مشقِ تصورِاسمِ اللہ ذات سے صاحب ِتصور کو جملہ سلک سلوک کا خلاصہ یعنی راہ ِفقر نصیب ہوتی ہے اور جملہ انبیاءو اؤلیاءاللہ سے اُس کی ہر وقت مجلس و ملاقات رہتی ہے-بعض کو یہ جانتا ہے اور بعض کو نہیں جانتا، جنہیں یہ جانتا ہے وہ اؤلیاء اللہ ہیں جوذکر ِجلالیت سے وجد میں آکر پُر جوش و شوریدہ حال رہتے ہیں اور جنہیں یہ نہیں جانتا وہ اللہ تعالیٰ کی قبا کے نیچے چھپے رہتے ہیں- حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’بے شک میرے وہ دوست بھی ہیں جو میری قبا میں چھپے رہتے ہیں، اُنہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا‘‘- صاحب ِمشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات سے آتش ِ دوزخ 70 سال کی دُوری پر رہتی ہے-جان لے کہ اسمِ ’’اللہ ‘‘ چار حروف پر مشتمل ہے- یعنی ’’ا ل ل ہ ‘‘- پس چار ملک اِس کی حاضرات میں پائے جاتے ہیں- اوّل ملک ِازل، دوم ملک ِابد، سوم ملک ِدنیا اور چہارم ملک ِعقبیٰ-جس شخص کا دل حرف ’’ا‘‘کے نور سے روشن ہو جاتا ہے وہ صاف و شفاف ہوکر جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری بن جاتا ہے جس میں صاحب ِدل اٹھارہ ہزار عالم کا تماشا دیکھتا ہے اور وہ مقامِ احدیت پر پہنچ جاتاہے- حرف’’ لِ اول ‘‘سے مقامِ لاھوت اور ’’ لِ دوم‘‘ سے ملک ِلانہایت لا مکان میں پہنچ جاتا ہے اور حرف’’ہ‘‘ سے ملک ِہدایت میں پہنچ کر صاحب ِہدایت بن جاتاہے جو شخص اِن مراتب تک نہیں پہنچا تو سمجھیے کہ اُس پر اسمِ اللہ ذات کی تاثیر وارد نہیں ہوئی اور وہ ابھی اسمِ اللہ ذات کی حقیقت سے بے خبرہے-
جب اسمِ اللہ ذات طالب اللہ کے وجود میں تاثیر کرتاہے تو اُس پر رنگ ِ معرفت چڑھتا ہے اور وہ مرتبۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے،اُس کے وجود سے دُوری مٹ جاتی ہے اور وہ اپنی مراد کو پالیتاہے- اب وہ چشمِ عیاں سے جب بھی دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اُسے اپنے وجو دکے ہر ایک بال پر اسمِ اللہ ذات کا نقش نظر آتاہے اور اُس کے گوشت،پوست،بالوں،ہڈیوں، رگوں اور مغز و دل کی زبان پر اسمِ اللہ ذات کا ورد جاری ہوجاتاہے اور اُسے در و دیوار و بازار اور درختوں پر واضح طور پر اسمِ اللہ ذات لکھا ہوا نظر آتاہے، وہ جدھر بھی نظر اُٹھاتاہے اُسے اسمِ اللہ ذات لکھا نظر آتاہے،وہ جو کچھ سنتاہے یا بولتاہے اُسے اسمِ اللہ ذات ہی کی آواز سنائی دیتی ہے-صاحب ِ تصور ِاسمِ اللہ ذات کو دیکھ کر آتش ِدوزخ ستر سال کے فاصلے سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے اور جنت ستر سال کا فاصلہ طے کرکے اُس کا استقبال کرتی ہے-مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات کی چھ قسمیں ہیں یعنی اسمِ ’’اَللّٰہُ‘‘کا تصور، اسمِ ’’لِلّٰہِ‘‘ کا تصور،اسمِ ’’لَہٗ‘‘ کا تصور ، اسم ’’ھُوْ‘‘ کا تصور ، اسم ’’مُحَمَّدٌ‘‘ کا تصور اور کلمہ طیب ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کا تصور - جب طالب اللہ ہر ایک اسمِ اللہ ذات ، اسم ’’ مُحَمَّدٌ ‘‘ سرور ِکائنات (ﷺ)اور کلمہ طیبات کے تصور میں محو ہوتاہے تو اُس کا ہر گناہ نورِ اسمِ اللہ ذات کے لباس میں چھپ جاتا ہے-یہ تما میت ِفقر کا وہ مرتبہ ہے جسے ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ ‘‘( فقر جب کامل ہوتا ہے اللہ ہی اللہ ہوتا ہے)کا مرتبہ کہاجاتاہے-’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ‘‘(مرنے سے پہلے مر جاؤ)کے مرتبے کا جامع سروری قادری مرشد پہلے ہی روز طالب اللہ کو ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ o مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ‘‘کے اِس مرتبے پر پہنچا دیتاہے –(جاری ہے)