"نورالھُدیٰ" کے انگریزی ترجمہ کی تقریبِ رونمائی (لاہور)

"نورالھُدیٰ" کے انگریزی ترجمہ کی تقریبِ رونمائی (لاہور)

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ نے حضرت سلطان باھُو کی تصنیفِ لطیف ’’نورالھُدیٰ‘‘کے انگلش ترجمہ کی تقریبِ رونمائی 28 فروری 2019ء بروز جمعرات ایوانِ قائد لاہور میں منعقد کی- کتاب کے مترجم ایم اے خان ہیں جبکہ ییل یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر گیرہارڈ بورنگ نے دیباچہ تحریر کیا ہے- کتاب العارفین پبلیکیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے-آصف تنویر ایڈووکیٹ (پبلک ریلیشنز آفیسر، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے تقریب کی کاروائی کو ماڈریٹ کیا-

تقریب میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات اختصار کے ساتھ درج ذیل ہیں:

افتتاحی کلمات :احمد القادری (ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ)

حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے زمانہ میں برِ صغیر ہندوپاک کا معاشرہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تفریق بلکہ شدت پسندی کا شکار تھا -حضرت سلطان باھُوؒ نے معاشرہ کی بنیادی اکائی یعنی ’’فرد‘‘کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اس کو اپنے قلب کو تمام آلائشوں سے پاک کرنے کا درس دیا- ’’نور الھُدیٰ‘‘ آپؒ کی 140 تصانیف میں سے ایک ہے- اس کے ترجمہ میں کم و بیش پانچ سال کا وقت لگا جس میں اس کتاب کا باریک بینی اور عمیق طور پر مطالعہ کیا گیا- یہ ترجمہ شبانہ روز محنت اور کاوشوں کی وجہ سے دوسرے صوفی تراجم میں ممتاز مقام کا حامل ہے- اس ترجمہ کا دیباچہ ییل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر گیرہارڈ بورنگ نے تحریر کیا ہے- یہ کتاب اپنے طور پر انوکھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ نہ صرف مغرب کو حضرت سلطان باھُو ؒ کی تعلیمات سے متعارف کرائے گی بلکہ صوفی لٹریچر ، تصوف اور صوفی ازم میں مزید عوامی دلچسپی کا باعث بنے گی-

جناب ایم اے خان (مترجمِ کتاب)

میں اپنے آپ کو نہایت خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ مجھے اس کتاب کے ترجمہ کے عظیم کام کا موقع ملا- یہ کام کبھی ممکن نہ ہوتا اگر میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور حضرت سلطان باھُوؒ کی باطنی شفقت شاملِ حال نہ ہوتی جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘-میں نے اس کتاب میں حضرت سلطان باھُوؒ کی جانب سے استعمال کی گئی روحانی اصطلاحات پر غور کیا تو کچھ لطیف نکات، جیسا کہ طالب اور سالک کا فرق،کی تشریح ضروری سمجھی تاکہ ابہام نہ رہے- لہٰذا مستشرقین کی اصطلاحات کی بجائے نئی اصلاحات استعمال کیں جو مفہوم کے قریب تر ہوں- اسی طرح ، وحی اور الٰہام کو ایک ہی معنیٰ میں لیا جاتا ہے جبکہ اِس میں فرق ہے- اسی طرح اس بات کو بھی بیان کیا گیا کہ معجزہ نبی سے مخصوص ہے جبکہ کرامت اولیائے کرام کا خاصہ ہے- اِس لئے میں نے ترجمہ کےساتھ ساتھ اصطلاحات پہ زیادہ محنت کی ہے کیونکہ صوفیا کرام کی کتب اصطلاحات کو صحیح تناظر میں سمجھے بغیر سمجھ میں نہیں آ سکتیں -

ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی لاہور)

حضرت سلطان باھُوؒ کی فارسی شاعری نے مجھ پر گہرے اثرات چھوڑے-آپؒ کی تصنیف ’’نورالھُدیٰ‘‘کے ترجمہ و متن کی نظر ثانی میرے لیے باعثِ اعزاز ہے- جب میں نےاس کام کا آغاز کیا تو میں جناب ایم اے خان  کی بطور مترجم صلاحیتوں کی قائل ہو گئی- جب میں نے ’’اسمِ اللہ ذات‘‘کے موضوع کا ترجمہ پڑھا تو میں دنگ رہ گئی کہ الفاظ اور اصطلاحات کا چناؤ ایسا تھا کہ حضرت سلطان باھُوؒ کا پیغام مکمل طور پر قارئین پر واضح ہورہا تھا-ہر جملے میں الفاظ کے ترجمہ کے ساتھ ان کا مفہوم اور تشریح بھی بیان ہوا ہے- مترجم نے تصوف کے پیغام کو پڑھنے والوں تک پہنچانے کے لیے الفاظ کا خوب چناؤ کیا ہے- ’’نور الھُدیٰ‘‘ اہل دانش کے لیے ایک شاندار تخلیق ہے- میری دعا ہے کہ ایسی کاوشیں مستقبل میں بھی جاری رہیں-

پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر( ڈین فیکلٹی آف اوریئنٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی لاہور)

ایسے لٹریچر کا ترجمہ ایک نہایت ہی مشکل کام ہے- یہ تحقیق اور تخلیق سے بھی سخت اور کٹھن کام ہے - ایک مترجم ہی اس کی اہمیت کا اندازہ کرسکتا ہے-ایسے لٹریچر کے ترجمہ میں دو اہم عوامل پسِ منظر میں ہوتے ہیں پہلا باطنی بیداری صوفیانہ لٹریچر کے ترجمہ کےلیے لازم ہے اور دوسرا ، مشقت و محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کا کردار ہے کہ وہ جس کو چاہے اس عظیم کام کے لیے منتخب کر لے- تصوف کی اصطلاحات کوبسا اوقات مصنف کی اپنی زبان میں بھی بیان کرنا مشکل ہوتا ہے- مشرقی زبان کا مغربی زبان میں ترجمہ ایک کٹھن کام ہے کیونکہ زبانوں کی روایت الگ ہے ، ایک دائیں طرف سے شروع ہوتی ہے دوسری بائیں طرف سے ، اِس تہذیبی فرق میں مشرقی روایت کو مغربی زبان میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے - جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو آپ کو حیرت ہو گی کہ مترجم نے اصطلاحات کی وضاحت کا حق ادا کر دیا - نور الھُدیٰ حضرت سلطان باھُو ؒ نے اپنے معتقدین کی راہنمائی کے لیے لکھی اور یہ کتاب طالبانِ حق کو منزل کی جانب راہنمائی فراہم کرتی ہے- اس ترجمے کا سب سے اہم حصہ کتاب کے آخر میں دی گئی 10 صفحات پر مشتمل لغت ہے جس میں روحانی اصطلاطات کی تشریح دی گئی ہے-

پروفیسر بابر نعیم آسی( شعبہ فارسی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور)

جب جہانگیر بادشاہ لاہور میں تھا تو اس نےکسی درویش سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی-بادشاہ کو بتایا گیا کہ ایک درویش حضرت شاہ حسین ہیں لیکن وہ کسی بادشاہ سے ملتے نہیں ہیں-ایک دن جہانگیر نے آپ کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا -کمند ڈالی گئی اور حضرت شاہ حسین کو کھینچ کے بادشاہ کے سامنے لایا گیا-بادشاہ نے ان کی تعظیم کی -انہوں نے پوچھا کہ مجھے کیوں بلایا ہے؟ بادشاہ کہنے لگا کہ آپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کو کس نے درویش بنایا -حضرت شاہ حسین فرمانے لگے کہ تو ایک بادشاہ ہے اور ایک عام آدمی تجھ سے نہیں مل سکتا لیکن اگر تو کسی سے ملنا چاہے تو اس کو اپنے دربار میں طلب کر سکتا ہے- یہی راز درویشی کے پیچھے بھی ہے- یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جس نے مجھے درویشی سے نوازا- اس لیے صوفیاء کی تخلیق کے پیچھے خدائے بزرگ و برتر کی کرم نوازی اور نصرت شامل ہوتی ہے-حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے سے ناقص کامل ہو جاتا ہے،کامل اکمل ہو جاتا ہے، اکمل جامع مرشد ہو جاتا ہے اور جامع مرشد مرشد نور الہدیٰ کی حثیت اختیار کر لیتا ہے پھر وہ لوگوں میں روشنی بانٹتا ہے-

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ( اسسٹنٹ ڈائریکٹر، اقبال اکادمی، پاکستان)

جب ہم حضرت سلطان باھُوؒ کی تصنیف کردہ کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کا ادبی اثاثہ ایک ممتاز مقام پر فائز نظر آتا ہے- صوفیائے کرام صوفی ادب میں مختلف اور مخصوص حالات و واقعات کی روشنی میں روحانیت کی تشریح فرماتے ہیں- صوفی ازم اصل میں تاریخی واقعات کے تذکرہ سے زیادہ عمل کا نام ہے-حضرت سلطان باھُوؒ کا ادبی اثاثہ ان کے اپنے روحانی تجربات اور مشاہدات پر مشتمل ہے- اس لیے آپ نے اپنے کلام میں ایسی اصطلاحات استعمال کیں جو کسی اور صوفی بزرگ کے کلام میں نہیں ملتی- اس ضمن میں ایم اے خان صاحب کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں-

ڈاکٹر اجمل نیازی (شاعر ، کالم نگارو مصنف)

پاکستان کے عوام کو روح و قلب کے سکون کے لیے صوفیائے کرام کی تعلیمات میں مزید دلچسپی لینی چاہیے کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان کے دل و دماغ کو اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا- اس ضمن میں ہمارا فارسی زبان کے ساتھ تعلق وقت کے ساتھ کمزور پڑا ہے-فارسی زبان کو بہت سے صوفیاء نے اپنے مافی الضمیر بیان کرنے کا ذریعہ بنایا- صوفیائے کرام ہمارے معاشرے کیلیے مشعلِ راہ ہیں- ترجمہ کیلیے زبان کا علم اہمیت کا حامل ہے لیکن روحانی تعلیمات کا ترجمہ آسان نہیں کیونکہ اس کیلیے زبان و بیان میں مہارت کے ساتھ روحانیت کی مختلف جہتوں کا علم بھی نہایت ضروری ہے- حضرت سلطان باھُوؒ کے ادبی کام کا انگریزی میں ترجمہ وقت کی نہایت ضرورت تھی کیونکہ انگریزی آج کل عالمی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے اور دنیا کے بہت سے حصے خصوصاً مغربی اقوام اس نابغہ روزگار علمی و ادبی کام سے محروم ہیں-  حضرت سلطان باھُو کی یہ تصنیف کوئی انگریز پڑھنے کی کوشش نہیں کر ے گا اگر کرے گا تو وہ انگریز نہیں رہے گا-

مہمان خصوصی :پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر )سابقہ ڈائریکٹر اقبال اکادمی، پاکستان(

تصوف کے بارے میں دو قسم کی کتب ڈیڑھ سو سال سے لکھی جا رہی ہیں- ایک وہ جو ’’تصوف پر‘‘ ہیں اور دوسری وہ جو ’’تصوف کی‘‘ کتب ہیں- نور الھُدیٰ اور اس کا ترجمہ دوسری قسم کی کتب میں شامل ہے جو تصوف کی اصل اساس کو بیان کرتی ہے ، یعنی یہ تصوف پر کتاب نہیں بلکہ تصوف کی کتاب ہے - کتاب کا نام نور الھُدیٰ ہے نوریعنی روشنی اور ھدیٰ یعنی ہدایت- یہ دونوں الہامی اور خدائی استعارے ہیں جس سے اس کتاب کا عنوان ترکیب پایا ہے-رومی نے کہا ہے کہ ’’کارِ مرداں روشنی و گرمی است‘‘ روشنی سے مراد نور ہے اور گرمی سے مراد ہدایت ، یہی اِس کتاب کا عُنوان ہے - یہ کتاب طالب کی تمام مقاماتِ تصوف پر رہنمائی کرتی ہےاور روحانی تجربات سے روشناس کرواتی ہے- یہ انسانی شعور کو سکون و اطمینان عطا کرتی ہے-صوفیاء نے ذات، رنگ اور قبیلہ سے بالاتر ہو کر انسان کی توقیر کی- یہی ان کی کامیابی کا راز تھا-

اختتامی کلمات :صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

حضرت سلطان باھُو ؒکی تحریر شدہ کتب حکمت و دانش سے لبریز ہیں، اس لیے حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب کو پڑھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے- بعض کتب کو شروع سے آخر تک روانی سے پڑھا جا سکتا ہےلیکن بعض کتب روحانیت کی بنیادی تعلیم اور تصوف کے ذوق و شوق کے بغیر سمجھنی نہایت مشکل ہیں -اس میں بنیادی شرط مقصدکی آگاہی کاحاصل ہونا ہے کہ کس مقصد کے لئے یہ کتب لکھی گئیں -ہرصوفی کا اپنا ایک روحانی تجربہ ہو تا ہے اوروہ اپنے تجربے کےمطابق روحانی اصطلاحات بیان کرتا ہے - حضرت سلطان باھُوؒ کا تجربہ دیگر صوفیاء سے منفرد ہے- آپ اپنے تجربے کو بیان کرنے کے لئے مروجہ اصطلاحات کو نئی روش میں پیش کرتے ہیں- بعض دفعہ قاری یوں محسوس کرتاہے کہ آپؒ کا تجربہ اتنا وسیع تھا کہ اس کے بیان کے لئے ذخیرہ الفاظ بھی کافی نہ تھے- آپ نے اپنے تجربے کو بیان کرنے کے لئے خود نئی اصطلاحات تخلیق کی -جیسے اقبال بھی کہتے ہیں :

حقیقت پے ہے جامہ حرف تنگ 

 

حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ

ایم اے خان صاحب کے ترجمہ میں انفرادیّت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت سُلطان باھُو کے روحانی تجربہ کو اُن کی اصطلاحات کو صحیح طور پہ انٹر پریٹ کرنے کی کوشش کی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر