قلب جتنی بار بھی اسمِ اللہ ذات کے ساتھ کلمہ طیب کا ذکر کرتاہے اُسے ہر بار ستر ہزار ختمِ قرآن کا ثواب ملتاہے بلکہ اِس سے بھی زیادہ بے حد و بے شمار ثواب ملتاہے- ایسا صاحب ِقلب ذاکر جب آنکھیں بند کرتا ہے اور تصورِ اسمِ اللہ ذات کے مراقبے میں غرق ہو کر دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور تجلیاتِ نورِ ذات اور حضوریٔ ربوبیت کے مشاہدہ میں غرق ہوتاہے توبحکمِ الٰہی نور ِعصمت ِاسمِ اللہ ذات و کلمہ طیبات ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی برکت سے اُس کے اَسی(80)سال کے گناہ کراماً کاتبین کے دفاتر سے مٹا دیے جاتے ہیں کہ یہ ایک بے ریا و پوشیدہ عمل ہے جو نگاہِ حق تعالیٰ میں ہمیشہ منظورو مقبول ہے کہ نگاہِ حق تعالیٰ ہمیشہ دل پر رہتی ہے-الغرض!جب صاحب ِتصور آنکھیں بند کرتا ہے اور خاص ترتیب کے ساتھ تصورِ اسمِ اللہ ذا ت و تصورِ کلمہ طیبات کے مراقبے میں غرق ہوتا ہے تو گویا وہ تصور ِ اسمِ اللہ ذات کی تلوار ہاتھ میں لے کر زندگی بھر کے صغیر ہ وکبیرہ گناہوں اور نفس و شیطان و جملہ دارِحرب جو روئے زمین پر موجود ہیں کے جملہ خناس و خرطوم و خطرات کو قتل کرتاہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے‘‘-ایسے ذکر ِمدام، تفکر ِتمام اور مراقبۂ حضور ی کو مجموع الحسنات کہتے ہیں اور یہ اِس آیت ِکریمہ کے عین مطابق ہے، فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ بات ذاکرین کے حق میں بے حد مفید ہے‘‘- جان لے کہ جب ذاکر خفیہ آنکھیں بند کرتا ہے اور مراقبہ میں غرق ہو کر دل کی طر ف متوجہ ہوتا ہے اور مد کھینچ کر بلند آواز سے ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کہہ کر اِس نعمتِ عظمیٰ کو پالیتاہے تو وہ ذاکر ِحافظ ِرحمانی ہو جاتا ہے لیکن جو بدبخت اِس نعمت سے محروم رہ جاتاہے وہ سیاہ دل ہو کر خطراتِ شیطانی میں گھر جاتا ہے- انسان اور حیوان میں تمیز کرنے والی چیز یہی قلب ہی تو ہے، اگر کسی کے پاس ذکر اللہ سے پُر قلب ِسلیم ہے تو وہ روشن ضمیر انسان ہے ورنہ حیوان ہے-انسان اُسے کہتے ہیں جو بظاہر صاحب ِعبودیت ہو لیکن بباطن دل میں معرفت ِالٰہی اور نورِ حضور کے مشاہدہ میں غرق صاحب ِربوبیت ہو کہ یہی دو چیزیں انسان کے لئے بمنزلۂ بال و پر ہیں- جان لے کہ ہر وہ سلک سلوک جس کا تعلق اعمال ِظاہر سے ہے چراغ کی مثل ہے لیکن سلک سلوکِ حاضرا تِ اسمِ اللہ ذات آفتا ب کی مثل ہے- جب نورِ توحید کا یہ آفتاب طلو ع ہو کر تجلی ریز و شعلہ زن ہوتاہے تو قلب اُس کے نور سے روشن ہو جاتا ہے- جب اسمِ اللہ ذات کی روشنی لوحِ ضمیر پر پڑتی ہے توصاحب ِلوحِ ضمیر صاحب ِمعرفت ِالٰہی ہوکر جملہ علم علومِ حیُّ قیوم کا حافظ ہوجاتاہے اور معرفت ِتوحید کے تمام مقامات اور لوحِ محفوظ پر درج شدہ تمام علوم اُس پر منکشف ہوجاتے ہیں اور وہ اُنہیں سمجھ لیتاہے کیونکہ حضوریٔ مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی برکت سے اُس کی لوحِ ضمیر صاف و شفاف ہو کر آئینۂ سکندری کی طرح روئے نما ہوجاتی ہے اور لوحِ محفوظ پر درج شدہ ہر علم و ہر حقیقت لوحِ ضمیر میں آجاتی ہے اور وہ لوحِ محفوظ اور لوحِ ضمیر پر درج شدہ کلامِ الٰہی کا موازنہ کرتاہے اور جب اُنہیں درست پاتاہے اور ہر ہر حرف کو عظمت و کر م و شرف کا حامل پاتاہے تو تحقیق کرلیتاہے کہ یہ نگاہِ حق تعالیٰ میں منظور و مقبول ہے کہ نگاہِ خدائے تعالیٰ عرش و کرسی و لوحِ محفوظ پر نہیں بلکہ لوحِ ضمیر پر رہتی ہے، اُس شخص کی لوحِ ضمیر پر جو اپنے نفس پر امیر ہو اور ہمیشہ طاعت و بندگی میں مشغول رہتاہو کہ زندگی بے بندگی شرمندگی ہے-