ظ:ظاہر ویکھاں جانی تائیں نالے دِسّے اندر سِینے ھو
برہوں ماری میں ِنت پھِراں مینوں ہسّن لوک نَابِینے ھو
مَیں دِل وچوں ہے شوہ پایا لوک جاون مکّے مَدینے ھو
کہے فقیر مِیراں دا باھوؒ سَب دِلانْدے وچ خَزِینے ھو
Outwardly, I see my beloved and also within my breast I see Hoo
Roam around for years yet blinds laugh at me Hoo
People visit Makka and Medina I have accessed within the heart Hoo
Says faqeer of Abdul Qadir Al-Jilani ‘Bahoo’ all the treasure is within the heart Hoo
Zahir wekhaa’N jaani taei’N nalay dissay andar sinay Hoo
Berhoo’N mari main nit phiraa’N menoo’N hassan lok nabinay Hoo
Main dil wicho’N hai shoh paya, lok jawan Makkay Madinay Hoo
Kahay faqeer Meera’N da Bahoo sab dilaanday wich khazinay Hoo
تشریح:
ظاہر باطن کا دراصل ایک لحاظ سے گہرا تعلق ہے اور ایک لحاظ سے یہ جدا جدا بھی ہیں -تعلق اس لیے ہے کہ ظاہر کی پاکی اور باطن کے تزکیے کا اثر ایک دوسرے پہ پڑتا ہے ؛ اور جدا جدا اس لیے ہیں کہ بعض اوقات ایک باطن آباد فقیر راہ ِ سلوک میں اس کیفیت سے بھی گزرہا ہوتا ہے جس کو ظاہربین لوگ اچھا نہیں سمجھتے اوروہ لوگوں کی طعن و تشنیع کا شکار ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایک آدمی ظاہراً تو بڑا پارسا نظر آتا ہے لیکن بباطن پرلے درجے کا منافق ہوتاہے- دراصل صوفیاء کرام اسی منافقت کا قلع قمع کرتے نظر آتے ہیں،ورنہ اولیاء اللہ ظاہری عبادت و ریاضت کو بہت اہمیت دیتے ہیں اوراکثر صوفیاء کرام قائم اللیل اورصائم الدھر ہوتے ہیں-اس بیت مبارک میں بھی باطن کی آبادی پہ زود دیاگیاہے :
1:’’ہر چیز کے ظاہرو باطن میں صرف ایک ہی ذات جلوہ گر ہے اِس لئے عارف باللہ جب بھی بولتا ہے اُس کے منہ سے اسم اللہ ہی نکلتا ہے، وہ جدھر بھی دیکھتا ہے اسے اسم اللہ دکھائی دیتا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’پس تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ ہی کا چہرہ نظر آئے گا‘‘- (عین الفقر)
جو آدمی اس مقام ومرتبے کا متمنی ہے اس کا طریق بتاتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
ہر کہ جانِ خود را فروخت اسم اَللّٰہُ خرید |
|
ہر کہ اسم اَللّٰہُ خرید بعین العیان دید |
’’جو شخص اپنی جان کے بدلے اسم اللہ خرید لیتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے ذاتِ حق کا دیدار کرتا ہے‘‘ -(عین الفقر)
خندہ ہا بر سینہ صافان می کنی ہشیار باش |
|
ہرکہ برآئینہ خندد دویش خندی خود کند |
2: ’’ تُوباطن صفا فقیروں پر ہنستاہے، خبردار! وہ تو شفاف آئینے ہیں، جواِن آئینوں پر ہنستاہے وہ دراصل اپنی ہی ہنسی اُڑاتاہے‘‘ -(کلیدالتوحید (کلاں)
’’ہاتھ نہ پہنچے تھوکڑوی‘‘ کے مصداق اکثر لوگوں کو راہ فقر کی حقانیت کا یقین ہوتا ہے لیکن و ہ تفنن طبع کے لیے ان سے مذاق کرتے ہیں ایسے لوگوں کو رسول اللہ (ﷺ) کا یہ فرمان پیش نظر رکھنا چاہیے کہ رسول اﷲ(ﷺ)نےارشاد فرمایا :
’’ جس نے کسی مومن فقیر کو ناحق ستایا اُس نے گویا خانہ کعبہ کو منہدم کیا اور ہزا ر مقرب فرشتوں کو قتل کیا ‘‘ -(کلیدالتوحید (کلاں)
آپؒ نے ارشاد فرمایا : ’’بارگاہِ اِلٰہی میں ایک مومن فقیر کی عزت ساتوں زمین و آسمان و پہاڑ اور اُن میں موجود ہر چیز اور مقرب فرشتوں سے بڑھ کر ہے ‘‘-(کلیدالتوحید (کلاں)
راہ سلوک میں چونکہ ان حالات کا سامناکرناپڑتاہے -اس لیے طالبان مولیٰ کو آپؒ کا یہ فرمان مبارک پیش ِ نظر رکھناچاہیے -
’’جسے خالق پسند کرلے وہ پاک ہے اُسے مخلوق پسند نہ بھی کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ‘‘-
3-4: سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: ’’دل اللہ تعالیٰ کا عرشِ اعظم ہے ‘‘-کرم و رحمت ِ ازلی دل ہے کہ دل خزانۂ حق ہے – (محک الفقر کلاں)
ہر دمی من حاجیم قرب از کرم |
|
کعبہ رادر دل ببینم نیست غم |
’’مَیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے اُس کے قرب میں ہر دم حج کرتا ہوں اور ہر دم کعبہ کو اپنے دل میں دیکھتا ہوں اِس لئے مجھے کوئی غم نہیں‘‘- (امیرالکونین)
بیت مبارک کے آخری دونوں مصرعوں میں آپؒ اس چیر پہ زوردیاہے کہ میں نے حقیقت دل کے اندرپائی اور اللہ عزوجل نے دل کے اندر ہی تمام خزانے رکھ دیے ہیں جیساکہ آپؒ نے اپنے فارسی اورپنجابی کلام میں کئی مقامات پہ دل کی عظمت وشان بیان فرمائی ہے-یہاں چنداقتباسات لکھنے کی سعی کرتے ہیں جن میں آپؒ نے دل کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس سے حجابات کی دوری کا طریق بھی بتایاہے :
’’دل ایک طلسم کدہ ہے اور جب تک طلسم کدۂ دل کو کھولانہ جائے اُس کے اندر کے یہ مخفی خزانے ہاتھ نہیں آتے -دل کے اِس طلسم کدہ کو صرف مرشد ِ کامل ہی کھول سکتا ہے لہٰذا مرشد ِکامل کو چاہیے کہ کلمہ طیب ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ‘‘کی چابی سے طالب کے وجود سے خزائن اﷲکو کھول کر تمام لعل و جواہر دکھا دے یا پھر طلسم کدۂ وجود میں نفس کے شیر و سانپ کو تصورِ اسم اللہ ذات کی آگ سے جلا ڈالے اور طالب کے وجود سے تمام خزائن اللہ نکال لائے‘‘-(کلیدالتوحید (کلاں)
’’یہ فقیر باھُو کہتا ہے کہ دل کی صورت نیلوفر کے پھول جیسی ہے- اُس کے پہلو میں چار خانے ہیں ، ہر خانے میں زمین و آسمان کے چودہ طبقات سے وسیع تر ولایت ہے- ایک خانہ نشیب ِدل میں ہے جس میں سرِّلامکان پایا جاتا ہے- ہر خانے میں خزانۂ الٰہی بھرا ہوا ہے- دل اسرار ِمعرفت ِوحدانیت ِالٰہی کا گنجینہ ہے کہ اِس میں اُلوہیت و ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے‘‘ -(عین الفقر)
’’سب سے گہرا دریا تو دل ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے دل کو قلزم کَہ کر پکارا ہے اور قلزم توحید ِ اِلٰہی کا اِتنا گہرا دریا ہے کہ اُس کا کوئی کنارہ نہیں‘‘ - (کلیدالتوحید (کلاں)