تقریب رونمائی:حضرت سلطان باھوُکی تصنیفِ لطیف"نورالھُدی"کاانگلش ترجمہ (اسلام آباد)

تقریب رونمائی:حضرت سلطان باھوُکی تصنیفِ لطیف

تقریب رونمائی:حضرت سلطان باھوُکی تصنیفِ لطیف"نورالھُدی"کاانگلش ترجمہ (اسلام آباد)

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جون 2019

حضرت سلطان باھُو کی تصنیفِ لطیف’’نورالھُدیٰ‘‘کے انگلش ترجمہ کی  تقریبِ رونمائی01 مارچ 2019 بروز جمعہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں منعقد کی- کتاب کے  مترجم  ایم اے خان  ہیں جبکہ ییل یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر گیرہارڈ باؤرنگ نے  دیباچہ تحریر کیا ہے کتاب العارفین پبلیکیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے-تقریبِ رونمائی کی صدارت جناب عکسی  مفتی (مصنف و ماہرِ ثقافت) نے کی جبکہ اس موقع پر ائیر وائس مارشل(ر) فیض عامر (وائس چانسلر، ائیر یونیورسٹی، اسلام آباد) مہمانِ خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی و اختتامی کلمات ادا کیے  جبکہ پروفیسر احسان اکبر (مصنف و شاعر)، ڈاکٹر قیصرہ علوی (سابقہ ڈائریکٹر وویمن کیمپس، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)، ڈاکٹر خالد مسعود (سابق سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل)، ڈاکٹر محمد سفیر(سربراہ شعبہ فارسی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد)  ڈاکٹر مجیب احمد  (سربراہ شعبہ تاریخ ، مطالعہ پاکستان،  انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) اور ڈاکٹر عالیہ سہیل  خان(ڈائریکٹر راوالپنڈی کیمپس، یونیورسٹی آف گجرات) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- جناب ایم-اے-خان (مترجم کتاب) نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا- آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ (پبلک ریلیشنز آفیسر، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے تقریب کی کاروائی کو ماڈریٹ کیا-

مقررین کے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے: 

حضرت سلطان باھُوؒ کی کتاب ’’نور الھدیٰ‘‘کے لغوی معنیٰ ہدایت کی روشنی ہیں- یہ کتاب انسان کی روح، قلب اور دماغ کو لالچ، نفس پرستی، منافقت، غرور اور دنیا کی محبت جیسی آلائشوں سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے- ’’نور الھُدیٰ‘‘صوفی ادب کا شاہکار ہے جو نہ صرف طالبانِ مولیٰ کے لیے رشدوہدایت کا منبع ہے بلکہ یہ بھٹکے ہوئے قلوب کو بھی راہ راست پر لانے کی طاقت رکھتی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں کہ میری کتاب کسی اور کے کام کی نقل  نہیں ہے- میں نے یہ  کتاب عین قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھی  ہے اور کوئی مردہ دل ہی اس کا انکار کرے گا- اس کتاب کی ہر سطر خدائے بزرگ و برتر کے رازوں کی امین ہے-  

ترجمہ نے انسانی تاریخ میں ایک اہم رول ادا کیا ہے- اگر ہم تاریخ میں مسلمانوں کے عروج کے وقت کو دیکھیں تو مسلمانوں نے بھی روم اور یونان کے علوم کا عربی میں ترجمہ کیا اور اس سے استفادہ حاصل کیا- بعد میں جب تاریخ کا رخ بدلاتو اہل یورپ نے  مسلمانوں کے اس علمی خزانے کا انگریزی اور اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا-اسی طرح موجودہ دور میں چین، کوریا اور جاپان  جیسے ممالک نے بھی ان علوم کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا اور ترقی کی منازل کو سمیٹا- ترجمہ کا رجحان عالمی سطح پر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور مختلف ثقافتوں کی حامل قوموں کو نزدیک لانے میں یہ تراجم بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں-اس ضمن میں جناب ایم اے خان نے بڑی کاوش کی ہے کیونکہ صوفیاء کا لٹریچر انسان دوستی،پیار اور امن کا پیغام ہے-

حضرت سلطان باھُوؒ کی بیان کردہ اصطلاحات میں وحدتِ الٰہی کی تبلیغ، تزکیہِ نفس کے ذریعہ اپنی پہچان اور فقر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے- مولانا رومیؒ نے بھی مثنوی کے اندر انہی مراحل کا ذکر کیا ہے-حضرت سلطان باھُوؒ محض ایک صوفی ہی نہیں بلکہ سلطان العارفین بھی تھے-

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فرداً فرداً اس پیغام کو عام کیا جائے- جس طرح ایم-اے- خان صاحب نے اپنے حصہ کا کام کیا ہے ہمیں بھی صوفیاء کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے-یہ ترجمہ ہر ایک کے لیے مفید ہو گا خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو فارسی زبان کا علم نہیں رکھتے- کچھ لوگ صوفی ازم کے ابداء و ارتقاء کی بات کرتے ہیں- یہ علم  اسی دن شروع ہو گیا تھا جس دن سے کائنات کی ابتداء ہوئی تھی-  صوفی ازم کا تصور غارِ حرا کی خلوت میں نبی کریم (ﷺ)کے روحانی غور و فکر سے بھی ملتا ہے اور اس کے بعد اصحابِ صفہ بھی ہمارے لیے قابلِ تقلید ہیں-

عظیم صوفیاء کی جانب سے عربی اور فارسی میں لکھی گئی کتب کے بعض متن جزوی یا مکمل طور پر ضائع ہوگئے- اسی طرح حضرت سلطان باھُوؒ  کی تالیف شدہ کم و بیش 140 کتب  میں سے بھی کچھ کتب   مکمل طور پر محفوظ  نہ ہو  سکیں  جن  کے نسخوں  کی تحقیق و تصدیق  کے لیے العارفین پبلیکیشنز کوشاں ہے-صوفی ادب کی  انمول تصانیف جیسا کہ  ’’نور الھُدیٰ‘‘ بسا اوقات ہماری سمجھ سے باہر ہوں لیکن یہ ان جلیل القدر صوفیاء کے علم لدنی کی امین ہیں جن پر حقیقتِ ازلی کی روحانی جہتیں وا تھیں-  سی حرفی اور ابیات  ابھی تک پنجاب کے لوک گیتوں میں زندہ ہیں-  ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیاء کا پیغام جدید ذرائع سے دنیا میں پھیلایا جائے-

’’نور الھُدیٰ‘‘ حضرت سلطان باھُوؒ کا ایسا نابغہ روزگار کلام ہے جو آپ نے حال میں بیان فرمایا جس میں آپ نے انسان کے باطن کے راز منکشف کیے اور اس کتاب میں طالبانِ مولیٰ کے لیے  وحدت و عرفان اور تعلیم و تلقین کے چشمے پھوٹتے نظر آتے ہیں-   حضرت سلطان باھُوؒ بنیادی طور پر مفکرانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے- آپ کے فلسفہ کی عظمت کا آغاز ہی وہاں سے ہے جہاں مغربی فلسفہ نقطہ عُروج کو چھوتا ہے اس لیےشاید مغرب کو آپؒ کے فلسفہ باطن کی گہرائی سمجھنے کے لیے کئی دہائیاں لگیں گی- یہ کتاب انسان کے باطن کے رازوں پر مشتمل ہے-  تنوع، زمان و مکاں کی بحث، رات و دن، زندگی و موت، مایوسی و مسرت اور روزمرہ کی دنیاوی زندگی سے بہت آگے ایک ایسا مقام اور حقیقت ہے جو انسانی وجود کی تکمیل کرتا ہے- یہ وہ مقام ہے جو کلیت اور جامعیت کا سرچشمہ اور منبع ہے- حضرت سلطان باھُوؒ اس نکتہ اور مقام کو ’’الف‘‘ کا نام دیتے ہیں- اس ’’الف‘‘سے مراد، جیسا کہ آپؒ اپنے کلام میں بیان کرتے ہیں، وحدت ہے- ایسا نہیں ہے کہ مغربی مفکرین اس  ’’الف‘‘کے فلسفہ سے واقف نہیں- ان میں سے کئی محققین نے انسان کی حقیقت کو پانے کیلیے اپنی زندگیاں صرف کر دیں-

امریکن فلاسفر ولیم جیمز اس زعم میں مبتلا تھا کہ وہ اس عظیم حقیقت کو پانے ہی والا ہے- تمام کے تمام مغربی مفکرین آخرکار ناکامی کا شکار ہوئے اور انہوں نے اپنا رخ فلسفہ حقیقت سے موڑ کر فلسفہ مادیت اور دنیاوی حقائق کی جانچ پڑتال کی جانب کرلیا- یہی وجہ ہے کہ آج کے طالب علم کی توجہ فلسفہ کی جانب مبذول نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے اساتذہ فلسفہ کی تعلیم دیتے ہیں- اسی طرح ہمارے تعلیمی ادارے بھی فلسفہ کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے- اگر ہم فلسفہ کی تعلیم گہرائی کے ساتھ حاصل نہیں کریں گے تو جدید ذرائع اور انداز میں اپنے اکابرین کی تعلیم کو آگے کیسے بڑھا سکیں گے؟ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ خبردار فرماتے ہیں کہ ’’الف‘‘کی حقیقت پانا مرشدِ کامل کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے اور یہی کمی مغربی مفکرین کی ناکامی کی باعث بنی- وہ شخص ہی معرفت کے اس علمِ عظیم کو پا سکتا ہے جس کو مرشدِ کامل ’’اللہ ھُو‘‘ کا درس  اور اسم عطا کرتا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ کے مطابق ’’ھُو‘‘ذکر ہے اور ’’الف‘‘کی جانب رہنمائی کرتا ہے- آج اس بات کی ضرورت ہے کہ صوفی اصطلاحات اور عقائد کو مغرب کی سوچ اور تراکیب میں دیکھا جائے- ’’الف‘‘ اللہ عزوجل کا پوشیدہ اسم ہے اور اس کا علم توحید کی جانب لے جاتا ہے جو وحدانیت کا نقطہ عروج ہے-    یہ ’’الف‘‘پارس یا کیمیا گری کا راز ہے جس کوحضرت سلطان باھُوؒ عملِ اکسیر کا نام دیتے ہیں جو خام دھاتوں کو سونے میں بدلنے کی بجائے انسان میں باطنی انقلاب برپا کرنے اور اندر چھپے خزانہ کو پانے کا نام ہے- 

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر