مسلم انسٹیٹیوٹ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے19 اور 20 فروری 2019 کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ’’مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُو: پیا مِ مہرو ہم زِیستی دَر پَر تَو عِرفان‘‘ کے موضوع پر انٹرنیشنل کا نفرنس کا انعقاد کیا-آذربائیجان، کینیڈا، انڈیا، ایران، پاکستان، ترکی اور انگلینڈ سے سکالرز نے کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے مقالہ جات پیش کیے - کانفرنس سات (7) مختلف سیشنز (افتتاحی سیشن، چار اکیڈمک سیشنز، اختتامی سیشن اور کلام سیشن) پر مشتمل تھی-
افتتاحی سیشن
افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے کی جبکہ جناب راجہ یاسر ہمایوں سرفراز (وزیر برائے تعلیم و سیاحت پنجاب) اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر (ڈین فیکلٹی آف اوریئنٹل لرننگ پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے سپاسنامہ پیش کیا- معزز مہمانانِ گرامی میں پروفیسر ڈاکٹر ناصر افضل (وائس چانسلر یونیورسٹی آف ساہیوال)، عزت مآب محمد رضا نذیری (کونسل جنرل ایران برائے لاہور)، ڈاکٹر عجائب سنگھ چٹھہ (چیئرمین قلم فاؤنڈیشن، کینیڈا) اور عزت مآب الاس ارتاس (ڈائریکٹر یونس ایمرے ترکش کلچرل سنٹر لاہور) شامل تھے- انجینئر رفاقت ایچ ملک (ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے -
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-
حضرت مولانا جلال الدین رومی اور حضرت سلطان باھُوؒ دونوں صوفیاء کا پیغام بغیر کسی تخصیص کے ہر رنگ، نسل، زمانہ اور زبان کے لوگوں کیلئے ہے- ان ہستیوں کا پیغام انسانیت کا درس دیتا ہے اور انسان کو اُس باطنی عظمت کی جانب راغب کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نےاُسے بخشی ہے - اگر ہم مولانا رومیؒ کو دیکھیں تو آٹھ سے زیادہ صدیاں گزر چکیں لیکن آج بھی مولانا کی تعلیمات اتنی ہی بامقصد ہیں جتنی آج سے 800 سال قبل تھیں-اسی طرح حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے دور کو گزرے تقریباً ساڑھے تین سو سال ہو چکے ہیں اور ان کی تعلیمات آج بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں جتنی ان کے زمانہ میں تھیں- اگر کسی کے اندر طلبِ الہی اور حق کی جستجو ہے تو آپؒ طالبان حق کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے رہنمائی کرتے ہیں-
طالب بیا طالب بیا طالب بیا |
مولانا بھی کچھ اسی طرح کی بات کرتے ہیں
اے تشنگان! اے تشنگان! امروز سقائی کنم |
’’اے پیاسو! میرے پاس آ جاؤ اگر تمہاری زمینیں بنجر ہیں، میں تمہاری زمینوں کو جنت اور کوثر بنا دونگا‘‘-
آج دنیا کو خاص طور پر اور ہمارے خطے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم آپس میں رواداری، امن و آشتی ،مہر و محبت اور احترام کا پیغام پھیلائیں اور اسی کو زندگی کا اسلوب بنائیں- تعلیمی مراکز وہ جگہ ہیں جہاں سے پیغام اور نظریات دنیا بھر کو جاتے ہیں- کسی یونیورسٹی میں ایسا سیمینار جس میں اپنے زمانے کے دو عظیم صوفیاء کاذکر کیا گیا ہو جن کا پیغام مہر و محبت، امن و آشتی، رواداری اور روحانیت پر مبنی ہو، ضروری ہے کہ اس کا پیغام سب تک پہنچایا جائے-مسلم دنیا یا مشرقی دنیا سے ساری دنیا کو جو روشن پیغام دیا جاتا ہے وہ مہر و محبت،احترام اور رشتوں کی تقدیس کا ہے- ڈپلومیٹک نگاہ سے یہ نشست ایک پیار ، صلح ، محبت ، امن اور بھائی چارہ کی منادی ہے -
حضور نبی پاک (ﷺ) نے جب ریاست مدینہ قائم کی تو اس کا ایک بنیادی اصول تھا کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی امن کی فضا قائم کی جائے- جب ہم مشترکہ اساس ڈھُونڈتے ہیں تو اس سے انسانوں میں محبت اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے- صوفیاء کا فلسفہ تمام انسانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے - جس طرح صوفیاء نےامن کے پیغام کو پیش کیا وہ لوگوں کے دلوں میں بس گیا ہے اور وہ صدیوں سے اس پر عمل پیرا ہیں- مولانا رومؒ ہوں یا حضرت سلطان باھُو ؒ ان کے کلام سےانسانیت کی محبت کا ایک مشترکہ پیغام ملتا ہے-
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ موم بتی بننا آسان کام نہیں کیونکہ روشنی دینے کے لیے اس کو پہلے خود جلنا پڑتا ہے- مزید مولانا رومیؒ نے دنیا میں امن کے فروغ پر بہت زیادہ زور دیا ہے-
پہلا اکڈیمک سیشن
کانفرنس کے پہلے اکڈیمک سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر نوشاد خان (ایکٹنگ وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی، پشاور) نے کی- ڈاکٹر محمد مہدی ناصح (پروفیسر فردوسی یونیورسٹی مشہد ایران)، ڈاکٹر عجائب سنگھ چٹھہ(چیئرمین قلم فاؤنڈیشن کینیڈا)، ڈاکٹر سید غضنفر احمد ( فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز، کراچی یونیورسٹی)، پروفیسر ڈاکٹر دھنونت کور(ایڈیشنل ڈائریکٹر، بابا فرید سنٹر فار صوفی سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ، انڈیا) اور ڈاکٹر عنبر یاسمین (نمل یونیورسٹی ، اسلام آباد) نے اس سیشن میں اپنے مقالہ جات پیش کیے اور خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے -
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-
عرفان کا اصلی جوہر اور منبع عشق ہے اور یہ اللہ تعالی سالک اور عارف کے دل میں ڈال دیتے ہیں جس تک پہنچنے کے لئے سالک سیر و سلوک اور معرفت کی راہ اختیار کرتا ہے- عرفان کی بنیاد عشق پر ہے جیسا کہ شیخ سعدی ؒفرماتے ہیں:
به جهان خرم از آنم که جهان خرم ازوست |
مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُو اس بات کے معتقد ہیں کہ تمام موجودات حقیقت میں ایک ہی جوہر کے زیر اثر ہیں اور وہ جوہر اللہ تعالی کی ذات ہے- اسی طرح حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) عاشقِ حق ہیں-آپؒ کے اسم مبارک میں بے شمار رموز و اشارات موجود ہیں- سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو کی شان اور ان کا مرتبہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا-آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’میں لا مکان کا شہباز ہوں اور لامکان میں مکھیوں کی جگہ نہیں ہے‘‘-
تزکیہ نفس سے مراد نفس کو آلائشوں سے پاک کرنا، نفس انسانی میں موجود شر کے فکری غلبے کو دور کرنا اور اسے ان گناہوں سے پا ک کرنا جو روحانی نشوو نما میں رکاوٹ بنتے ہیں-مولانا بھی تزکیہ کو تصوف کی اصل قرار دیتے ہیں-مولانا کہتے ہیں کہ یہ جو تمہارے نفس کے اندر آلودگی آ گئی ہے یہ روحانی بیماریاں ہیں اور جب تک ان بیماریوں کو دور نہیں کرو گے تب تک روحانیت کی منازل طے نہیں کر سکتے- ان صوفیا ء کرام نے عوامی زبان میں لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا -
جب انسان اپنی ذات کی نفی کر لیتا ہے تو وہ قُربِ توحید کے اس مقام پر ہوتا ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں یوں کیا گیا ہے:
’’ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ‘‘[1]
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘-
سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں کہ دل کی دنیا آباد کر لو کیونکہ جب دل کی دنیا آباد ہو جاتی ہے تو رب اس دل میں آجاتا ہے-
مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ نے معاشرے بالخصوص نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار کی ترویج کی بات کی-ایسی کانفرنسز کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم اخلاق کا درس اگلی نسل تک پہنچائیں- آج ہر شخص مادی ترقی کی دوڑ میں شامل ہے لیکن اپنی اخلاقی حالت درست کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے- ایک کامل انسان بننے کے لئے سب سے پہلے اچھے اخلاق کا ہونا ضروری ہے- پہلے یہ تعلیم ہمیں اپنے سماج سے مل جاتی تھی- لیکن اب سماج میں وہ تعلیم نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے آج سکولز، کالج اور یونیورسٹیوں میں اخلاقیات پڑھانے کی ضرورت ہے- اگر ہم اخلاقیات کی تعلیم شروع کر دیں تو ہمارے سکولز کالجز اور یونیورسٹیز کا ڈسپلن تبدیل ہو جائے گا- اخلاقیات کی جو تعلیم مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُوؒ جیسے بزرگوں نے دی ہے آج کے بچوں کو اس تعلیم کی اشدضرورت ہے-
مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُو ؒدونوں انسانیت کے ایسے عظیم رہنما ہیں جنہوں نے اپنے زمانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے؛دونوں صوفیاء کا پیغام بلاشبہ ابدی خواص کا حامل ہے-
دوسرا اکڈیمک سیشن
دوسرے اکڈیمک سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر افضل (وائس چانسلر یونیورسٹی آف ساہیوال) نے کی- پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، ڈاکٹر محمد سفیر (سربراہ شعبہ فارسی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگو یجز اسلام آباد)، جناب ایم اے خان (انگریزی مترجم کتب حضرت سلطان باھُوؒ) اور جناب محمد عظیم (ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اپنے مقالہ جات پیش کیے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر محمد صابر (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-
پنجابی ابیات کے علاوہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کی دیگر تعلیمات پر مسلم دنیا اور محققین کو تحقیق کا موقع نہیں ملا-اس کی وجوہات حضرت سلطان باھُوؒ کی کُتب کے قلمی نسخوں کی عدم دستیابی اور آپؒ کی جانب سے استعمال کی گئی روحانی تراکیب کا سمجھ میں نہ آنا ہے- علاوہ ازیں جن کتب کا ترجمہ کیا گیا ہے، ان میں روحانی تراکیب کا محض لفظی ترجمہ کیا گیا ہے جس سے ان تراکیب کا مفہوم واضح نہیں ہوتا- تاہم ان کتب کی تعلیم حضرت سلطان باھُوؒ کے خانوادہ کے بعض افراد نے حاصل کی-عصرِ حاضر میں آپؒ کی کُتب پر تحقیق کا کام شروع ہوا ہے-
حضرت سلطان باھوؒ نے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی تھی-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) مادر زاد ولی اللہ ہیں- آپ سلطان العارفین تھے اور کئی کتب میں آپ نے اپنے لیے شہبازِ لامکاں کی ترکیب استعمال کی- بعض صوفیہ کے مطابق لامکاں سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر اور یاھوت سے نیچے ہے- حضرت سلطان باھُوؒ نے اسمِ اللہ ذات کے ذکر کی تلقین کی اور آپ کی تمام تصانیف کا محور اسمِ اللہ ذات ہے- جیسا کہ آپ اپنے پہلے بیت میں فرماتے ہیں:
اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُو |
جب اسمِ اللہ ذات بدن و روح پر وارد ہوتا ہے اور جسم کا ایک ایک بال ذکر میں محو ہو جاتا ہے تو سکون و اطمینان کا دور دورہ ہوتا ہے جیسے کسی گلاب کی کلی کھلتی ہے اور خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے- جس طرح کلی کے کھلے بغیر خوشبو کا پیدا ہونا ممکن نہیں اسی طرح جب تک کسی کی روح یا قلب پر اسم اعظم وارد نہیں ہوتا، سکون و اطمینان کا حصول ممکن نہیں- یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہماری سوچ ہمارے جسمانی عوامل پر اثر انداز ہو تی ہے اور مثبت سوچ مثبت رویوں کو جنم دیتی ہے جس سے ہم اپنے معاشرے اور ماحول کے لیے تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں- اسمِ اللہ ذات کے ذکر کا بنیادی مقصد اپنی ذات کی پہچان اور پھر اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے-
ہمیں اسلام کے روحانی پہلوؤں کو سمجھنا چاہیے اور اس کو اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اس سے ہماری ذہنی بڑھُوتری ہو سکے اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں- جب تک ہم روحانیت کی تعلیم و تحقیق کو اپنے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بناتے، سب باتیں زبانی جمع خرچ شمار ہوگی-
فقر کےلفظی معنی تنگ دستی و مفلسی کے ہیں لیکن صوفیاء کے نزدیک فقر سے مراد اللہ تعالیٰ سے حاجت مندی اور اسباب ظاہری سے بے رغبتی کے ہیں اور یہ روحانیت کا بلند ترین مقام ہے- بے نیازی اللہ تعالیٰ کی صفت ہےاور انسان اس صفت سے متصف تب ہوتا ہے جب وہ دنیاوی شان و شوکت اور جاہ و جلال کو ٹھکرا کر خدا وند کریم کی ذات میں فنا ہو جاتاہے - صوفیاء کرام نے فقر کا مفہوم قرآن کریم اور رسول اللہ(ﷺ) کی حیات طیبہ سے اخذ کیا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:
’’اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّی‘‘
’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘-
مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُوؒدونوں کا کلام آفاقی ہے- یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے ہر دور میں صدائے حق کو بلند رکھا - مولانا نے اپنے کلام اور بالخصوص مثنوی میں اور سلطان باھُو نے اپنی تمام کُتب خصوصاً ’’عین الفقر‘‘ اور ’’محک الفقر‘‘ میں فقر کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں :
کوڑا تخت دنیا دا باھُو تے فقر سچی بادشاہی ھُو |
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ فقر کو اس لیے فخر کہا گیا ہے کہ فقر کی جو پہلی منزل بتائی جاتی ہے وہ دنیا کو چھوڑ دینا ہے جس کے بارے میں حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں :
جاں جاں ذات نہ رلے باھُو تاں کم ذات سدیوے ھُو |
تیسرا اکڈیمک سیشن
تیسرے اکڈیمک سیشن کی صدارت ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی (یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ) نے کی- ڈاکٹر بصیرہ عزیزہ لیوا (آذر بائیجان نیشنل اکیڈمی آف سائنسز، آذر بائیجان)، پروفیسر ڈاکٹر خالق داد ملک (چئیرمین شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان (چیئرپرسن شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی لاہور)، ڈاکٹر شگفتہ یاسین عباسی(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگو ئجز، اسلام آباد) اور ڈاکٹر محدث السعدات رضائی (شعبہ فارسی، خیام یونیورسٹی، مشہد، ایران) نے اپنے مقالہ جات پیش کیے اور خیالات کا اظہار کیا جبکہ عزیز اللہ شاہ ایڈوکیٹ(ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے -
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات کا خلاصہ درج ذیل ہے:-
مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُوؒ جیسی نابغہ روزگار روحانی شخصیات کا مطالعہ اور ان کے نظریات و تعلیمات کا پرچار نہایت اہمیت کا حامل ہے- مولانا کی تصانیف جیسا کہ 25000 اشعار پر مشتمل ’’مثنوی‘‘، 70000 اشعار پر مشتمل ’’دیوانِ کبیر‘‘، ’’رباعیات‘‘، ’’مجلسِ صبا‘‘ اور مولانا کی گفتگو پر مشتمل’’فیہ ما فیہ‘‘ نے مشرقی و مغربی مصنفین پر گہرے اثرات مرتب کیے- لوگوں کی مولانا سے محبت اور والہٰانہ عقیدت کا اندازہ ان کے فلسفہ زندگی سے لگایا جا سکتا ہے- مولانا کے خیالات قرآنی تعلیمات پر بنیاد رکھتے ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ- مولانا بھی اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ کبھی مایوس نہ ہو کیونکہ امید ہمیشہ موجود ہے- تاریکی کی جانب نہ جاؤ کیونکہ سورج ہمیشہ موجود ہے- ایسے امید افزاء نظریات کسی بھی انسان کا دل جیتنے کے لیے کافی ہیں-
حضرت سلطان باھُوؒ 140 کتب اور ابیات کے مصنف ہیں جو روحانی تربیت و ترقی کا منبع ہیں- آپؒ نے اپنی ساری زندگی الوہی حقیقت کے پرچار کیلئے وقف کردی- آپ کا بنیادی مقصد انسان کی باطنی و روحانی تربیت کے ذریعے لوگوں اور معاشرے میں وحدت، اخوت، امن اور شعور کی ترویج ہے-
حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کی پُر مغز تعلیمات کئی اعتبار سے مولانا کے لافانی نظریات سے مماثلت رکھتی ہیں- ہم اس بات کا بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ حضرت سلطان باھُوؒ کے ابیات اور مولانا رومیؒ کی مثنوی میں بہت زیادہ فکری مماثلت موجود ہے جیسا کہ روحانی بالیدگی، روح کی پاکیزگی اور اخلاص کی تلقین دونوں شخصیات کے کلام میں پائی جاتی ہیں- روحانی عقل و شعور انسان کو ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب رہنمائی کرتا ہے- اسی طرح مولانا رومی ؒ عشق کو اخلاص کا اعلیٰ ترین مقام قرار دیتے ہیں- اس کے علاوہ دونوں صوفیاء بیان کرتے ہیں کہ راہِ حق کے حصول میں طالب جو مصائب برداشت کرتا ہے وہی اس کی زندگی کا اصل حسن ہیں- جتنا اس کی طلب میں اخلاص ہوگا، اتنا جلد اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے گا- دونوں شخصیات نے عوام الناس پر الٰہیاتی و ابدی راز منکشف کیے- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ دونوں نے انسان کی اہمیت پر زور دیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا آئینہ قرار دیا-
اہل تصوف کے ہاں علم کو دو معنوں میں دیکھا جاتا ہے ایک علم ظاہری اور دوسرا علم باطنی- علم ظاہری زندگی کے ساز و سامان کو پورا کرنے کےلیے کافی ہوتاہے، جب کہ علم حقیقی علم باطن ہے جس سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے اور دل کے دریچے وا ہوتے ہیں- حضرت سلطان باھُو ؒ علم ظاہر کو منزل کی ابتداء اور علم باطن کو نقطہ عروج سمجھتے ہیں - جبکہ مولانا رومؒ کہتے ہیں کہ جو علم انسان کو اپنے حقیقی مقصد کی طرف راہنمائی فرمائے وہی علم حقیقی ہے- بقول حضرت سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ):
علم دانی چیست؟ راہ دریافتن |
’’یعنی علم کیا ہے ؟ علم حقیقت میں ایک راستے کا تعین ہے جو آپ کو اللہ تعالی کی طرف لے کر جائے‘‘-
تاریخِ اسلام میں جب بھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا اور تمام ادارے مفلوج ہوئے تو صرف ایک ادارہ اپنی پوری قوت اور اپنے منفرد طرز فکر و عمل کے ساتھ میدان میں موجود رہا اور وہ ادارہ صوفیائے کرام کی خانقاہیں ہیں- اس بات کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے-پروفیسر ایچ آر گبز (Prof. H.R. Gibbs) نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ بارہا تاریخِ اسلام میں ایسے مواقع آئے کہ اسلامی کلچر کا شدّت کے ساتھ مقابلہ کیا گیا لیکن اسے مغلوب نہ کیا جاسکا-اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک انتہائی مضبوط ادارہ یعنی کہ تصوف کا ادارہ اس اسلامی کلچر کی بقاء کے لیے فوراً مصروفِ عمل ہوجاتا تھا-
سوالات و جوابات :
وقفہ سوالات و جوابات میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
صوفیا ءکی خانقاہیں مسجد، مدرسہ اور درگاہ سے عبارت ہوتی ہیں -ماضی میں ایک خانقاہ میں مسجد اور مدرسہ کا ہونا لازم تھا-وہیں پر جدید علوم سکھائے جاتے تھےجیسا کہ جامعہ نظامیہ البغداد میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم سکھائے جاتے تھے وہیں سے سائنس دان پیدا ہو رہے تھے، وہیں سے انجینئر پیدا ہو رہے تھے اور وہیں سے مذہبی اسکالرز پیدا ہو رہے تھے اور ان میں کوئی تفریق نہیں تھی-ان مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کا معاشرے میں اہم کردار تھا- صوفیائے کرام کا طرز عمل ہے کہ وہ عوام کے اندر گھل مل جاتے ہیں اور ان کے انداز کو اپنا لیتے ہیں- ایک صوفی عوامی مزاج کا ادراک کرتے ہوئے اپنے حسنِ اخلاق اور کردار و عمل کی مضبوطی کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لے آتا ہے- وہ معاشرے کے ساتھ بدلتے بھی ہیں اور بدل دیتے بھی ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کے احکام پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے ہیں-خانقاہ صرف خلوت کا نام نہیں ہے بلکہ رسمِ شبیری ادا کرنا بھی فرض ہے- صوفیاء نے ہمیشہ خانقاہ سے نکل کر معاشرے اور وقت کی ضرورت کے مطابق نہ صرف معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور اصلاحِ عامہ کیلئے کام کیا بلکہ ظلم و استبداد کے خلاف بھی علمِ حق کو بلند کیا-
چوتھا اکڈیمک سیشن
کانفرنس کے چوتھے تعلیمی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سید محمد اکرام (چیئرمین شعبہ اقبالیات، پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے کی- پروفیسر مہر سوہراب مریم (شعبہ فارسی، خیام یونیورسٹی، مشہد ایران)، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد (سربراہ شعبہ فارسی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور)، جناب منصور آفاق (شاعر و کالم نگار) ڈاکٹر زاہد منیر عامر (چیئرمین شعبہ اردو، پنجاب یونیورسٹی) اور ڈاکٹر عصمت ناز (ڈین فیکلٹی آف اکنامکس، وویمن یونیورسٹی ملتان) نے اپنے مقالہ جات پیش کیے اور خیالات کا اظہار کیا- پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر خان عامر (چیئرمین شعبہ اردو، پنجاب یونیورسٹی) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
علامہ اقبال نے جاوید نامہ کی ایک نظم میں بتایا کہ آپ مولانا کو کیوں پڑھیں اور کیوں اختیار کریں : آپ مولانا کواس لئے اپنا راہنماء بنائیں کہ وہ مغز کو چھلکے سے الگ کر کے دیکھنا جانتے ہیں-ان کا قدم دوست کے کوچے میں پڑتا ہے دوست کے کوچے میں اگر آپ جانا چاہتے ہیں اگر آپ اس کی حقیقت سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو مولانا کو راہنما بنانا ہو گا - اقبال آپ کو مولانا تک لے جاتے ہیں اور مولانا آپ کو قرآن مجید تک لے جاتے ہیں- مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کے کلام کی ہمیں اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اس کی مدد سے قرآن پاک تک پہنچ جائیں اور اپنے باطن کی حقیقت سے روشناس ہو سکیں-مولانا جب اپنے مرشد کا ذکر کرتے ہیں تو بے خود ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:
در هوایت بی قرارم روز و شب |
میں تیری خواہش میں روز و شب بے قرار ہوں اور میں ایک لمحے کیلئے بھی آپ کے قدموں سے سر نہیں اٹھاتا-مولانا رومی اور حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک جو مرشد کا تصور ہے وہ کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتا جیسا کہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:
اے تن میرا چشماں ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ھُو |
جس طرح حضرت سلطان باھُو اور مولانا رومؒ نے محبت امن اور عرفان کا پیغام پھیلایا ہے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنی نسل کی تربیت کریں تاکہ وہ ابھی اس پیغام کو آگے پھیلائیں-
اقبال کے مطابق یہ شخصیات اپنی آستینوں میں یدِ بیضا چھپائے ہوئے ہیں یعنی ایسے روحانی خزانوں سے مالامال ہیں جو کہ شہنشاہوں کو بھی حاصل نہیں- ان میں مولانا رومی، حضرت سلطان باھُو، بایزید بسطامی، بہاؤ الدین ذکریا، فرید الدین گنج شکر اور داتا علی ہجویری جیسی نابغہ روزگار شخصیات شامل ہیں-
حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) محض ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی تحریک کی زندہ و جاوید مثال ہیں جو کہ اسمِ اللہ ذات کے ذکر کے ذریعے فرد اور معاشرے کے تزکیہ کے لیے مصروفِ عمل ہے- یہ تحریک انسان کے قلب و باطن کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرتی ہے- حضرت سلطان باھُو کو نبی کریم (ﷺ) کی کچہری کی حضوری نصیب ہے اس لیے آپؒ اپنے پیروکاروں کی صحیح سمت میں رہنمائی فرماتے ہیں-
اختتامی سیشن:
اختتامی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری (شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے کی- اس موقع پر جناب ہارون الرشید (کالم نگارو تجزیہ کار) مہمانِ خصوصی تھے- ڈاکٹر فلیحہ کاظمی (سربراہ شعبہ فارسی، لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی) نے اپنا مقالہ پیش کیا-صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اختتامی کلمات ادا کئے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر (ڈین کالج آف اوریئنٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی) نے اظہار تشکر کیا- پروفیسر ڈاکٹر سعادت علی ثاقب (شعبہ پنجابی، پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-
مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
صوفیاء کا بنیادی طور پر یہی مقصد اور وظیفہ رہا ہے کہ وہ عرفان کی ایسی منزلوں پر پہنچا دیتے ہیں کہ جہاں انسان انسان بن جاتا ہے اور اس کا تعلق عالم بالا کے ساتھ استوار ہو جاتا ہے- مولانا کا تعلق 13ویں صدی سے ہے اور حضرت سلطان باھو کا تعلق 17 ویں صدی سے ہے- ان کے درمیان چار صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن پیغام دونوں کا ایسا آفاقی ہے کہ دور ، دیار، حدود و قیود سے ماورا ہے - فرمایا گیا خلق خدا اللہ تعالیٰ کا ہی کنبہ ہے در اصل یہ درس باہمی احترام کا درس ہے، رواداری کو فروغ دینے کا درس ہے اور سلطان باھُو یا مولانا رومیؒ ہوں یہی پیغام دیتے ہیں- صوفیاء کے پیغام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کے ظاہر اور باطن میں بھی وحدت پیدا ہو جائے اور انسان اللہ کو ایک مانے- لیکن صوفیاء سے وحدت کا دوسرا پہلو یہ ملتا ہے کہ انسانوں کے مابین ایسی وحدت پیدا ہو جائے کہ منافقت کا ہر امکان رد ہو جائے- ظاہر اور باطن میں ایسی یگانگت ہو جائے کہ دوئی نہ رہے جو ہم ظاہر سے ہیں وہی باطن میں ہو- اگر تحمل، برداشت، بردباری اور محبت کو فروغ دیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے جو کہ صوفیاء کا منشور اور پیغام ہے -
ایک صدی پہلے اقبال نے کہا تھا :
اے مسلمان اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ |
آج اضطراب کیوں رہتا ہے اور سکون کیسے میسر آئے گا- فطرت سے جو جتنا زیادہ ہم آہنگ ہو تا ہے اتنا ہی شاد اور جتنا ہی دور ہو گا اتنا ہی بے سکون ہوتا ہے- حضرت جنید بغدادی، حضرت داتا گنج بخش، مولانا روم، حضرت سلطان باھُو، حضرت خواجہ فرید، علامہ اقبال فطرت سے ہم آہنگ اور دنیا سے بے نیاز دوسری دنیا کے تمنائی تھے- داتا گنج بخش عثمان بن علی ہجویری نے اپنے مرشد کی روایت سے لِکھا ہے : یہ دنیا ایک دن کی ہے اور اس کا ہم نے روزہ رکھ لیا ہے -
اس دو روزہ کانفرنس کا اصل مقصود یہ تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچے کہ کس طرح سے صوفیائے کرام کی تعلیمات نے معاشرے کی تشکیل نو کی-اس کے اندر انہوں نے اعتدال، اخلاق، امن، محبت، احترام، اخوّت، ہمدردی، بھائی چارے، عفو درگزر اور اس طرح کی تمام اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کی سعی و جستجو کی- یہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی تعلیم ہے اور اسی جانب قرآن مجید نے توجہ دلائی ہے- یہ وہ عملی چیز ہےجس کا صوفیاء نے مظاہرہ کیا، پریکٹس کی اورلوگوں کی تربیت کی- جہاں بھی ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ذکر آتا ہے اس کے ساتھ یہ باتیں لازمی طور پہ منسوب ہوتی ہیں-راہِ اِعتدال کو اقبال نے بادشاہوں، علماء اور صوفیاء سب کے ہاں تلاش کیا اور جہاں جہاں اس کو پایا انہوں نے اس کی تعریف بھی کی ہے- علامہ اقبال یہ چاہتے ہیں کہ اس سارے نظام سے خواہ وہ مدرسہ ہو، خانقاہ ہو یا حکومت کا انتظام و اہتمام ہو اس سے قومی تربیت کی جھلک آنی چاہیئے-اس لئے رواداری و اخوت ہر سوسائٹی کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور اس کانفرنس میں بھی ایسے موضوعات کا انتخاب تھا جن کے ذریعے ان گوشوں پر موثر روشنی ڈالی جا سکتی ہے-
٭٭
[1](سورہ ق:16)