حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’انتہا ابتدا کی طرف لوٹنے کا نام ہے‘‘- یعنی تصور ِاسم اللہ ذات سے نور میں پہنچنا اور نار ِظلمات سے باہر آنا-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: اَللہُ (اسم اللہ ذات) مومنوں کا دوست ہے جو اُنہیں ظلمات سے نکال کر نور میں لے جاتا ہے‘‘- یہ مراتب ہیں معرفت ِقرب اللہ حضور کے- بعض دعوت خوان علمِ دعوت پڑھنے میں عامل کامل ہوتے ہیں اور بعض صرف عامل ہوتے ہیں- اگر کوئی اہل ِدعوت عامل حالت ِغضب میں کسی ملک و ولایت و تعلقہ میں باترتیب دوگانہ نماز میں سورۃ مزمل کی دعوت پڑھ لے تو وہ ملک و ولایت و تعلقہ قیامت تک ویران و برباد رہے گا اور اگر وہ یہ دعوت کسی ملک و ولایت و موضع و تعلقہ کی آبادی کے لئے اخلاص و لطف و کرم سے پڑھ لے تو وہ ملک و ولایت و موضع و تعلقہ آفات و رنج و ظلم اور ظالموں کے شر سے قیامت تک محفوظ و سلامت رہے گا- یاد رکھیے کہ مؤمن کے لئے فرحت الروح فیض فضلی کا مرتبہ یہ ہے کہ زندگی میں اُس کے بدن سے تجلیات ِنور کا ظہور ہو اور مرے تو اُس کی خاک ِقبر سے نور ِذات کے شعلے نکلیں، اُس کا وجود ظاہر باطن میں مغفور ہو اور وہ ہر خوف و غم سے آزاد درویش ہو-
دانا بن اور یاد رکھ کہ نفس ِامارہ خبیث اور ابلیس علیہ اللعنت بعض علما ٔو فقرأ مومن مسلمانوں کو عبادت ِثواب میں مشغول کر کے ثواب کی آڑ میں گناہوں سے خراب کر کے معذب کرواتے ہیں اور اِس کے بعد اُسے پیشۂ بندگی میں فضیحت و ریا میں مبتلا کرتے ہیں جس سے حجاب ِگندگی پیدا ہو جاتا ہے- نزدیک ِحق یہ سب باطل ناپسندگی ہے - اے احمق جاہل ہوا!سالک عارف ِخدا مرشد تلاش کر کہ سالک راہ و رسم رسومِ حیُّ قیوم سے بے خبر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر منزل و ہرمقامِ سلک سلوک سے باخبر ہوتا ہے- صاحب ِنظر عارف باللہ نبی اللہ کی طرح معرفت ِ الا اللہ اور معرفت ِفی اللہ کا سیرانی ہوتا ہے اور باطن میں خضر نظر ہونے کی وجہ سے زندگی میں نفس و شیطان کے شر سے محفوظ اور مرنے کے بعد حیات ِ جاودان سے سرفراز صاحب ِحضور اہل ِقبر روحانی ہوتا ہے-
ابیات: (1)’’ مخلوق اُسے قبر میں زیرِ خاک مردہ سمجھتی ہے حالانکہ قبر میں وہ دائم قرب اللہ حضوری میں ہوتا ہے‘‘-(2)’’خلوت ِقبر میں وہ ربّ کا جلیس اور ذات ِحق کا انیس ہوتا ہے جہاں کسی کی خلل اندازی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘‘-(3) ’’خلوت ِقبر میں سوائے ذات ِحق کے فرشتوں کی کوئی جگہ نہیں ، وہاں تو فقط عارفانِ ذات ِحق دائم حیات رہتے ہیں‘‘-(4)’’قبر میں جانا گویا وحدت ِحق کے نور میں غرق ہونا ہے کہ قبر میں لقائے حق کی یافت اور حق بحق حضوری ہوتی ہے‘‘-
نہ ہر سنگ ِقبلہ لائق ِسجدہ ہے، نہ ہر سنگ کسوٹی ہے، نہ ہر سنگ میں پارس ہے اور نہ ہر سنگ میں لعل ہے-اِسی طرح نہ ہر انسان کا وجود لائق ِمعرفت اللہ وصال ہے، نہ ہر سر لائق ِبادشاہی ہے اور نہ ہر دل گنجِ الٰہی و لائق ِ آگاہ گواہی ہے- نہ ہر سنگ کوہِ طور ہے اور نہ ہر انسان مثل ِ موسیٰ کلیم اللہ صاحب ِحضور ہے-نہ ہر سنگ سنگ ِمرمر ہے اور نہ ہر دل محبت پرور ہے- وجودِ فقیر کامل ہوتا ہے کہ غرق فنا فی اللہ ہونے کی وجہ سے اُس میں حکمت ِاسم و مسمّٰی کا معما شامل ہوتا ہے- الغرض! دعوت ِعین عیانی پڑھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اِس سے جملہ مطالب ِقرب ِربانی، وجود فنا فی اللہ فانی، تزکیۂ نفس، تصفیہ ٔ قلب، تجلیۂ روح، کل مخلوقاتِ جِن و اِنس و وحوش و طیور و فرشتہ و اٹھارہ ہزار عالم کے جملہ مراتب کا تصرف حاصل ہو جائے،ہر زندہ و اہل ِقبر روحانی سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہو جائے، علمِ منطق و معانی پڑھنا آ جائے، تمام پوشیدہ خزائن ِ الٰہی ظاہر ہو جائیں اور اُن کا تصرف حاصل ہو جائے- (جاری ہے)