی (ﷺ) کی خلاف ورزی ہو جیسا کہ اپنے فارسی کلام میں اپنے متعلق فرماتے ہیں:

ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم

’’میں نے ہر مرتبہ شریعت کے ذریعہ حاصل کیا اور شریعت کو اپنا پیشوا بناکر رکھا‘‘-

آپؒ شریعتِ محمدی (ﷺ)کی اتباع کرنے والے اور بدعت سے بیزار تھے- آپؒ کے دور میں بھی اہل تصوف میں کئی بدعات در آئی تھیں جن کے خلاف جہاد آپؒ نے اپنے قلم سے فرمایا- آپؒ کی تقریباً تمام تصانیف میں بدعات کا پُرزور رَد جا بجا نظر آتا ہے- آپؒ کی نظر میں اہل تصوف وہی ہے جو سلوک کی راہ میں شریعتِ محمدی (ﷺ) کے حصار میں رہے- خود کو اہل تصوف کہنے والا، اپنے آپ کو مرشد کہنے والا کوئی بھی شخص اگر فقہ اسلامی کی کھلم کھلا حکم عدولی کرتا ہے تو آپؒ کی تعلیمات کے پیش نظر وہ شخص مرشد نہیں بلکہ بدعتی ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’جب تو کسی مرشد کو دیکھے کہ اس کی دائیں جانب نغمہ و سرور میں مشغول گلوکار ہیں- بائیں جانب اُم الخبائث شراب یا مجلس اہل دنیا ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے روبرو حسن پرستی میں مشغول ہیں اور ان کے پسِ پشت فقراء ہیں تو ایسا مرشد شیطان ہے- جو بھی اس سے ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ ایک ساحر و کاہن و کاذب کا استدراج ہے‘‘-[11]

آپؒ کی تعلیماتِ کی روشنی میں ہر وہ باطن سے تعلق رکھنے والے امور جو ظاہر کے خلاف ہوں باطل ہیں- آپؒ نے اپنی تصانیف میں اہل بدعت کا رد کثرت سے فرمایا ہے لیکن آپؒ جہاں بھی بدعتی گروہ کا ذکر فرماتے ہیں یا لفظ بدعت پر گفتگو فرماتے ہیں اس سے مراد بدعت حسنہ نہیں ہے- آپؒ نے اپنی کتب میں صرف بدعت سیئہ کو موضوع بحث بنایا ہے یعنی وہ شخص یا گروہ بدعتی ہیں- (بدعت سیئہ کا مرتکب ہے) جن کے اقوال و افعال دینِ اسلام سے متضاد ہوں، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہوں، یا کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہے ہوں-

اگر حضرت سُلطان العارفینؒ کے زمانہ اور اُن کی تصانیف کو آمنے سامنے رکھ کے پڑھا جائے تو اُس زمانے کے علمی مسائل کو قطعِ نظر نہیں کیا جا سکتا - اگر آپ کے معاصر علمی مسائل کو سامنے رکھ کے دیکھیں تو تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آپؒ کی تصانیف میں جہاں جہاں بھی لفظ بدعت آیا ہے اس سے اولین مراد دارالشکوہ کی بدعتی تحریک ہے جس کے خلاف آپؒ نے اپنی تصانیف کے ذریعے جہاد بالقلم فرمایا ہے - اور اس عہد میں دارالشکوہ کے مقابل اورنگ زیب عالمگیرؒ کی کھل کر سیاسی حمایت بھی فرمائی اور انہیں محی الدین اور حضور نبی کریم (ﷺ)کا منظورِ نظر فرما کر عوام کے دل میں ان کی محبّت کو راسخ فرمایا-

دارالشکوہ کا بدعتی گروہ:

دارالشکوہ مغل شہنشاہ شاہجہان اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا، اورنگ زیب عالمگیر کا بھائی اور حضرت سلطان باھوؒ کا ہم عصر تھا- دارالشکوہ 1615ء کو اجمیر شریف میں پیدا ہوا اور 1659 عیسوی میں 44 برس کی عمر میں وفات ہوئی جبکہ حضرت سلطان باھوؒ کا سن ولادت 1630 عیسوی ہے اور سن وصال 1691 عیسوی ہے-

دارالشکوہ کے حوالے سے تقریباً تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ علم دوست تھا- اس کی کتاب سکینتہ الاولیاء اور سفینتہ اولیاء علمی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں اس نے صوفیاء کرام کی حالات زندگی کو جمع کیا اور بالخصوص سلسلہ قادریہ کے مشائخ کے حالات کو تفصیل سے بیان کیا- جس کی وجہ سے بعض مسلمان اس سے عقیدت بھی رکھتے ہیں لیکن برصغیر میں احیائے اسلام کی مساعی و جہود کے نقطۂ نظر سے اگر ہم دارالشکوہ کے حالاتِ زندگی کو پڑھیں تو یہ بات تقریباً تمام مؤرخین نے لکھی ہے کہ وہ ہندو فلسفے سے بہت متاثر تھا - اور اس بات کی دلیل اس کی کتابوں سے ملتی ہیں- دارالشکوہ کی ہندو فلسفہ پر لکھی گئیں کتب مندرجہ ذیل ہیں:

’’(1)مجمع الجرین، (2) سراکبر ما سرالاسرار، (3)مکالمہ سوال و جواب دار شکوہ بابا لال داس بیراگی، (4) طریقتہ الحقیقت، (5) رسالہ نامہ عرفانی‘‘-[12]

 دارالشکوہ کی ان کتابوں سے دارالشکوہ کے مذہبی رجحانات کا علم ہوتا ہے وہ اپنی کتاب کا آغاز اللہ تعالیٰ کی ثنأ ، رسول اللہ (ﷺ) کی توصیف اور منقبت سے کرتا ہے مگر اس نے اپنی متعدد کتب سے تصوف اور ہندوؤانہ عقائد میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے- جس کی وجہ سے نہ صرف وہ غلط نتائج پر پہنچا بلکہ گمراہی کے گڑھوں میں جا گرا- جیسا کہ وہ خود اپنی کتاب مجمع البحرین کے مقدمے میں لکھتا ہے:

’’ہندوؤں سے میل جول اور بحث و مباحث سے مجھے معلوم ہوا کہ معرفت ربانی کے سلسلے میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو اختلاف ہے وہ محض زبان و بیان کا ہے‘‘-[13]

اسی طرح وہ اپنی کتاب مجمع الجرین میں تصوف اور ویدانت کو سمندر کے دو دھاروں سے تعبیر کرتا ہے اور دونوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتا نظرآتا ہے- اب یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے کہ تصوف اور ویدانت میں فرق صرف لفظوں کا ہے معانی کا کوئی فرق نہیں ہے اور وہ اپنے عقیدے کو بنیاد بنا کر اس میں مطابقت کی کوشش بھی کرے-اگر یہاں پر دارالشکوہ کے لیے نرم گوشہ بھی اختیار کیا جائے کہ اس کی سوچ اچھی تھی وہ دراصل دو قوموں کے درمیان دیرینہ اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس میں کوئی تردد کا پہلو نہیں رہ جاتا کہ اس کی سوچ نے اسے الحاد کی طرف مائل کیا-[14]

دارالشکوہ کو ہندو فلسفے سے کتنی دلچسپی تھی- اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ہندؤوں کے 150 اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور اس کا نام سر اکبر یا سرالاسرار رکھا اور اس بات کا اظہار دارالشکوہ نے اپنی اسی کتاب میں یوں کیا ہے:

’’میں نے ہندو علوم کے مرکز یعنی بنارس کے رہنے والے پنڈتوں اور سنیاسیوں کو جمع کیا اور ان کی مدد سے 6 ماہ کے عرصے میں دہلی میں اپنشدوں کا ترجمہ مکمل کیا‘‘-[15]

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دارالشکوہ کے ابتدائی ادوار کی کتب کودیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کے عقائد پر نظر آتا ہے اور سلسلہ قادری کا پیروکار، صوفیاء کرام سے عقیدت مند نظر آتا ہے لیکن جب ہم دارا کی زندگی کے اواخر کی تصانیف کو دیکھتے ہیں تو اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے نظریات میں الحاد داخل ہو چکا تھا- وہ ان تصانیف میں ہندو فلسفے اور صنمیات سے متاثر نظر آتا ہے -دارالشکوہ کے انہی ملحدانہ خیالات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

’’شاہ جہاں کے آخری دور میں جب معاملات دارالشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو وہ(یعنی دارالشکوہ) کھل کر ہندوؤں کی حمایت کرنے لگا- اس نے ویدوں کے مذہبی اور فلسفیانہ حصوں کا جو اپنشد کہلاتے ہیں، سرالاسرار کے نام سے ترجمہ کیا اور کہا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے‘‘-[16]

دارالشکوہ کے ان ہی الحادی و بدعتی عقائد کے سبب حضرت سُلطان العارفین ؒ نے اس کے شراکت ادیان کے نظریہ کی بیخ کنی اپنی تصانیف کے ذریعے فرمائی-

رد بدعتِ اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ:

 حضرت سلطان باھوؒ نے جہاں جہاں بدعات پر گفتگو فرمائی ہے اس سے اولین مراد آپؒ کے عہد کے تناظر میں دارالشکوہ اور اس کے متبعین ہے اور وسیع اور اصولی تناظر میں دیکھا جائے تو ہر وہ گروہ یا شخص ہے جو شریعتِ محمدی (ﷺ) سے برگشتہ ہو اور بدعت سیٔہ کی تعریف کے زمرے میں آتا ہو- مضمون کے اختصار کے پیش نظر صرف آپؒ کی دو تصانیف ’’کلید التوحید‘‘ اور ’’عین الفقر‘‘ کے چند اقوال مخصوص عنوانات کے تحت پیش خدمت ہیں-

  1. 1.      بدعتی دجال ہے

’’جو شخص سرود و بدعت سے دوستی رکھتا ہے وہ دجال ہے‘‘- [17]

  1. 2.      اہل حق ، بدّعت کسی صورت قبول نہیں کرتے

’’قوتِ دین یہ ہے کہ کسی کے پاس رات کو کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو اور کوئی اُسے سونے کے ایک لاکھ دینار دے کر کہے کہ اِسلام کی مذمت کر اور میرے مذہب ِ بدعت کو اختیار کراور وہ دین ِمحمدی (ﷺ) کا تبادلہ مالِ دنیا لعین سے ہر گز نہ کرے تو معلوم ہوگا کہ ابھی دنیا میں صاحب ِاِستقامت دیندار لوگ موجو د ہیں جو بے دینی کو ہر گز قبول نہیں کرتے ‘‘-[18]

  1. 3.      اہل بدعت مرشد نہیں ہوتے

’’یہ اہل بدعت طالب دنیا زندیق لوگ مرشد نہیں ہوتے‘‘-[19]

  1. 4.      اہل بدعت پر احادیث

آپؒ نے اپنی ان دو تصانیف میں اہل بدعت سے متعلقہ جو احادیث رقم فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں- حضور نبی کریم (ﷺ) کی احادیث مبارکہ ہیں:

’’من ترک ذرة بدعة خیر لھم من عبادة الثقلین‘‘

’’کسی کا ذرّہ بھر بدعت کو ترک کرنا دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے‘‘-

’’لا تجلسو مع اھل البدعة‘‘

’’اہل بدعت سے میل جول مت رکھو‘‘-

’’اھل البدعة کلاب النار ‘‘[20]

’’ اہل بدعت جہنم کے کتے ہیں‘‘-

  1. 5.      اہلِ بدعت علما شیطان کے ساتھی اور ناقابلِ اعتبار

’’جو شخص علم حاصل کرتا ہے اور بدعت میں جا پڑتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ خبیث جن ہے- اس پر اعتبار نہ کیا جائے کہ شیطان نے پچاس ہزار سال علم حاصل کیا اور پھر پچاس ہزار سال تک فرشتوں کو علم سکھاتا رہا لیکن فرمان حق تعالی ہے :

’’اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ‘‘[21]

’’اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجتاً) کافروں میں سے ہوگیا‘‘-[22]

  1. 6.      فقر تک وہی پہنچتا ہے جو بدعت و گمراہی میں قدم نہیں رکھتا

’’فقر الہی کے مرتبے پر وہی شخص پہنچتا ہے جو بدعت و گمراہی میں قدم نہیں رکھتا کیونکہ یہ صدق و تصدیق قلب کا مرتبہ ہے-[23]

  1. 7.      اہل ہدایت و اہل بدعت میں فرق

’’اہل ہدایت کا بھلا اہل بدعت سے کیا واسطہ؟‘‘

’’اپنے آپ میں گم ہو جا، اہل بدعت مت بن اور دونوں جہاں سے ہاتھ دھو لے ‘‘-

’’لباس جاہل سے شرک و کفر اور جہالت و بدعت کا ظہور ہوتا ہے ‘‘-[24]

  1. 8.      اہل بدعت و ملحد لوگ نماز و سجدہ کے نزدیک نہیں جاتے

’’جب کافر و ملحد و اہل بدعت لوگوں کو ابلیس کا قرب حاصل ہو جاتا ہے تو وہ نماز و سجدہ کے قریب نہیں جاتے‘‘-

’’دین باطل کی طرف مائل یہ ملحد لوگ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ نماز اس وقت تک فرض ہے کہ جب تک انسان مراتب یقین تک نہیں پہنچ جاتا اور جب انسان مراتب یقین پر پہنچ جائے تو نماز روزہ فرض نہیں رہتا- خبردار! یہ شیطان لعین کا فریب اور کافر و بے دین نفس امارہ کی حجّت بازی ہے‘‘-[25]

حرف آخر :

اہل سلوک و طالبان مولا کیلئے حضور سلطان العارفین کی تعلیمات مرشد کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ آپؒ کی جملہ تصانیف سالکان حق کو شریعت کی پابندی کا درس دیتی ہیں- عہد حاضر میں نئے نئے فتنے تصوف کے نام پر سامنے آ رہے ہیں جن کے اعمال و افعال شریعت مطاہرہ سے متصادم نظر آتے ہیں - اللہ‎ پاک ہمیں ایسے فتنوں سے محفوظ فرمائیں اور شریعت محمدی (ﷺ) پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](ڈاکٹر طاہر القادری ، کتاب البدعہ، لاہور، منہاج پبلیکیشنز، ص :22)

[2](لسان العرب، ص:8)

[3](فتح الباری،جلد: 4، ص: 253)

[4](مفردات الفاظ القرآن ، ص:39)

[5](فتح الباری،ج: 13، ص : 253)

[6](سير أعلام النبلاء،ج: 8، ص : 408)

[7] (نووی، روضة الطالبين، 10 : 51)

[8](حجۃ اللہ البلاغہ، اردو، ج:1، ص:242، مترجم عبدالحق حقانی، طبع محمد سعید اینڈ سنز کراچی)

[9](نووی، شرح صحيح مسلم،ج:1، ص:286)

[10](ملا علی قاری، مرقاة شرح مشکوٰة، ج:1، ص:216)

[11](محک الفقر کلاں)

[12](اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، لاہور، دانش گاہ پنجاب ، 1392ھ/1972ء ، ج:9، ص:154)

[13](سکینۃ الاولیاء، ص: 31)

[14](علی محمود ’’ دارشکوہ‘‘، ص:29)

[15](سکینۃ الاولیاءص :33)

[16](شبلی نعمانی، ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘،اسلام آباد ، ناشرایمل مطبوعات ص:2)

[17](کلید التوحید کلاں)

[18](ایضاً)

[19](ایضاً)

[20](عین الفقر)

[21]( البقرہ:34)

[22](ایضاً)

[23](کلید التوحید کلاں)

[24](عین الفقر)

[25](کلید التوحید کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر