شمس العارفین : قسط 05

شمس العارفین : قسط 05

یہ مرشد ِکامل ہی کی شان ہے کہ وہ تصور ِاسم اللہ ذات سے میدانِ دل کھول کر طالب اللہ کو دکھا دیتاہے- ایسی فتوحات کی چابی کلمہ طیب’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے - اِس کے بعد طالب اللہ’’ اسمِ اَللّٰہُ‘‘ اور ’’اسمِ مُحَمَّدٌ (ﷺ)‘‘ کو اپنے تصور میں لائے اور اِن دونوں اسمائے پاک پر نظر جمائے- اِس کے بعد دریائے توحید میں غوطہ لگائے اور غلباتِ ذکر اللہ میں غرق ہوکر اِس آیت ِکریمہ کے مطابق خود سے بے خود ہو جائے: ’’ اور اپنے ربّ کا ذکر کر اس شان سے کہ تجھے اپنی بھی خبر نہ رہے‘‘-دونوں اسمائے مبارک یہ ہیں-

اَللّٰہُ                 مُحَمَّدٌ

جان لے کہ اساسِ معرفت ، معراجِ محبت، ملاقاتِ روحانی،قربِ اللہ حضوری، مشاہداتِ اسرارِ ربانی، مراتب ِفقر فنا فی اللہ بقا باللہ، ابتدا و انتہائے توحید ِ سبحانی اور تصور، تفکر، تصرف، توجہ اور توکل کے تمام مراتب صاحب ِمشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات کو حاصل ہوتے ہیں کہ جب تفکر کی انگلی سے دل پر نقش ِاسمِ اللہ ذات کو بار بار لکھنے کی مشق کی جاتی ہے تو ذکر ِحضور و کلماتِ ربانی و الہامِ مذکور حضور کے ہر طرح کے علوم منکشف ہوجاتے ہیں، مثلاً’’وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا ‘‘[1] کا علم،’’ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَ بِّکَ الَّذِی خَلَقَ ج خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ج اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ لا اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ لا عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ‘‘[2] کا علم، اَلرَّحْمٰنُ لا عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ طخَلَقَ الْاِنْسَانَلا عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘[3] کا علم، وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘[4]کا علم ، اِ نِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘[5] کا علم، وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا ‘‘[6] کا علم اور’’ وَذْکُرِاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی‘‘[7] کا علم وغیرہ - یہ سب علوم اسمِ اللہ ذات سے کھل جاتے ہیں- علم بھی دو قسم کاہے،ایک علمِ معاملہ ہے اور دوسرا علمِ مکاشفہ - علمِ مکاشفہ سے معرفت ِالٰہی منکشف ہوتی ہے اور علمِ معاملہ؟ علمِ معاملہ علمِ مکاشفہ ہی میں آجاتاہے کیونکہ مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات سے تمام علوم کی کتب الاکتاب صاحب ِتصور کے سامنے کھل جاتی ہے اور ظاہرباطن کے تمام علوم کلماتِ حق کی صور ت میں اُس پر کھل جاتے ہیں- فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ محبوب! آپ (ﷺ)فرمادیں کہ اگر سمندر کلمات ربانی لکھنے کے لئے سیاہی بن جائیں تو بے شک سمندر ختم ہوجائیں گے مگر کلماتِ ربانی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے چاہے ہم اِن جیسے مزید سمندر بھی اُن کی مدد کو لے آئیں‘‘-

مشق ِتصو رِ اسمِ اللہ ذات کے علم سے نفس کو پاکیزگی، قلب کو صفائی اور روح  و سرّ کو جلا حاصل ہوتی ہے-جو شخص اِس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اُس کا قالب لباسِ قلب پہن لیتاہے ، قلب لباسِ روح پہن لیتاہے اور روح لباسِ سرّ پہن لیتی ہے- جب قالب و قلب و روح و سرّ ایک ہوجاتے ہیں تو اُس کے وجود سے صفاتِ بد کا خاتمہ ہو جاتا ہے،ظاہری حواسِ خمسہ بند ہوجاتے ہیں اور حواسِ باطن کھل جاتے ہیں اور اُس کے دل میں ’’وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ‘‘ [8] کا علم کھل جاتاہے-  جس وقت حضرت آدم علیہ السلام کے وجود ِمعظم میں روحِ اعظم داخل ہوئی تو سب سے پہلے اُس نے کہا’’اَللّٰہُ‘‘کہ اسمِ’’اَللّٰہُ‘‘کہنے سے اللہ اور بندے کے درمیان سے قیامت تک کے تمام حجابات اُٹھ جاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود بندہ اسمِ  ’’ اَللّٰہُ ‘‘ کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتا-

بیت:’’  تجھے جو کچھ چاہیے اسمِ اللہ ذات سے حاصل کر- صرف اسمِ اللہ ذات ہی نے آخر تک تیرا ساتھ نبھاناہے‘‘-

جو فقیر علمِ ظاہر سے دوستی نہیں رکھتا وہ باطن میں مجلس ِانبیا ءمیں جگہ نہیں پاتا بلکہ مجلس ِانبیاءسے خارج ہی رہتاہے - اِسی طرح جو عالم ظاہر باطن میں فقیر کامل سے معرفت ِالٰہی اور ذکرِ’’اَللّٰہُ ‘‘طلب نہیں کرتا وہ معرفت ِالٰہی سے محروم ہی رہتاہے کیونکہ طلب ِ الٰہی کے بغیر دل سے دنیا کی محبت نہیں جاتی اور نہ ہی تصورِ اسمِ اللہ ذات کے بغیر دل سے سیاہی و کدورت و زنگار اور خطراتِ شرک و کفر کی نجاست دور ہوتی ہے-

بیت:’’  اپنے دل کو نجاست ِخطرات سے پاک کر لے تاکہ تجھے وحدتِ حق نصیب ہو‘‘-

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کا فرمان ہے :’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کو بلکہ اُس کی نظر تمہارے دلوں اور تمہاری نیتوں پر رہتی ہے‘‘-مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات سے دل اِس طرح زندہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ بارانِ رحمت سے خشک گھاس اور خشک زمین زندہ ہوجاتی ہے اور زمین سے سبزہ اُگ آتاہے-تصورِ اسمِ اللہ ذات کی کثر ت سے وجود کے ہر ایک بال کی زبان پر’’  یَا اَللّٰہُ  ،  یَا اَللّٰہُ ‘‘کا وِرد شروع ہوجاتاہے - تصورِ اسمِ اللہ ذات صاحب ِتصور کے لئے زندگی بھر شیطان اور اُس کے چیلوں کے شر سے محفوظ پناہ گا ہ بن جاتاہے- صاحب ِ مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات آتش ِدوزخ سے نجات پاجاتاہے اور اُس کی قبر اُس کے لئے خلوت خانہ و خواب گاہ ِنوم العروس بن جاتی ہے، منکر نکیر اُسے دیکھ کر آداب بجا لاتے ہیں اور خاموش ہوکر حیرت سے اُسے تکتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں:’’ آفرین ہے تم پر،تمہاراآنامبارک‘‘-

جاری ہے


[1]’’آدم علیہ السلام کو تمام اسما ٔ کا علم سکھایا گیا‘‘-

[2]’’پڑھ اپنے رب کے نام سے کہ جس نے عالمِ خلق کو پید ا کیا، جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹک سے ، پڑھ ! اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ عزت والا ہے، وہ رب کہ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، اُس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا‘‘-

[3]’’وہ رحمان ہے، جس نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا اور اُسے بیان کرنا سکھایا‘‘-

[4]’’اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو صاحب ِعزت بنایا‘‘-

[5]بے شک مَیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں -

[6]اور ذکر کرو اپنے رب کے نام کا اور سب سے الگ ہو کر اُسی کے ہو رہو-

[7]اور اُس نے ذکر کیا اپنے رب کے نام کا اور نماز پڑھی-

[8]اور مَیں نے اُس میں اپنی روح پھونکی-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر