حافظ شیرازیؒ اپنی غنائی شاعری اور جذبۂ غیبی کی بدولت ہردوَر میں مقبول رَہے اور اُن کی غزل کے اشعار ہمیشہ دل کی دھڑکنوں میں اضافہ کرتے رہیں گے -اُن کا شمار اُن خوش نصیب شاعروں میں ہوتا ہے جن کا کلام ا ن کی زندگی میں ہی مقبولیت کے اُس درجہ پر پہنچا کہ ثمر قند، عراق و عرب اور ہند وستان کے فرمانرواؤں نے ان کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی مگر حافظ شیرازی ؒ نے دنیا کی تمام لذتوں،مسرتوں اور عیش و عشرت کو اہمیت نہ دی کیونکہ وہ قربِ الٰہی اور محبوب حقیقی کے وصال ہی کو اپنی منزل مقصود خیال کرتے تھے -جیسا کہ اُنہوں نے ایک مقام پر فرمایا:
خُرم آں روز کہ حافظ راہِ بغداد کُند |
یہی وجہ ہے کہ اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود وہ افسردہ اور رنجیدہ خاطررہا کرتے تھے اور کسی مخصوص باطنی مقام کے حصول کے خواہش مندتھے -اُن کے اس جذبہ کا اظہار اُن کے اس شعر میں نمایاں ہے فر ماتے ہیں :
بَر دَرِ مَدرسہ تا چند نشینی حافظ |
|
خیز تا اَز دَرِ میخانہ، کشادے طلبیم |
’’ اَے حافظ ! تو مدرسہ کے دروازہ ے پر کب تک بٹھا رہے گا-اُٹھ ! تاکہ میخانہ کے دروازہ پرجاکر کشادگی طلب کریں ‘‘-
اس شعرمیں حافظ شیرازیؒ مدرسہ کو خیر باد کہتے ہوئے میخانہ سے کشادگی طلب کرنے کی خواہش کااظہار کررہے ہیں-اس شعر میں یہ سبق بھی پنہاں ہے کہ حافظ پہلے مدرسہ پہنچے اور پھر مدرسہ سے میخانہ یعنی پہلی سیڑھی علم ہے-پھر کشادگیٔ قلب کے حصول کے لئے راستہ کی تعلیم ہے-اس فلسفے کی خوبصورت تشریح حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
عِلموں بَاجھوں فَقر کماوے کافِر مَرے دیوانہ ھو
دیکھنایہ ہے کہ مدرسہ اور میخانہ میں کیافرق ہے؟ اور کشادگی ایسی کون سی نعمت ہے جو مدرسہ سے نہیں بلکہ میخانہ سے حاصل کی جاسکتی ہے؟ مدرسہ عام فہم زبان میں درس وتدرس کی وہ جگہ ہوتی ہے جہا ں ظاہری علوم وفنون کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوتا ہے اور علم کی شمع روشن کی جاتی ہے مگر یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ علم ایک راہ ہے راہبر نہیں؛ اور کوئی بھی راستہ راہبر کے بغیر طے نہیں کیا جاسکتا - سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنی مشہور تصنیف ’’امیر الکونین ‘‘میں فرماتے ہیں :
’’جو خود راہ ہوتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور جوکسی کے ہمراہ ہوتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے ‘‘-
مدرسہ میں کارخانۂ ظاہر کے علوم کی تعلیم تو دی جاتی ہے مگر محض ظاہری تعلیم پر اکتفاکر لینا کمالات ِ بشری سے محروم رہنے کے مترادف ہوتا ہے -یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی کثیر تعدا د علمی رِفعتوں پر فائزہونے کے باوجودآخری دم تک کشودِ قلب کی کمی محسوس کرتی رہی-البتہ وہ لوگ جو علومِ ظاہری کے حصول کے ساتھ علومِ باطن بھی سیکھتے اور حاصل کرتے ہیں ’’اُن کا علم ان کی گردن کا وبال نہیں‘‘ بلکہ اُن کے پرِ پرواز کی طاقت بن جاتا ہے - کیونکہ قلب کو تسکین طریقِ باطن سے نصیب ہوتی ہے - جس کی چشمِ باطن روشن نہ ہوئی وہ لذتِ باطنی سے محروم و بے بہرہ رہا -ان ہی محرومیوں کےپیش نظر حافظ شیرازیؒ میخانہ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں -
زبانِ تصوف میں میخانہ،عارف کامِل کا باطن ہوتا ہے جو حقائق اور معارف اور شوق الٰہی کے بے شمار اسرار و رموز کا خزانہ ہو تا ہے -مرشد کا مِل صاحب راز اور گنجینۂ دل کامالک ہوتا ہے- اُس کی نظر میں تجلیاتِ الہٰیہ کا مُر صع جام ہمیشہ لبریز ہوتا ہے -اُس کی مجلس میں شرابِ محبوبیت کا جام ہر وقت تشنۂ لبِ طالبان میں تقسیم ہوتا رہتا ہے-جب وہ ایک نظر بھر کر طالب صادق کی طرف دیکھتا ہے تو سینہ کشادہ ہوجاتا ہے -اَنانیت کے پر دے ہٹ جاتے ہے،حجاب دؤئی ختم ہو جاتا ہے، حق تعالیٰ کی احدیت اور حمدیت کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے اورطالب کا قلب رازِ ربوبیت کی حفاظت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے -اسی لئے حق تعالیٰ کی قدرتِ توحیدقلب میں جا گزیں کرنے کے لئے مرشد کامِل کی تلاش ضروری ہے - اس کے متعلق قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[1] |
|
’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘- |
حافظ شیرازی اپنے اس شعر میں میخانہ کے دروازہ پرجاکر جو کشادگی طلب کرنے کے خواہش مند ہیں اُس کشادگی سے بھی سینہ کا کھول دینا مُراد ہے -جہاں تمام حقائق مُلک وملکوت،لاہوت و جبروت مُنکشف ہو جاتے ہیں- پھر جب سینہ کشادہ ہو جاتا ہے تو بندہ کی زبان اسرارِغیب کی کنجی اوراس کا دل معرفت الٰہی کا خزانہ بن جاتا ہے پھر وہ بندہ جو کچھ بھی فرماتا ہے وہ عالم غیب کا مشاہدہ کرکے فرماتا ہے – جیسا کہ صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب (دامت برکاتہم العالیہ)نے اپنے مضمون ’’قرآن مجید ، تصوف اور آئمۂ تفسیر‘‘ میں شرحِ صدر کے تین درجے بیان کئے ہیں - سینہ کشادہ ہونے کا پہلا درجہ مومنین کو نصیب ہوتا ہے -جس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے کہ ’’ فَمَنْ يُرِدِ اللہُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ‘‘ یعنی ’’پس جس کسی کو اللہ تعالیٰ (فضلاً) ہدایت عطا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے (تو) اُس کا سینہ اِسلام کیلئے کُشادہ فرما دیتا ہے ‘‘ -
اس سے بعد دوسرا درجہ انبیائے کرام (علیھم السلام)کیلئے قرآن پاک میں بیان ہوا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ(علیہ السلام)نے بھی بارگاہِ بے نیاز میں استدعا کی تھی :
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo‘‘[2] (موسیٰ (علیہ السلام) نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرمادےo
حق تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمدمصطفےٰ (ﷺ)کوبھی یہی کمالِ بشریت عطافرمانے کی نوید سناتے ہوئے فرمایا:
’’اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ‘‘[3] کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo
مؤمنین کو کشادگیٔ سینہ اپنے درجات میں نصیب ہوتی ہے جبکہ انبیائے کرام (علیھم السلام) کے مبارک سینوں کاکشادہ ہونا ان کے درجات کے مطابق ہے - اور تاجدارِ انبیا ختم المرسلین (ﷺ) کی شرحِ صدر آپ کے مقام کے شایانِ شان ہے -
جن مؤمنین کو شرحِ صدر نصیب ہوجاتی ہے وہ صرف سطری علوم کے وارث ہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں صدری علوم بھی نصیب ہو جاتے ہیں - حافظ شیرازی کے نزدیک مدرسہ استعارہ ہے سطری علوم کا اور میخانہ استعارہ ہے صدری علوم کا -
حافظ شیرازی اس شعر میں مدرسہ کی تعلیم سے آگے نکل کر عارف کاملِ کے میخانہ سے خاص علم حاصل کر نے کے خواش مند ہیں -جس طرح حضرت موسٰی(علیہ السلام) نےحضرت خضر (علیہ السلام)کے ساتھ رہ کر علم لدنی حاصل کر نے کی استد عا کی تھی -جیسا کہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ:
قَالَ لَہٗ مُوُسٰی ہَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا‘‘[4] |
|
اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے- |
گویا علمِ لَدُنّی کی تلاش سُنتِ موسیٰ کلیم اللہ(علیہ السلام) ہے-ختم المرسلین (ﷺ) کی اُمت پہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ان میں ہزاروں صفتِ خضربندگان خدا ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں - جن کی قوت ملکیہ اتنی غالب آجاتی ہے کہ اُن کی روح علوم ومعارفِ الٰہیہ کے لئے ایک آئینہ بن جاتی ہے اور ان پر خاتم الانبیأ (ﷺ) کے وسیلۂ جلیلہ سے عالم غیب کے اسرار منکشف ہوتے رہتے ہیں-اسی کوعلم لدنی کہاجاتاہے -ایسے لوگوں کے لئے نظروں سے غائب ہو جانا؛سمندروں سے پاراُتر جانااور ہزراوں میل کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے کر لینا ، بیک وقت کئی مقامات پہ جلوہ گری فرمانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا- وہ اس قسم کے تمام محیرالعقول افعال حق تعالیٰ کی عطا سے سر انجام دیتے ہیں،چاہے وہ کسی کی سمجھ میں ہوں یا نہ ہو ں ، چاہے کوئی ان سے متفق ہو یا نہ ہو - جیسا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے انجام پانے والے تینوں واقعات پہ بظاہر حضرات موسیٰ (علیہ السلام) نے اختلاف فرمایا -
حافظ شیرازی بھی اس شعر میں ایسا ہی کمال ِبشری حاصل کرنے کے خواہشمندہیں-
بَر دَرِ مَدرسہ تا چند نشینی حافظ |
|
خیز تا اَز دَرِ میخانہ، کشادے طلبیم |
٭٭٭