جب سالک تصورِ اسمِ ’’ اَللّٰہُ ‘‘میں مشغول ہوتاہے تو اُس کے قلب و قالب کے ساتوں اندام نورِ توحید ِالٰہی کا لباس پہن لیتے ہیں اور سالک دریائے توحید میں ایسا غرق ہوتاہے کہ موت و حیات کی کسی بھی حالت میں دریائے توحید سے باہر نہیں آتا اور حضوری و معیت ِحق تعالیٰ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتاہے، ہمیشہ مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں حاضر رہتاہے، یہ دونوں مراتب اُس کے مدِّ نظر رہتے ہیں اور کوئی چیز بھی اُس کی نگاہ سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی- اسمِ اَللّٰہُ یہ ہے –
اَللّٰہُ
جب سالک اسمِ لِلّٰہِ کا تصور کرتاہے تو اُسے حسن و سرود اچھے نہیں لگتے چاہےوہ حسن ِیوسف اور لحن ِداؤد (علہیما السلام)ہی کیوں نہ ہو- بھلا جو شخص آوازِ الست سن کرمست ہو چکا ہو اور تجلیاتِ انوارِ دیدار ِپروردگار کا حسن دیکھ چکا ہو اُسے آواز و حسن ِ مخلوق سے کیا کام؟ وہ تو ایک ہی کو جانتاہے ، ایک ہی سے واسطہ رکھتاہے اور ہمیشہ توحید میں غرق رہتاہے- اسمِ لِلّٰہِ یہ ہے -
لِلہِ
جب سالک اسمِ ’’لَہٗ ‘‘ کا تصور کرتاہے تو چونکہ یہ اسمِ حضوری جہان بھر کے لئے مشکل کشا اور باطن صفا ہے اِس لئے اپنے پڑھنے والے کو معرفت ِتوحید تک پہنچادیتاہے- اِس کو پڑھنے والا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے مدِّنظر رہتاہے اور دونوں جہان سے بے نیازہوکر نفس و شیطان کو قتل کردیتاہے- تصورِ اسمِ ’’ لَہٗ ‘‘ کی تاثیر سے نفس قلب میں ڈ ھل جاتا ہے، قلب روح میں ڈھل جاتاہے اور روح سرّ میں ڈھل جاتی ہے- یوں یہ چاروں ایک دوسرے میں محو ہوجاتے ہیں- اِس طرح اِس مراقبہ سے صاحب ِتصور کو مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل ہو جاتا ہے - اسمِ لَہٗ یہ ہے -
لَہٗ
(جاری ہے)