ابیات باھوؒ : صِفت ثنائیں مُول نہ پڑھدے جو جا پہتے وِچ ذاتی ھو

ابیات باھوؒ : صِفت ثنائیں مُول نہ پڑھدے جو جا پہتے وِچ ذاتی ھو

ابیات باھوؒ : صِفت ثنائیں مُول نہ پڑھدے جو جا پہتے وِچ ذاتی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan مئی 2020

ص: صِفت ثنائیں مُول نہ پڑھدے جو جا پہتے وِچ ذاتی ھو
عِلم و عَمل اُنہاں وچ ہووے جِہڑے اَصلی تے اثباتی ھو
نال محبّت نَفس کُٹھونیں، گھِن رضا دی کاتی ھو
چوداں طَبق دِلے دے اندر باھوؒ پا اَندر وِی جھاتی ھو

They never initiated praising those who have reached Essence Hoo

Knowledge and practice is within those who are real and affirmative Hoo

With love they sever their nafs with knife of fate Hoo

Fourteen realms are within heart ‘Bahoo’ glance inwardly state Hoo

Sift sana’en mool na pa’Rhday jo ja pehty wich zati Hoo

Ilm o amal unha’N wich howay jeh’Ray asli tay asbati Hoo

Naal muhabbat nafs ku’Thonai’N ghin raza di kaati Hoo

Choda’N tabaq dilay day andar ‘Bahoo’ paa andar wi jhati Hoo

تشریح : 

-سلاسلِ تصوف کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض صوفیاء اسمائے صفات کے ذکر پہ زور دیتے ہیں اور بعض اسمِ ذات کے ذکر پہ –ذکرِ اسمِ ذات والے مقام ِ صفات پہ ٹھہراؤ کو مناسب نہیں سمجھتے اور جب کوئی طالب فنا فی عین ذاتِ یا ھو کے مقام پہ پہنچتاہے تو اسے تمام مقام ِ صفات حجاب نظر آتے ہیں- حضور سلطان العارفینؒ نے مرشد کامل کی شان بیان کرتے ہوئے یہی ارشادفرمایا :

’’پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی مرشد ِکامل مکمل کسی طالب اللہ کو اسم ِاَللہُ کا نقش عطا کرتا ہے تو اُسے پل بھر میں عین توحید ِ ذات میں غرق کر دیتا ہے- وہ اُسے صفات میں ہرگز نہیں چھوڑتا کیونکہ توحید برد کئے بغیر محض مقامات ِصفات تک پہنچانا سراسر شرک ہے‘‘- (عین الفقر)

پس معلوم ہوا کہ جمعیت اسم اﷲذات میں پنہاں ہے(کہ تمام مراتب اسم اﷲذات ہی سے کھلتے ہیں) اور جو آدمی اسم اﷲذات کی کنہ کو پا لیتا ہے اُسے کشف و کرامات اور مقاماتِ صفات کے مشاہدے کی حاجت نہیں رہتی ‘‘- (کلیدالتوحید(کلاں)

آپؒ نے مقام صفات سے گزر کرذات ِ اقدس تک پہنچنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’ذاتِ اِلٰہی تک رسائی صرف تصور ِاسم اللہ ذات ہی سے ہوتی ہے، تصورِ اسم اللہ ذات سے بندہ مقاماتِ صفات سے نکل آتا ہے اور نورِ ذات میں داخل ہو کر نجات پا جاتا ہے‘‘ - (کلیدالتوحید(کلاں)

آپؒ  نے خود اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں ارشادفرمایا :

من کہ گشتم بذات حق فانی

 

طیر سیر صفات کی دانی

’’مَیں ذاتِ حق میں فنا ہوچکا ہوں اِس لئے مقاماتِ صفات کی طیر سیر کو مَیں کیاجانوں؟‘‘ (نورالھدٰی)

2-’’قرآن ، توریت ، انجیل و زبور و ہر کتاب ِمسائل ِفقہ اسم اللہ ذات کی تفسیر ہے اور چاروں کتابیں اسم اللہ ذات کی شرح ہیں جو کوئی اسم اللہ ذات کو اُس کی کنہ سے پڑھنا جان لیتا ہے اُس پر ظاہر و باطن کے تمام علوم واضح ہو جاتے ہیں، پھر اُسے دیگر علوم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی- مطالعۂ اسم اللہ ذات مطالعۂ اِستغراق ہے جو مطالعۂ اوراق سے بہتر ہے‘‘-(امیرالکونین)-مزید ارشاد فرمایا:’’رسمی رواجی علم صاف دل لوگوں کے کسی کام نہیں آتا کہ جب آئینہ خودہی روشن ہو تو اُسے جوہر کی حاجت نہیں ہوتی‘‘ -(کلیدالتوحید(کلاں)

اس لیے آپؒ تلقین فرماتے ہیں :

آنچہ میخوانی از علم اللہ بخوان

 

اسم اللہ با تو ماند جاودان

’’تجھے جو کچھ پڑھنا ہے وہ اسم اللہ ذات سے پڑھ کہ اسم اللہ ذات نے ہمیشہ تیرے ساتھ رہنا ہے ‘‘- (امیرالکونین)

باھُو! بردار تسلیم و رضا

 

دل سلیمی گشت حاضر مصطفٰےؐ

3-’’اے باھُو! تسلیم و رضا اختیار کر کہ صاحب ِتسلیم و رضا قلب ہی حضور رسالت مآب (ﷺ) کی حضوری سے بہرہ ور ہوتاہے‘‘ -(کلیدالتوحید(کلاں)

آپؒ نے تسلیم ورضا کے حصول کاطریقہ بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

باھُوا عاقبت بکار باید کارِ دوست

 

معرفت را مغز باید نی بپوست

’’پُر عافیت عاقبت کا دار و مدار رضائے الٰہی پر ہے جس کے لئے معرفت ِالٰہی کی ضرورت ہے اور معرفت ِالٰہی کا تعلق عبادت کے مغز سے ہے نہ کہ چھلکے سے‘‘-(عین الفقر)

4-سیدنارسول اللہ (ﷺ)کا فرمان مبارک ہے:-’’رَاَیْتُ فِیْ قَلْبِیْ رَبِّیْ ‘‘:’’ مَیں اپنے دل میں اپنے ربّ کو دیکھتا ہوں‘‘ (عقلِ بیدار)-اسی طرح علامہ اسماعیل حقیؒ اور امام غزالیؒ ے حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) سے منسوب ایک قول مبارک رقم فرمایا :’’رَأَى قَلْبِىْ رَبِّیْ‘‘’’میرے دل نے میرے رب کو دیکھا‘‘(روح البیان زیرِ آیت،المائدہ:6)-

اس لیے ہر عارف باللہ صوفی نے دل کی اہمیت پہ زوردیاہے کیونکہ جوشخص دل کاتزکیہ وتصفیہ کرلیتاہے وہ دنیاہی میں اللہ رب العزت کی معرفت اور اس کے قرب و وصال کو پالیتاہے -اس لیے آپؒ دل کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :

دل کعبۂ اعظم است ازان کعبۂ آب و گِل

 

آں صد ہزار کعبہ بود درمیانِ دل

’’ دل کعبۂ اعظم ہے جو آب و خاک کے کعبہ سے عظیم تر ہے، ایسے ہزاروں کعبے کعبۂ دل کے اندر سمائے ہوئے ہیں‘‘ –

اس لیے آپؒ نے عوام الناس کوتنبیہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا :

دل کعبہ اعطم است بکن خالی از بتاں

 

بیت المقدّس است مکن جائِ بت گراں

’’دل کعبۂ اعظم ہے اِسے بتوں سے خالی رکھ، دل بیت المقدس ہے اِسے بت گروں کی دکان مت بنا‘‘-(عقل بیدار)

حضور سلطان العارفینؒ نے اپنی ذات اقدس کےبارے میں ارشادفرمایا:

کعبہ را در دل بہ بینم جان کنم بروی فدا

 

در مدینہ دائمی ہم صحبتم با مصطفٰےﷺ

’’مَیں کعبہ کو اپنے دل میں دیکھتا ہوں اور اُس پر اپنی جان فدا کرتا ہوں اور مَیں ہمیشہ مدینہ میں حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی صحبت میں رہتا ہوں ‘‘-(محک الفقر(کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر