حافظ شیرازیؒ اپنی زندگی میں کئی مراحل سے گزرے ہیں انہوں نے شراب خانوں میں رندانِ قدح خوار کے جمگھٹے بھی دیکھے اور گلستانِ مصلیٰ (ایک جگہ کا نام) کی فرحت افزا ہواؤں کا لطف بھی اٹھایا-آب رکنا باد(ایک نہر کا نام) کی دلفریب لہروں کا نظارہ بھی کیا اور اہل شیراز کی ناقدر شناسی سے دل برداشتہ ہو کر کئی دفعہ رَختِ سفر بھی باندھا-یہی وجہ ہے کہ ان کو ہر قسم کی کیفیات کو صداقت، جذبہ اور برجستگی سے غزل کی صورت میں پیش کردینے میں کمال حاصل تھا-ان کے کلام میں حقیقت اور مجاز کی ہم آہنگی کا جو حسین رنگ و روپ پایا جاتا ہے اس کو ایک جھلک ان کے اس شعر میں بھی نمایاں ہے:فرماتے ہیں:
حدیث از مطرب و مئے گو، و راز دہر کمتر جو |
’’شراب اور گانے والوں کی بات کر اور زمانے کا راز نہ ڈھونڈ، کیونکہ دانائی کے ذریعہ کسی نے یہ معما کھولا اور نہ کھول سکے گا‘‘-
اس شعر میں حافظ شیرازیؒ نے ’’روز الست‘‘ کا منظر پیش کیا ہے کہ ازل میں جب حق تعالیٰ تنہائی وحدت کے پردے سے باہر جلوہ افروز ہو کر تمام ارواح سے مخاطب تھا، تو اس دیدارِ الٰہی کی لذت کو شراب قرار دیا ہے اور تمام ارواح صف بستہ ہم آواز ہو کر ’’قالو بلٰی‘‘ کا اقرار کر رہے تھے تو ان ارواح کو مطرب یعنی ’’قالو بلٰی‘‘کا نغمہ الاپنے والوں سے تشبیہ دی ہے –حافظ شیرازیؒ اس شعر میں بیک وقت دو اہم عارفانہ نکات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں -
اول یہ کہ روز الست والے اس دیدارِ الٰہی کے لطف و سرور میں سرشار ہو کر ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہنا چاہیے اور ایک پل کے لئے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے-کیونکہ بندہ جب حق تعالیٰ کے بحرِ توحید میں غوطہ زن ہوجاتا ہے تو بندہ اپنے اندر ایک ایسا سرور محسوس کرتا ہے جو ناقابل بیان ہوتا ہے- اس حقیقت کی تصدیق خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دی ہے:
’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[1] ’’خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-
کیونکہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے اس طرح مطمئن ہوتے ہیں گویا ان کی چشم باطن نے جمالِ محبوبِ حقیقی کا مشاہدہ کر لیا ہے اور وہی ان کی تمام منازل کا منتہی ہے-
علاوہ ازیں حافظ شیرازیؒ دوسرا نکتہ یہ سمجھا رہے ہیں کہ علم و حکمت اور عقل و دانش ہمیشہ معرفتِ الٰہی کے حصول میں ناکام رہے کیونکہ ان کا تعلق مادی دنیا سے ہوتا ہے اور دنیا ہمیشہ راہِ خدا میں سب سے بڑی رکاوٹ کا سبب ہوتی ہے-تلقینِ باطنی کے بغیر ظاہری علوم کی ہزاروں کتابیں پڑھ لینا معرفتِ الٰہی کے لئے بے سود ہوتی ہیں کیونکہ اصل علم تو وہ ہے جو مکتبِ عشق سے حاصل کیا جاتا ہے-ظاہری علم استاد اور کتابوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے-مگر عاشق فقراء براہ راست حق تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘[2] ’’اور ہم نے اس کو اپنی طرف سے خاص علم عطا کیا‘‘-
اس علم لدنی کا تعلق عقل سے نہیں بلکہ عشق کے ساتھ ہوتا ہے عقل اور عشق میں لامتناہی فرق ہے جب کبھی حق کا معاملہ آتا ہے تو عقل مصلحتوں کی سوچ بچار میں اُلجھی رہتی ہے اور عشق سب کچھ بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے-یہی وجہ ہے کہ عقل بے مقام اور بے مرتبہ ہے-حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق |
جس طرح حافظ شیرازی نے روز الست والی لذت دیدار کے نشہ میں ہر قت یاد الٰہی میں مشغول رہنے کے متعلق اظہار خیال ہے اسی طرح سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی کلام ابیات باھو میں اپنے منفرد عارفانہ انداز میں فرماتے ہیں :
الست بربکم سُنیا دِل میرے نِت قالوا بلٰی کوکیندی ھو |
یعنی ازل کے روز میرے دل نے ’’الست بربکم‘‘ سنا تو اس وقت سے میری روح ’’قالوبلیٰ‘‘ پکار رہی ہے اور ایک پل کے لئے بھی فارغ نہیں یہ صورت حال ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ عاشق فقراء کے لئے مخصوص ہے کیونکہ ارواح صافیہ اور نفوس طیبہ اپنے محبوب حقیقی کی یاد سے ہی دل کا سکون اور روح کا قرار حاصل کرتے ہیں اور لذاتِ دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے-کیونکہ عشق وہ حقیقت ہے جس کا تسلط طالب کے مکمل جسم و جان پر ہوتا ہے اور ’’الست بربکم‘‘ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے-کیونکہ ارواح کی خوراک انوارِ الٰہی کا مُشاہدہ ہوتی ہے-
الست بربکم کی آواز پر ہمیشہ کے لئے ’’قالو بلیٰ‘‘ کے نغمہ میں مدہوش رہنےو الے طالبانِ صادق کا مقصود حیات صرف عرفانِ حق تعالیٰ ہوتا ہے-اس لئے ان پر منزل اور مقام حرام ہوتا ہے انہوں نے ازل سے ابد تک جامہ احرام باندھا ہوتا ہے اور انوارِ حق تعالیٰ کا دیدار ہی ان کا حج ہوتا ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہٗ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’امیر الکونین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
’’جو فقیر عالم عارف باللہ، اولیاء اللہ، تلمیذ الرحمٰن ہوتا ہے وہ نفس اور شیطان پر غالب ہوتا ہے‘‘-
کیونکہ حق تعالیٰ کے فضل و کرم کا وعدہ ہر وقت اس کے پیش نظر رہتا ہے اور اپنے محبوب حقیقی کے نورِ مقدس کی ایک جھلک پھر سے دیکھنے کے لئے منتظر اور بے تاب رہتا ہے اس ضمن میں حضرت فرید الدین عطار نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
چون بہ گوشِ جان رسد بانگ الست |
’’جب الست کی آواز تمہارے کان میں پہنچے تو بلیٰ (ہاں)کہنے میں ایک لمحہ بھی سستی نہ کرو‘‘-
٭٭٭