خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دہم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دہم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دہم

مصنف: ملک نورحیات خان ستمبر 2020

حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں:

بہ ینم جَو نہ خرم طاقِ خانقاہ و رباط

 

مَرا کہ مصطبہ ایوان و پائے خم طنبی ست

’’میں خانقاہ اور لنگر خانہ کے طاق کو آدھے جوَکی قیمت پر بھی نہ خریدوں کیونکہ شراب خانہ میرا محل اور مرشد کے پاؤں کا محرابی خم میرا خیمہ ہے‘‘-

اس شعر میں رباط سے مُراد مسافر خانہ یعنی بہشت میں جائے قیام اورطاق خانقاہ سے مُراد جنت کا گوشۂ عافیت ہے- حافظ شیرازی کے نزدیک آستانۂ مرشد جہاں معرفتِ الٰہی کے جام تقسیم ہوتے ہیں،ایک ایوان آسائش وآرام ہے اور اپنے مرشد کے محرابی خمِ پاکو اپنا خیمہ اور محل خیال کرتے ہیں -

درحقیقت حافظ شیرازی اس شعر میں اُن مرَدان حق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جو ہمہ وقت عشقِ الٰہی کی مسحور کُن شراب کے نشہ میں مد ہوش رہتے ہیں-جنت کی لذتوں اور حور و قصورکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے - کیو نکہ جنت ظاہری عبادت گزاروں اور عاقبت پرست زاہدوں کا مَسکن اور تفاخر شان کا مقام ہے جب کہ شراب خانہ یعنی عارف کامِل کا باطن منزلِ عشق وعرفان سے عبارت ہے جو محبوب حقیقی کے وصال کا ذریعہ اور انسان کا اصلی مقصد حیات ہے-عارفانِ کامل وصالِ الٰہی سے کم کسی بھی نعمت پہ شکر تو کرتے ہیں مگر سمجھوتہ کر کے رُک نہیں جاتے ، بلکہ سب نعمتوں سے بڑی نعمت کے حصول کی کاوشوں میں مشغول رہتے ہیں- متعدد صوفیائے کرام کے نزدیک عشق درحقیقت اُس جذبہ غیبی کا نام ہے جس کے تحت یہ ساری کائنات معرضِ وجُود میں آئی - جیساکہ یہ حقیقت ’’فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ ‘‘فرماکر ظاہر کی گئی ہے- پھر حق تعالیٰ کا عرفان و وصال بھی اسی عشق ہی کی بدولت ممکن ہے -

دینِ اسلام میں مذہبی قوانین و رسومات اگرچہ معاشرہ میں نظم و ضبط بھی قائم کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں مگر ان میں عرفان حق کے اعلیٰ مقصد کے لئے ایک مخصوص نصابِ تعلیم و تربیت بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں شریعت ایک راستہ ہے، طریقت ایک چراغ ہے جس کی روشنی میں راہِ حق کا سفر طے کیا جاتا ہے اور معرفت وہ پلیٹ فارم ہے جس پر تجلیاتِ حق کا مشاہدہ کیا جاتاہے- مگر یاد رہے کہ گلستان ِ شریعت کی مہکتی پھُلواڑیاں ہوں یا کوہستانِ طریقت کی دشوار گزار وادیاں،  خیابانِ معرفت کے پُر کیف نظارے ہوں یا نخلستانِ حقیقت میں وصالِ محبوب کی چند ساعتیں ، یہ تمام مقامات و مراتب عشق ہی کی جلوہ نمائی و حجاب کشائی کے مرہون ِمنت ہیں- اسی لئے حضرت علا مہ اقبال فرماتے ہیں :

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مُسلمانی

 

نہ ہو تو مَرد مسلمان بھی کافر و زندیق

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنی ایک انتہائی موثر اجمالی تصنیف ’’رسالہ روحی‘‘ میں عشق کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :

’’ذ ات سرچشمۂ چشمانِ حقیقتِ ھاھُویّت حضرتِ عشق بالائِ کونین بہ بارگاہِ کبریا تختِ سلطنت آراستہ- از کمالِ عبرتِ ماہیّتِ ذاتِ پاکش ہزاران ہزار و بیشمار قوافلِ عقل سنگسار ‘‘

حافظ شیرازی ابتد ائے عشق کی داستان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

در ازل پَر تو حسنت ز تجلی دَم زد
جلوہ کرد رخَش، دید مَلک عشق نداشت

 

عِشق پیدا شد و آتشِ بر ہمہ عالم زد
عین آتش شد ازین غیرت و بَر آدم زد

’’یعنی ! ازل میں تیرے حُسن کی چمک ظاہر ہوئی تو عشق پیدا ہو گیا - اُس کے رُخ انور نے جلوہ نمائی فرمائی جو فرشتوں نے بھی دیکھی مگر اُن میں عشق نہ تھا اِس حمیت کی وجہ سے وہ آگ آدم کو لگا دی ‘‘-

حافظ شیرازی کے اس انکشاف سے ظاہرہوا کہ عشقِ الٰہی کی آگ ازل سے اولاد آدم کی سر شت میں شامل ہے- مگر اس آگ کا شعلہ روشن کرنے کے لئے کسی ماہر آتش افروز کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی طالب صادق کو خوش نصیبی سے کسی مُرشد کاملِ کی صورت میں میسر آتا ہے -

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت اور پہچان کے لئے پیدا فرمایا اور جس جذبہ عشق کے ساتھ اس ساری کائنات کی تخلیق فرمائی عشق کا وہی مقدس جذبہ انسان کو ودیعت فرمادیا - جس کے ذریعہ انسان نے اپنے خالق حقیقی کے وِصال کے لئے میدان عمل میں قدم رکھنا ہے- مرشد کامِل کی مُحبت عشقِ الٰہی میں قدم رکھنے کا ابتدائی زینہ ہے- جب کوئی شخص طالب صادق بن کر اپنے مرشد کی محبت میں انتہا  تک پہنچ جاتا ہے تواُسے ’’فنافی الشیخ‘‘ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اُس کی محبت کا یہ جذبہ محبت رسول (ﷺ)  اور عشقِ الٰہی میں منازل طے کرنے کے قابل ہو جاتا ہے مگر جو طالب محبتِ شیخ کے مجازی میدان میں ناکام رہ جائے وہ حقیقت کی دُنیا میں قدم اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا- جو شخص محبتِ شیخ کی بجائے دنیا کے مال وزر کے گرداب میں پھنسارہے اس کا زہدوعبادت اور مُراقبہ محض گوشہ گیری کے مترادف ہوتا ہے -

درج بالا شعر میں حافظ شیرازی مُحبت کے سنہری اصول کے پیش نظر اپنے مرشد کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار فرما رہے ہیں اور اپنے مرشد کے پاؤں کے سایہ تلے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں -

شاد باش! اے عشق! اے سودائے  ما

 

اَے طبیبِ جملہ عِلت ہائے ما

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر