خراباتِ حافظ سے ایک جام : بارہویں قسظ

خراباتِ حافظ سے ایک جام : بارہویں قسظ

خراباتِ حافظ سے ایک جام : بارہویں قسظ

مصنف: ملک نورحیات خان دسمبر 2020

حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ:

ہر کہ شد محرمِ دل در حرمِ یار بماند
و آنکہ این کار ندانست در انکار بماند

’’جس شخص نے اپنے دل کے اسرار جان لئے وہ محبوب کے حرم میں داخل ہو گیا-جو یہ کام نہ سمجھا وہ انکار ہی کرتا رہ گیا‘‘-

حافظ شیرازیؒ اس شعر میں اس حدیث پاک کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ:

’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ‘‘ [1]                            ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے  انسان کو عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے  جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo‘‘[2]                                ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ‘‘-

حق تو یہی ہے کہ عبادت  اپنے رب کی پہچان کر کے کی جائے- اگر کوئی اپنے رب کو نہ پہچانتا ہو تو ؟ تو ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ یا تو ریا کاری کی عبادت ہوگی، یا دنیاوی حاجات کے حصول کیلئے یا حور و قصور کیلئے - حالانکہ مقصودِ عبادت فقط و فقط رضائے الٰہی اور لقائے الٰہی ہے - چنانچہ اس حدیث پاک کے مطابق اس دنیا میں حق تعالیٰ کی پہچان کو انسان کی اپنی ذات کی پہچان پر مشروط کیا گیا ہے کیونکہ حق تعالیٰ ایک نور ہے اور اس کے نورِ مقدس کا قیمتی خزانہ انسان کی اپنی ذات کے اندر موجود ہےجس  کی کنجی خود  شناسی ہے- خود شناسی سے مراد اپنی ذات کی نفی ہے جس میں انسان اپنی ذات اور ذاتی خواہشات کی فنا سے نکل کر حق تعالیٰ کی قیومیت کے ساتھ بقا حاصل کر تا ہے-کیونکہ عشقِ الٰہی کے چراغ کی روشنی میں جب انسان اپنے ہی دل میں اس گوہر مقصود کو ڈھونڈ لیتا ہے تو اپنی ذات  سے فنا ہو جاتا ہے-جس کو صوفیاء کی زبان میں ’’مُوْتُوْ ا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ کہا جاتا ہے اور جس نے بھی اس عمل  کے ذریعے معرفت یعنی اصل حقیقت کو سمجھ لیا وہی ذات حق تعالیٰ کو سمجھنے میں کامیاب ہوا اور اس نے اپنے رب کو پہچان لیا اور اس کی معرفت سے سرفراز ہوا اور ’’مَنْ عَرَفَ‘‘ کو پالیا-کیونکہ اگر غور کیا جائے تو نہ ہی انسان کا وجود اپنا ذاتی ہے اور نہ ہی علم-بلکہ قرآن حکیم میں انسان کی شان ’’ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘‘بیان فرمائی گئی ہے-اس کے باوجود اگر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر سارے عالم میں پذیرائی بخشی گئی تو محض اس لئے کہ انسان کا باطن حق تعالیٰ کی تجلی گاہ ہے-جیسا کہ حافظ شیرازیؒ ایک مقام پر فرماتے ہیں:

نظرے کرد کہ بیند یہ جہاں صورتِ خویش
خیمہ در آب و گل مزرعہ آدم زد

’’جب اس نے چاہا کہ جہاں میں اپنی صورت کو دیکھوں   تو  آدم کی مٹی اور پانی والے کھیت میں اپنا خیمہ لگالیا‘‘-

اس لئے اس خیمۂ دل میں دیکھنے کے لئے چراغِ عشق  اور کسی راہبر کامل کی ضرورت ہوتی ہے جو کوچۂ محبت کے آداب و رسومات کا واقفِ حال ہو-جس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

وَڑیں بازار محبت والے باھوؒ کوئی رہبر لے کے سوہاں ھو

یعنی محبتِ الٰہی کے بازار میں کسی آشنائے حال مرشد کامل کے ہمراہ داخل ہونا-کیونکہ حجرۂ تن میں کسی مرشد کا مل کی نظر توجہ کے بغیر دیدارِ محبوب ممکن نہیں ہے-

اسی ضمن میں حضرت مولانا روم فرماتے ہیں:

ایں چنیں کامل بجو گر رہ روی
تا ز وصل دوست با بہرہ شوی

’’اگر تو اس راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو کسی مرشد کامل کی تلاش کر جو تجھے دوست کے وصال سے مشرف کر دے‘‘-

گر تو سنگِ خارہ و مرمر شوی
چوں بہ صاحبِ دل رسی گوہر شوی

’’اگر تو سخت پتھر اور سنگِ مرمر بھی ہو تو جب کسی صاحبِ دل کے پاس جائے گا تو وہ تجھے موتی بنا دے گا‘‘-

اسرارِ دل سے آگاہی اورانوارِالٰہیہ کا شوق رکھنے والے طالبانِ مولیٰ ہر وقت عشقِ الٰہی کی لذت میں سرشار رہتے ہیں اور عشق کا مقام دل میں ہوتا ہے جو ایک پوشیدہ صورت حال ہے-اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس نے اپنی چار صفات میں اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار فرمایا ہے  جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

’’ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُج وَہُوَ بِکُلِ شَیْئٍ عَلِیْمٌo‘‘[3]

 

وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘-

ان میں سے صفتِ ظاہر اور صفتِ باطن کا تعلق پہچان کے ساتھ ہے-’’الظَّاہِرُ‘‘ کا ادراک تو چشم سر کی بصارت کے ذریعہ ہو جاتا ہے کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت کا اظہار  اشیاء کی صورت میں ہر جگہ ظاہر اور متجلی ہے مگر ’’الْبَاطِنُ‘‘ کا انکشاف عاشق صادق کے قلب کی چشم بصیرت کے ذریعہ ممکن ہے-بصارت اور بصیرت دونوں کا طریقہ کار الگ الگ ہے-ایک کا تعلق گفتار سے ہے اور دوسرے کا کردار سے،ایک کی تفسیر علم سے ہوتی ہے اور دوسرے کی تاثیر عمل سے-ایک کا ادراک چشم سر سے ہوتا ہے اور دوسرے کا مشہودِ چشم دل سے-ایک کی تکرار قال سے کی جاتی ہے اور دوسرے کی اقرار حال سےتو جو شخص محض قال سے اس حال کا دعوی کرتا ہے وہ دعویٰ محال اور باطل ہے-

اس لئے چاہیے کہ جس شخص کو ’’الظَّاہِرُ‘‘ کی سمجھ آجائے تو وہ اسی پر اکتفا نہ کرے بلکہ ’’الْبَاطِنُ‘‘ کے کشف کے لئے مشغول ہو جائے جس کا تعلق اسرارِ دل کے ساتھ ہے اور دل کا قفل جذبۂ عشق اور مرشدِ کامل کی نظر توجہ کے ساتھ کھولاجاتا ہے کیونکہ مرشد کامل کا قلب مرآۃ الرحمٰن ہوتا ہے جہاں ہر وقت حق تعالیٰ کے انور و تجلیات کے جلوے وارد ہوتے رہتے ہیں-جن سے فیض یاب ہو کر طالبِ مولیٰ اسرارِ دل کا محرم ہوتا ہے اور حرمِ یار میں داخل ہونے کے قابل ہوتا ہے اوریہی نقطہ حافظ شیرازی اس شعر میں سمجھا رہے ہیں-

ہر کہ شد محرمِ دل در حرمِ یار بماند

٭٭٭


[1](الحاوی للفتاویٰ، ج:2، ص:28)

[2](الذّٰریٰت:56)

[3](الحدید:3)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر