ضروری نَفس کُتّے نوں قِیما قیم کچیوے ھو
نال محبّت ذِکر اللہ دا دَم دَم پِیا پَڑھیوے ھو
ذکر کنوں ربّ حاصل تھِیندا ذاتوں ذات دِسیوے ھو
دوہیں جہان غلام تنہاندے باھو جنہاں ذات لبھیوے ھو
Make mince of nafs the dog for sure Hoo
Recite dhikr of Allah with every breath with loving lure Hoo
Rabb is achieved with dhikr, within ones being envisaged Essence Hoo
Both world are your slaves Bahoo who has acquired Essence Hoo
Zarori nafs kuttay noo’N qima qeem kacheeway Hoo
Naal mohabbat zikr Allah da dam dam piya pa’Rheeway Hoo
Zikr kanoo’N rabb Hasil theenda zatoo’N zaat diseeway Hoo
Dohe’N jahaan Ghulaam tinhaa’N day ‘Bahoo’ jinhaa’N zaat labheeway Hoo
تشریح:
باھُو! دیو زادہ نفس را علاج نیست |
|
از سوزش بسوز تا مسخّر گردد |
1:’’دیو زادے نفس کا اِس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ اُسے آتش ِعشق میں اتنا جلایا جائے کہ یہ مسخرہو جائے‘‘ -(عین الفقر)
’’جان لے کہ نفس ِامارہ کی عادت سرکش گھوڑے کی عادت سے ملتی جلتی ہے جو معصیت ِشیطانی کی چراگاہ میں چرتا رہتا ہے اور ارواحِ مغلوب کو جدھر چاہتا ہے بھگا لے جاتا ہے - اگر تُو چاہتا ہے کہ یہ سرکش گھوڑا تیرا مطیع رہے تو ہر وقت اُس کے منہ میں با اخلاص صدقِ مع اللہ اور دائمی ذکر اللہ کی آتشیں لگام ڈالے رکھ تاکہ تجھے ذکراللہ کی غذا و لذّت سے کم کھانے، کم بولنے، کم سونے اور کم اختلاطِ خلق کی عادت پڑ جائے ورنہ نفس کا یہ سرکش گھوڑا کہاں آرام کرتا ہے‘‘-(محک الفقر(کلاں)
’’محاسبۂ نفس کے لئے خود قاضی بن اور اُس کافر کو قتل کرنے کے لئے خود مردِ غازی بن- رضائے الٰہی اختیار کر تاکہ یار یار سے اور غیر غیر سے جا ملے- رضائے نفس کی خاطر حیلہ و حجت مت کر‘‘-(عین الفقر)
با تصوّر قتل کن تو نفس را |
|
تا شوی واصل خدا لائق خدا |
2-3:’’ تُو تصور ِاسم اللہ ذات سے نفس کو قتل کر دے تاکہ تُوقرب ِخدا میں واصل بخدا ہو سکے‘‘-(امیرالکونین)
’’تمام علم تصرفِ اسمِ اللہ ذات میں قید ہے مگر اسمِ اللہ ذات علم کی قیدمیں نہیں ہے کہ اسم اللہ ذات نفس کو نیست و نابود کر کے اللہ تعالیٰ کی دائم حضوری میں پہنچاتاہے‘‘- (امیرالکونین)
’’تصور اسم اللہ ذات کے غلبے سے نفس مغلوب ہوکر فرمانبردار و تابع غلام بن جاتاہے اور صاحب تصور سے ہم سخن و ہم کلام ہوتاہے، نفس کی شناخت تصور و توجہ ہی سے ممکن ہے کہ تصور اسم اللہ ذات سے نفس فنا ہو جاتا ہے‘‘ -(محک الفقر(کلاں)
حضور سلطان العارفینؒ نے اپنی کم و بیش 140 کتب مبارکہ میں اس چیز پہ زور دیا ہے کہ انسان کا شیطان سے بھی بڑادشمن اس کا ہم نشین نفس ہے-طالبِ مولیٰ کیلیے اپنے مقصود کو پانے کیلیے نفس کو شکست دینا اور مغلوب کرنا نہایت ضروری ہے اور اس مشن اور مقصد کے لیے مرشدکامل کی رفاقت اور تصورِ اسم اللہ ذات سے بڑھ کرکوئی چیز نہیں ہے-جیسا کہ آپؒ رقمطرازہیں:
’’جان لے کہ دیدارِ الٰہی اور اہل ِدیدار کے درمیان کوئی پتھر یا پہاڑ یا دیوار حائل نہیں ہوسکتی بلکہ دیو نفس حائل ہوتا ہے جو پتھر اور دیوار سے بھی سخت تر حجاب ہے اور جس کا مارنا بے حد مشکل و دشوار ہے-مرشد ِکا مل سب سے پہلے اِسی دیو ِخبیث، مصاحب ِ ابلیس کو تصورِ اسم اللہ ذات کی تلوار سے قتل کرتا ہے اور جب یہ دیو نفس مر جاتا ہے تو بندے اور ربّ کے درمیان سے بیگانگی کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور بندہ ہر وقت بلا حجاب دیدارِ پروردگار کرتا ہے- صاحب ِنظر مرشد ِکامل ایک ہی توجہ سے یہ بھاری پردہ اُٹھا دیتا ہے اور پہلے ہی دن طالب اللہ کو لقائے الٰہی سے مشرف کر دیتا ہے‘‘-(نورالھدٰی)
باھُو! علمِ صرف و نحو خوانی فِقّہ خوانی یا اصول |
|
جُز وصالِ حق تعالیٰ نیست زاں چیزی وصول |
4:’’ اے باھُو ! علمِ صرف و نحو پڑھ یا علمِ فقہ و اصول، سوائے وصالِ حق کے اِن سے اور کوئی چیز وصول نہ کر ‘‘ -(عین الفقر)
اس لیے آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’عقلمندوں کے لئے یہ خاموش رمز ہی کافی ہے کہ بے شعور لوگ وصالِ حق تک نہیں پہنچ سکتے‘‘-(اسرارالقادری)
مزید ارشادفرماتے ہیں:
’’جسے وصالِ وحدتِ حق نصیب نہیں وہ صد فضیلت ِقیل و قال کے باوجود جاہل کا جاہل ہی رہتا ہے‘‘-(عین الفقر)
آپؒ اس بیت مبارک کے آخری مصرع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس جہان ِ رنگ وبو میں سب سے کامران شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرکے اپنے مالک وخالقِ حقیقی کا وصال باکمال حاصل کرلیتاہے -مرشد کامل کے اوصاف میں سب سے بڑا وصف بھی یہی ہے کہ وہ اپنے طالب کو اللہ عزوجل کے وصال سے ہم کنارکرتا ہے- جیساکہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’مرشد ِکامل کی نظر میں عطائے معرفت ِوصال ہے، البتہ اگر مرشد ِ کامل طالب اللہ کو زہدو تقویٰ میں مشغول کر کے ریاضت کروانا چاہے تو بارہ یا چوبیس یا چالیس سال تک ریاضت کروا سکتا ہے لیکن اگر عطا کرنا چاہے تو ذکر فکر اورزہد و تقویٰ میں مشغول کئے بغیر پل بھر میں وصالِ حق بخش سکتا ہے- جہاں اِستغراقِ فنا فی اللہ بقا باللہ کا لازوال وصال ہے وہاں کیا حاجت ِ مشقت ِ سالہا سال ہے‘‘-(ایضاً)