حافظ شیرازیؒ ایک حقیقت پسند شاعر ہیں-اُن کے کلام میں ان کی ذاتی کیفیات کے ساتھ ساتھ اُس سماج کی عکاسی بھی دکھائی دیتی ہے جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے -اگرچہ اُن کے نزدیک آلامِ زندگی سے نجات پانے کے لئے شرابِ لعل کا سہارا ضروری ہے اور وہ شراب و نگار کو فروغ محفل کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگر در حقیقت اُنہوں نے ماورائی حسن کو اِس جہانِ آب و گل کے جمال و رعنائی کے رنگ میں پیش کیا ہے اور انگوری شراب کے جام زمرد گُوں میں شرابِ معرفت کے بزمِ دور سے اہل ذوق کے لئے دلچسپی اور لذت کشی کا سامان مہیا کیا ہے- اُن کے ہر اشارے اور استعارے ، علامت و تشبیہ سے معرفت اور حقیقت کا رنگ جھلکتا ہے -
آیئے! اُن کے نکاتِ عارفانہ سے اپنے اذواق و اشواق کی ترقی کے لئے اُ ن کے ایک شعر پر نظر ڈالتے ہیں- آپ فرماتے ہیں ؛
ماہِ کنعانیٔ من! مَسنِد مصر آنِ توشُد |
’’اے میرے کنِعان کے چاند،مصرکا تخت تیری ملکیت ہوگیا ہے اب وہ وقت ہے کہ تو قید خانہ سے باہر آجا‘‘-
حافظ شیرازیؒ درحقیقت اس شعر میں کنعان سے آنے والے چاند حضرت یوسف(علیہ السلام) کا قید خانہ سے نکل کر مصر کے تخت شاہی پر جلوہ افروز ہونے والی داستان کے تناظر میں عالِم قدس سے آنے والی روح کو انسانی بدن کے قید خانہ سے نکل کر مسندِ خلافت پر تخت نشین ہونے کی ترغیب دےرہے ہیں اور قرآن حکیم کی اُس آیت کریمہ کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
یٰٓـاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo[1] |
|
اے اطمینان پا جانے والے نفس-تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب) پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جااور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا- |
انسان ایک خاص مخلوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مُستوی القامَت ،متناسب الاعضا ، مستحسن الشکل اور احسن التقویم بنایا -اگر انسان کو ظاہر ی اور باطنی اجزائے تناسب سے دیکھاجائے تو انسان کا سینہ بے شمار اسرارِ الٰہی کا مخزن ہے- اس کا قلب تجلیاَتِ الہٰیہ کی رَصد گاہ (observatory) ہے-عقل ایک مینارۂ نور ہے جس کی روشنی میں انسان ہر قسم کے دشوار گزار راستوں پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جز و اعظم یعنی روح ایک اَمرِ ربیّ ہے جوحق تعالیٰ اور انسان کے درمیان ایک سَر بَستہ راز ہے-
انسان اپنی ساخت کے لحاظ سے ایک عجیب مجموعہ اور تمام عالم کا نمونہ ہے- اِس کے اندر عشق و محبت کی نہریں اور علم و ادراک کے دریا رواں ہیں، قوتِ ملکوتیہ کے بلندو بالا پہاڑ ہیں جن میں انواع و اقسام کے میوےدینے والے ثمر بار درخت ہیں -دوسری طرف قوتِ لہَمیہ کی پُر خار وادیاں اور خوفناک گڑھے بھی ہیں -انسان ایک ایسا عالم کبیر ہے جس پر ظلمات کی راتیں بھی چھا جاتی ہیں اور انوار ِحق کے دن بھی آتے ہیں اس پر تجلیٔ ذات کا سورج بھی طلوع ہوتاہے اور انوارِ لطائف کے ستارے بھی چمکتے ہیں یہ انسان کی فطری حالت ہے جس نے بھی اپنی اس حالت کی حفاظت کرتے ہوئے اِسے دُرست رکھا اور کامیابی کے ساتھ ظلمات سے اپنا دامن بچالیا وہ ایک عظیم مُلک سعادت کا بادشاہ بن گیا-جیساکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنا دامن دنیا کی ہر قسم کی آلودگی سے بچاکر رکھا اور قید وبند کی صعوبتیں بر داشت کرنے کے باوجود اپنے کردار کی سفید پاکیزہ چادر پر کِسی آلائش کا کوئی داغ نہ لگنے دیا -جس کے نتیجہ میں آ پ تختِ مصر کے وراث ٹھہرائے گئے-
نظامِ کا ئنات کے تخلیقی عمل میں جب کوئی شے دفعتاً اپنے پورے کمال کے ساتھ پیداہوتی ہے تو وہ شئے حادثِ دہری کہلاتی ہے اور جو چیز رفتہ رفتہ درجٔہ کمال تک پہنچتی ہے وہ حادثِ زمانی کہلاتی ہے-انسان کا تعلق بھی اسی مخلوق کے ساتھ ہےاورکمالات میں بتدریج ترقی کرنا اس کی فطرت میں شامِل ہے- جس طر ح انسان دنیا کا ظاہری عروج و سر بلندی اپنے عِلم وہنر کے ذریعہ حاصل کرتاہے اسی طرح باطنی طور پر روحانی عظمت و کمال کے حصول کے لئے انسان اپنا سفر اُس شاہی خیابانِ مشک بارسے شروع کرتا ہے جو قلبِ انسان سے بارگاہِ رحمان تک لے جاتا ہے-اِسم اللہ ذات کی مقدس چابی کے ذریعہ قلب کا قفل کھول کر ذکر الٰہی میں محویت اختیارکرتا ہے تو اُس کا قلب نورِ یقین سے منور ہو جاتا ہے- اُس روشنی میں تجلیاتِ حق کے مشاہدہ سے حق الیقین کی منزل پاکر ایسا لطف و سرور محسوس کرتا ہے کہ ہر قسم کے اضطراب سے نکل کر مقامِ تسلیم و رضاپر قائم ہوجاتا ہے جس کے متعلق حضرت سلطان باھوؒ نقل فرماتے ہیں :
’’کشتگانِ خنجر تسلیم را ہر زمان ازغیب جان دیگراستِ‘‘
یہاں انسان سیِر الی اللہ یعنی کمالِ صفات سے نکل کر سیِر فی اللہ میں داخل ہو کر خلعت بقا پہن لیتاہے-یہی انسان کا منتہائے غائت اور مقصدِ حیات ہے -اسی مرتبۂ لازوال کے متعلق حافظ شیرازیؒ اپنے اسی شعر ’’وقت آنست کہ بدرودکنی زندان را ‘‘میں اس حجرۂ اوصافِ بشریت میں عروج و ترقی پا کرمسندِ نیابتِ الٰہی پر تخت نشین ہونے کی تر غیب دے رہے ہیں-
٭٭٭
[1](الفجر:27-30)