عَقل فِکر دی جَا نہ کائی جِتھے وحدت سرّ سُبحانی ھو
ناں اُوتھے مُلّاں پَنڈت جوشی ناں اوتھے علم قُرآنی ھو
جد اَحمدؐ اَحد وِکھالی ڈتا تاں کُل ہووے فَانی ھو
عِلم تمام کتونے حاصل باھوؒ کِتاباں ٹھَپ آسمانی ھو
There isn’t any place for intellect and thoughts where is sirr (secret) of glorious one Hoo
Neither there are mullah pandat, yogi or students of traditional literal knowledge
Everything annihilated when Ahmed (ﷺ) shown Divine One Hoo
Accessed entire knowledge Bahoo by keeping closed heavenly books of knowledge Hoo
Aql fikr di ja na kaei jithay wahdat sirr-i-subhani Hoo
Na’N othay mulla’N, pandit, joshi na’N othay ilm, quraani Hoo
Jad Ahmad (ﷺ) ahad wikhali Ditta ta’N kul howay fani Hoo
Ilm tamam kitonay Hasil Bahoo kitaba’N Thap asmani Hoo
1-2: حضور رسالت مآب (ﷺ) کا فرمان ذیشان ہے :
’’لِي مَعَ اللهِ وَقْتٌ لَا يَسَعُنِي فِيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ، وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ‘‘ |
|
’’معیتِ حق تعالیٰ میں مجھے ایک وقت ایسا بھی حاصل ہے کہ جہاں کسی مقرب فرشتے کو اور نہ ہی کسی نبی مرسل کورسائی حاصل ہے‘‘-(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الایمان) |
اس حدیث مبارک کی وضاحت میں ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ یہاں ’’مَلَكٌ مُقَرَّبٌ‘‘ سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور ’’نَبِيٌّ مُرْسَلٌ‘‘سے مراد خود آپ (ﷺ)کی ذاتِ اقدس ہے- مزید ارشادفرماتے ہیں :’’وَاسْتِغْرَاقِهِ فِي بَحْرِ الْوَحْدَةِ حَيْثُ لَا يَبْقَى فِيهِ أَثَرُ الْبَشَرِيَّةِ وَالْكَوْنَيْنِ‘‘کہ بحرِ وحدت میں آپ (ﷺ) کا استغراق اس حیثیت کا تھا کہ وہاں نہ بشریت کا اثر باقی رہااور نہ ہی کونین (دنیا وآخرت) کا اثر ‘‘-دراصل بحرِ وحدت میں غوطہ زن ہو کر عالم ہست وبو د حتی کہ اپنی ذات سے ماورٰ ی ہونا محض اللہ عزوجل کی عطا اور شاہکار اولیاء اللہ کاازلی نصیبہ ہے جیساکہ حضورسلطان العارفینؒ اس مقام کو ’’صاحب ِمجموعہ معارف باللہ‘‘ سے موسوم فرماتے ہیں اور یہ سعادت خاتم الانبیاء، شافع ِ روزِ جزا سیدنامحمد مصطفٰے(ﷺ)کی رضاء اورمرشد کامل کی خوشنودی کے بغیر کسی کوحاصل نہیں ہوتی کیونکہ یہاں عقول محیّر رہ جاتی ہیں اورسرشاری کےاس عالم میں اپنے جسمانی وجود کوبھی بیگانہ وار محسوس کرتی ہیں -جیساکہ محبوب سبحانی، قطبِ ربانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ عنہ)بندہ مومن کے اس مقام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’عالم رُوحانیت عالم سِرّ ہے جس میں سوائے ذات حق سبحانہ وتعالیٰ کے کوئی غیر حق دیار نہیں -اُس کی مثال صحرائے نور کی ہے جس کی کوئی حد نہیں-طفل المعانی(ارواحِ اولیاء اللہ )اس میں محوِ پرواز ہوکر اُن عجائب وغرائب کامشاہدہ کرتا ہے جن کوبیان کرنا ممکن نہیں -یہ مقام اُن موحدّوں کاہے جوخود کوفناکرکے عینِ وحدتِ ذات میں غرق ہوجاتے ہیں اور مشاہدۂ جمال الٰہی کے دوران اُن کاوجود کالعدم ہوجاتاہے‘‘- (سرالاسرار)
حضرت سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ نے مزید ارشادفرمایا :
’’عارفوں کا اِنتہائی مقام نورِ اِلٰہی کا اِستغراق ہے جو حضوری کا مقام ہے، وہا ں عقل و فکر کی گنجائش نہیں - مقامِ حضور میں ذکر فکرا ور علم حجاب ہیں ، وہاں کی کیفیت تو ایسی ہے کہ جیسے پانی جب دریا میں گرتا ہے تو محض پانی نہیں رہتا بلکہ دریا بن جاتا ہے - یہ وہ کیفیت ہے کہ جہاں نورِ خدا بندے کو امانِ اِلٰہی بخش کر نورِسرّمیں غرق کر دیتا ہے ،یہی وحدتِ کبریاکا راز ہے- ذکر و فکر ، ہوش و مستی اور خواب و خیال ایسی چیزیں ہیں جو بندے کو اِستغراقِ وحدت سے باز رکھتی ہیں‘‘-(محک الفقر(کلاں)
’’(جو)عین ذات کو اپنی (دل کی ) آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے- پھر اُسے علمِ رسم رسوم کی حاجت نہیں رہتی‘‘- (عقل بیدار)
3:شد مطالب دیدن روئِ مصطفٰے (ﷺ) |
|
شد حضوری غرق فی اللہ باخدا |
’’ رُخِ مصطفٰے (ﷺ)کی زیارت سے تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور حضوری ٔ غرق فنا فی اللہ بھی نصیب ہو جاتی ہے‘‘-(کلیدالتوحید(کلاں)
4:حضورسلطان العارفینؒ تمام علوم کے حصول کا طریق بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
’’ایک لاکھ چوبیس ہزار علوم ہیں اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہیں ،ہر پیغمبر کا علم جدا ہے ، کسی کے پاس کتاب کا علم ہے ،کسی کے پاس صحیفے کا علم ہے ، کسی کے پاس خواب کا علم ہے اور کسی کے پاس الہام کا علم ہے -یہ تمام علوم اسمِ اللہ سے حاصل ہوجاتے ہیں‘‘-(کلیدالتوحید(کلاں)
مزید ارشادفرمایا:’’قرآن ، توریت ، انجیل و زبور و ہر کتاب ِمسائل ِفقہ اسم اللہ ذات کی تفسیر ہے اور چاروں کتابیں اسم اللہ ذات کی شرح ہیں- جو کوئی اسم اللہ ذات کو اُس کی کنہہ سے پڑھنا جان لیتا ہے اُس پر ظاہر و باطن کے تمام علوم واضح ہو جاتے ہیں، پھر اُسے دیگر علوم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی‘‘-(امیرالکونین)
نور مجسم،شفیعِ معظم (ﷺ) کی بارگاہ مبارک کی حضوری،معرفت و حقیقت، دیگر مقامات ِ طریقت اور جملہ علوم کے حصول کا طریق بیان کرتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’ہوش میں آ !اور جان لے کہ معرفت و توحید و محبت و مشاہدہ و مجلس ِحضرت محمدرسول اللہ (ﷺ) و معراجِ قربِ حضوری و فقرِلایحتاج و نمازِ دائمی و مراقبہ و روشن ضمیری و کونین کی بادشاہی اور انبیا ٔ و اؤلیا ٔ اللہ کی ارواح سے مصافحہ وغیرہ کا علم مطالعۂ علمِ ظاہر اور ورد و ظائف ، ذکر فکر اور مراقبہ و مکاشفہ سے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا- چاہے کوئی ساری عمر ظاہر ی علم پڑھنے میں صرف کردے معرفت ِحق تعالیٰ سے بے خبر ہی رہے گا- یہ تمام مراتب ِباطن ہیں جو کسی صاحب ِباطن مرشد ہی سے کھلتے ہیں‘‘-(نورالھدٰی)