ط: طالِب بن کے طالب ہوویں اوسے نوں پیا گانْویں ھو
سچا لڑ ہادی دا پھڑکے اوہو توں ہو جانویں ھو
کلمے دا تُوں ذِکر کَماویں کلمیں نال نہانویں ھو
اللہ تینوں پاک کریسی باھوؒ جے ذاتی اِسم کمانویں ھو
Being a talib become a true talib and keep singing such Hoo
Hold on to robe of murshid and you become murshid as much Hoo
Recite dhikr of kalima and bath with creed Hoo
Allah will purify you Bahoo if you practice Ism-e-Allah zat indeed Hoo
Talib ban kay talib howai’N osay no’N pia gawei’N Hoo
Sacha la’R hadi da phaR kay oho to’N ho jawei’N Hoo
Kalmay da to’N zikr kamawei’N kalmaay nal nahawei’N Hoo
Allah teno’N pak karaisi Bahoo jai zaati ism kamawei’N Hoo
تشریح: اس بیت مبارکہ میں حضرت سُلطان العارفینؒ پہلے مصرعہ میں طالبانِ مولیٰ کو راہِ طلب میں استقامت پہ تاکیدِ مزید کی ہے دوسرے مصرعہ میں تعلقِ شیخ بلکہ فنا فی الشیخ پہ نصیحت فرمائیہے ، تیسرے مصرعہ میں کلمہ طیبہ کے ذکر کی کثرت پہ راغب فرمایا ہے او چوتھے مصرعہ میں تصور اسم اللہ ذات کو تزکیہ و پاکی کا اعلیٰ ترین راستہ بتایا ہے -
1-2یہاں دراصل حضرت سلطان باھوؒ فنافی الشیخ کا مرتبہ بیان فررہے ہیں -ایک اورمقام پہ آپؒ نے اس چیز کی وضاحت نہایت حسین انداز میں فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مرشد کے چار حروف ہیں: م رش د- حرف ’’م‘‘ سے مشاہدۂ حضور، معراجِ معرفت- حرف’’ ر ‘‘سے رازِحق، غرق فی التوحید ِنور- حرف ’’ ش ‘‘ سے شہسوار عارفِ نظار غالب بر روحانیت ِاہل ِقبوراورحرف’’ د ‘‘ سے دوام الہام بخش- طالب کے بھی چار حروف ہیں: ط ا ل ب-حرف’’ ط ‘‘ سے طاعت، طوقِ بندگی، سر افگندگی (سرفروشی)، دوام درحکمِ حق پسندگی- حرف’’ ا ‘‘ سے ارادۂ صادق، باادب، آہ نہ کرے سرآئی پر- حرف ’’ل ‘‘ سے لائق ِلقا ٔ- لا یحتاج ، لاف زنی نہ کرے اور حرف’’ ب ‘‘ سے بہرہ مند، باوفا، باحیا، قلب صفا، راضی بہ قضا- جب چاروں حروفِ مرشد اور چاروں حروفِ طالب ایک دوسرے سے مبدل ہو کر یک وجود ویک جثہ و یک جسم ویک قلب و یک قالب ہو جائیں اور مرشد کی زبان و طالب کی زبان، مرشد کی آنکھیں اور طالب کی آنکھیں، مرشد کے کان و طالب کے کان، مرشد کا قلب و طالب کا قلب، مرشد کی روح و طالب کی روح، مرشد کے ہاتھ و طالب کے ہاتھ اور مرشد کے قدم و طالب کے قدم ایک ہو جائیں، مرشد کا مرتبہ طالب کے مرتبے سے مبدل ہو جائے ، طالب کے نفس کی موت مرشد کے نفس کی موت ہو جائے اور دونوں کی حیاتِ قلب اور فرحت ِروح بھی ایک ہو جائے تو اُسے فنا فی الشیخ کہتے ہیں‘‘- (امیرالکونین)
فنافی الشیخ ہونا راہ سلوک میں ایک اہم ترین مقام بھی ہے لیکن یادرہے شیطان اس مقام پہ بھی طالب کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا-جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’مجھے تعجب ہوتا ہے اُن لوگوں پر جو دعویٰ تو کرتے ہیں فنا فی الشیخ ہونے کا مگر ہو تے ہیں فنا فی الشیطان-یعنی اپنے شیخ کی صورت پرستی میں مست ہوتے ہیں اور حسن و سرود کے سہارے دم بستہ ہو کر بطور ِتقلید دم کشی کرتے ہیں‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)
3: سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:’’ افضل ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے‘‘- جب کسی کے وجود میں کلمہ طیب کا ذکر تاثیر کرتا ہے تو وہ خود پرستی چھوڑ کر بے خود ہو جاتا ہے- کلمہ طیب تحقیق شدہ وسیلہ و پیشوا ہے - راہبر رفیق ِراہ ہے اور بے شک مجلس ِمحمدی(ﷺ)میں دیدارِ پُر انوار سے مشرف کرتا ہے‘‘- (مجالسۃ النبی(ﷺ) خورد)
کلمہ طیب کب تاثیر کرتاہے؟ اس کے بارے میں آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’کلمہ طیب کا ذکر تاثیر نہیں کرتا جب تک کہ مرشد ِکامل کے ارشاد کے تحت نہ ہو اور اگر کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا ذکر ارشادِ مرشد ِ کامل کے تحت کیا جائے تو توحید و توکل دونوں حاصل ہو جاتے ہیں-( محک الفقرکلاں)
اسم اللہ بس گراں است بیبہا |
|
ایں حقیقت را بد اند مصطفٰےؐ |
4:’’ یہ حقیقت سیدنا محمدمصطفےٰ(ﷺ)ہی جانتے ہیں کہ اسم اللہ ذات اِنتہائی قیمتی و انمول دولت ہے‘‘- (کلید التوحیدکلاں)
بلاشبہ اسم اللہ ذات کی عظمت وشان بہت زیادہ ہے اس کی عظمت ورفعت کوکماحقہ بیان کرناا انسان کی بس کی بات نہیں- یہاں آپؒ کی تصنیف لطیف سے ایک اقتباس رقم کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں :
’’علمِ توریت و علمِ انجیل، علمِ زبور و علمِ قرآن،علمِ اسمِ اعظم و علمِ کیمیا جو اِن چاروں کتابوں میں موجود ہے اور علمِ احادیث ِنبوی و علمِ احادیث ِقدسی،علمِ صحیفہ و خواب و الہامِ جملہ پیغمبران وحضرت آدم صفی اللہ سے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) تک تمام انبیا ٔکا سارا علمِ ظاہر و باطن اور اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات میں جاری کن فیکون کی تمام حکمتوں کا علم، لوحِ محفوظ و عرشِ اکبر و کرسیٔ عظیم، علمِ ازل و ابد، علمِ دنیا و عقبیٰ اور شرف ِ دیدار ِتوحید ِپروردگار کے جملہ علوم کی تفصیل اسم اللہ ذات کی طے میں ہے- کوئی چیز بھی اسمِ اللہ ذات کی طے سے باہر نہیں ہے‘‘- (امیرالکونین)