حافظ شیرازیؒ تصوف کے علمبردار تھے-ان کے اشعار ایک خاص صوفیانہ کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں-ان کے کلام میں ایسی سحر آفرین تاثیر پائی جاتی ہے جس میں انسانیت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے-وہ رنگ برنگیت میں یک جہتی اور ہم آہنگی کی روح بیدار کرنے کے آرزو مند تھے- ان کے دل میں محبت اور خلوص کی ایسی چنگاری موجود تھی جس کا بجھنا ممکن نہ تھا-یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام ظاہری بادہ دوستی کا عکاس ہو یا سلاطین وقت کا مدح خوان، ہر صورت میں عرفان کا ایک تڑپتا ہوا جذبہ اس میں ضرور پایا جاتا ہے-آئیے ان کے اسی جذبہ کی ترجمانی کرنے والے ان کے اس شعر پر ایک نظر ڈالتے ہیں- حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ:
یوسف گم گشتہ، باز آید بہ کنعان غم مخور |
’’گم شدہ یوسف کنعان میں واپس آجائے گا غم نہ کر، غموں والی کوٹھری ایک دن باغ بن جائے گی غم نہ کر‘‘-
حافظ شیرازیؒ نے اس شعر میں حضر ت یوسف (علیہ السلام) کی داستانِ حیات کو موضوع سخن بنایا ہے جو رنج و الم کے بے شمار واقعات سے شروع ہو کر سلطنتِ مصر کی تخت نشینی پر اختتام پذیر ہوئی اور اس داستان کے تناظر میں قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا‘‘[1] ’’بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے‘‘-
اگرچہ انسان کو حالت ’’عُسر‘‘ میں مصیبتوں اور ہر قسم کی تکالیف کا سامنا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ’’یُسر‘‘ بھی موجود ہوتا ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وقت پر از خود وارد ہوجاتا ہے-جس کے ذریعہ انسان راحت اور شادمانی سے لطف اندوز ہوتا ہے-صوفیائے کرام کے نزدیک ’’عُسر‘‘ ایک مجاہدہ ہے اور ’’یُسر‘‘ مشاہدہ ہے جو مجاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے-اس لئے بندگانِ خدا دونوں صورتوں میں اپنے رب کے جلال و جمال کی طرف متوجہ رہتے ہیں کیونکہ غیر اللہ کی طرف رغبت اور التفات اپنے رب کریم سے حجاب اور قرب سے بُعد کی طرف سقوط کا باعث ہوتا ہے اور انسان کا مقام کسی غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا-
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ایمانداروں کو دشواری کے ساتھ خوشحالی کی جو بشارت دی ہے وہ ان کے صبر اور ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ اگر تم مصیبت کا مقابلہ تحمل،بردباری اور اسقامت کے ساتھ کرو گے اور دین اسلام پر قائم رہتے ہوئے کوئی نافرمانی نہ کرو گے تو تمہیں ایک تکلیف کے بدلہ میں دو قسم کی خوشحالی عطا کی جائے گی-ایک دنیا میں فتح و نصرت اور عزت و اقبال اور دوسری آخرت میں بلندیٔ درجات اور اگر راہِ خدا میں آنے والی کسی تکلیف یا مصیبت کو برداشت نہ کرو گے اور غفلت لا پرواہی کا مظاہرہ کرو گے تو دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں عذاب الیم پاؤ گے- جیسا کہ تاریخ یہ شہادت دے رہی ہے کہ جب مسلمانوں نے دین اسلام کی ترقی میں فرائض بجالانے میں تکلیف گوارہ کی اور دشمنانِ اسلام کے ظلم وستم کی پرواہ نہ کی تو ملکوں کی حکمرانی عطا کی گئی-جس کی مثال صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے بعد مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ہے-اقبال کے بقول شمشیرِ سنان پہلے ہے طاؤس و رباب بعد میں ہے، جب تک شمشیر و سنان انگشتری و گلوبند کی طرح مسلمانوں کا زیور رہا تب تک جاہ و حشمت ، شان و شوکت اور قوّت و سَطوَت اُمّت کا مقدّر رہی؛ اور جب وہی امت مسلمہ فرائض دین ترک کر کے دنیاوی عیش و نشاط میں مبتلا ہوئے، یعنی ’’عسر‘‘ سے گریزاں ہونے لگےتو ’’یسر‘‘ کے مستحق بھی نہ رہے-زندانِ مصر سے گھبرانے لگے تو تختِ مصر کی زینت بننے سے بھی محروم کر دیئے گئے اور شمشیر و سنان کی دھاریں تیز کرنا بھول گئے تو طاؤس و رباب لُٹ گئے-ان کے تخت و تاج چھینے گئے، دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا، خزانے لٹ گئے، علوم مٹ گئے، یہ سب کچھ کاہلی، عیاشی اور فرائض سے غفلت کا نتیجہ ہے-یہی عادات و خصائل رکھنے والوں کو صوفیاء کی زبان میں نشان شجاعت سے محروم نامرد کہا گیا ہے-کیونکہ ان کی نظر میں ایسے افراد جو مجاہدہ اور سخت کوشی میں متاعِ دنیا و لذاتِ عقبیٰ کو ٹھکرا کر متاع و لذتِ عشقِ الٰہی کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں وہی مرد کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں اور مردانِ حق کہلاتے ہیں-کیونکہ جو ذاتِ الٰہی کا عاشق نہیں وہ مردانگی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کا مستحق نہیں-
اسی ضمن میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
مَرداں تے نَمرداں دِی کَل تَداں پوسی باھوؒ جَداں عاشق بَنہسن گانے ھو |
یعنی مرد(مرادانِ خدا) اور نامرد (طالبِ دنیا) کا پتہ اس وقت چلے گا جب قیامت کے دن عاشقانِ الٰہی اپنے ہاتھوں کی کلائیوں پر عروسی (معرفت) کے کنگن بطور نشانِ وصال اور نشانِ شجاعت باندھیں گے-
وہ مردانِ خدا جو عشقِ الٰہی میں دنیا و عقبی کے متاع و حور و قصور کو ٹھکرا دیتے ہیں ان کے اس صبر و تحمل کے صلہ میں ان کو جو راحت و خوشحالی عطا کی جائے گی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:
’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاج وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌo‘‘[2] |
|
’’(دائمی اِقامت کے لیے) عدن کی جنّتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، ان میں انہیں سونے اور موتیوں کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کی پوشاک ریشمی ہو گی‘‘- |
یہی وہ باغات ہیں جن کےمتعلق حافظ شیرازی اپنے متذکرہ بالا شعر میں غموں کی کوٹھری کو باغات میں تبدیل ہوجانے کی نوید سنا رہے ہیں-
یوسف گم گشتہ، باز آید بہ کنعان غم مخور |
٭٭٭