صاحب ِ ’’مُوْ تُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ فقیر اُسے کہتے ہیں جو جیتے جی مر کر مراتب ِموت سے گزر چکا ہو- مرتبۂ موت کیا ہے اور مرتبۂ حیات کیاہے؟ مرتبۂ موت جان کنی کی حالت سے گزر کر حسابِ عذاب و ثواب اور پل صراط سے گزرنا، بہشت میں داخل ہونا، حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دست مبارک سے حوضِ کوثر پر شراباً طہورا پینا، بارگاہِ الٰہی میں 500سال تک رکوع میں اور 500 سال تک سجدے میں رہنا اور بعد میں صف ِمتابعت ِرسول اللہ (ﷺ) میں کھڑے ہوکر تمام روحانیوں کے ساتھ ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا ورد کرنا، چشمِ ظاہر سے دیدار و رویت ِرب العالمین سے مشرف و معزز ہونا اور چشمِ دل سے ہر وقت دیدار و لقائے الٰہی میں محو رہنا ہے- یہ ’’اِذَ ا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَاللّٰہُ o مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘کے مراتب ہیں جنہیں مرشد ِ جامع تصورِ اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیبات ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی حاضرات سے کھول کر دکھا دیتاہے- مرشد جامع سروری قادری کو ایساہی ہونا چاہیے اے عزیز ! ذاکرین کے وجود میں ذکر اُس وقت تک جاری نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کلید ِذکر حاصل نہ کر لیں - کلید ِذکر تصورِ اسمِ اللہ ذات ہے - تصورِ اسمِ اللہ ذات سے اِس قدر کثیرذکر کھلتاہے کہ جس کو شمار نہیں کیا جاسکتا- چنانچہ وجود کا ہر ایک بال علیحدہ علیحدہ ذکر ِ اَللّٰہُ کرتاہے اور سر سے قدم تک وجود کے تمام اعضا مثلاً گوشت پوست، رگیں، ہڈیاں اور مغز وغیرہ سب پُرجوش ذکر ِ اَللّٰہُ کرنے لگتے ہیں- یہی وہ مرتبۂ صاحب ِتصورِ اسمِ اللہ ذات ہے کہ جس سے اُس کے مغز و پوست (ظاہر باطن) میں اللہ ہی اللہ سما جاتاہے اور ہاں! ذکر اُس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ یہ چار چیزیں حاصل نہ ہوجائیں-(۱) مشاہدۂ غرق فنا فی اللہ(۲)مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری (۳)غیر ماسویٰ اللہ سے لا تعلقی اور (۴) مراتب ِبقا باللہ تک رسائی- اِن چاروں کا تعلق اِن اذکار سے ہے یعنی ذکر ِخفیہ کہ جس سے مرتبۂ عین العیان نصیب ہوتاہے، ذکر ِحامل کہ جس سے نفس فنا ہوتاہے، ذکر ِ سلطا نی کہ جس سے فرحت ِروح نصیب ہوتی ہے ، ذکر ِقربانی کہ جس سے حیاتِ قلب نصیب ہوتی ہے اور ذکر ِمجموع العلم رحمانی کہ جس کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا- اگر کوئی آدمی ذکر اللہ میں محو ہوکر دیوانہ ہوجائے اور اپنی سُدھ بُدھ گنوا بیٹھے تو اُس کے وجود کو چھو کر دیکھو، اگر اُس کا وجود آتش ِذکر سے انگارے کی طرح تپ رہا ہو تو سمجھو کہ وہ معرفت ِ’’ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘کے مشاہدے میں غرق ہے، اگر اُس کا وجود پانی سے زیادہ سر د ہو اور ایسا لگے کہ گویا وہ ایک مردہ ہے تو سمجھو کہ وہ مجلس ِانبیا ٔو اؤلیا ٔاللہ میں اُن سے ملاقات کر رہا ہے اور وہ اہل ِتوحید ہے اور اگر اُس کا وجو د گرم ہو نہ سرد اور وہ گریہ زاری اور آہ و فغاں میں مبتلا ہو تو وہ محض اہل ِتقلید ہے- جان لے کہ تصورِ اسمِ اللہ ذات سے قلب جب جنبش میں آتاہے اور صاحب ِقلب اپنے دل پر اسمِ اللہ ذات کو واضح طور پر لکھا ہو ا دیکھتاہے تو اسمِ اللہ ذات کے ہر ایک حرف سے نور ِآفتاب کی طرح روشن نور کا شعلہ اُبھرتاہے جو اطرافِ دل کو منور کر دیتا ہے اور قلب سر سے قدم تک تجلیاتِ نورِ ذات سے جگمگا اُٹھتاہے اور زبانِ قلب پر ’’ یَا اَللّٰہُ ، یَااَللّٰہُ ، لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کا ورد جاری ہو جاتا ہے-(جاری ہے)