عِشق مؤذن دِتیاں بَانگاں کَنیں بُلیل پِیوسے ھو
خُون جِگر دا کڈھ کراہاں وضو صاف کیتوسے ھو
سُن تکبیر فنا فی اللہ والی مُڑن مَحال تھِیوسے ھو
پڑھ تکبیر تھیوسے واصل باھوؒ تڈاں شُکر کیتوسے ھو
Ishq muazzen initiated azan my ears heard the call Hoo
I performed ablution with hearts blood Hoo
Heard takbir of fana fillah not possible to return at all Hoo
I thanked Bahoo when recited takbir and achieved wisal Hoo
Ishq muazzen ditiyaa’N bangaa’N kanee’N bulail piyusay Hoo
Khoon jigar da ka’dh karahaa’N wazu saaf kitosay Hoo
Sun takbeer fana- fi-allah wali muran muhal thiyusay Hoo
Parh takbeer thiyusay wasil Bahoo ta’Da’N shukr kitosay Hoo
تشریح :
1-’’عارفوں کے کانو ں میں ہر وقت روز ِازل کی آواز ِالست گونجتی رہتی ہے- اُن کی نظر میں مراد دنیا محض بر با دی ہے کہ فقرأ پیوستہ ٔشاد وبا طن آباد و معمور باد ہوتے ہیں‘‘-(محک الفقرکلاں)مزید ارشادفرمایا:’’فقرأاُسی دن سے مست چلے آ رہے ہیں کہ جس دن اُنہوں نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ( کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ )کی آواز سن کر ’’ بَلٰی‘‘ (ہاں کیوں نہیں ) کہا تھا - جیسی کیفیت اُن کی اُس وقت تھی ویسی ہی اب ہے کہ اُنہوں نے دنیا کا منہ دیکھا ہی نہیں ‘‘- (محک الفقرکلاں)
اس لیے فرماتے ہیں: ’’ عاشق بے چارے کی جان خیالِ یار میں اٹکی رہتی ہے اِس لئے وہ ہر وقت عشق و محبت کے ترانے گاتا رہتا ہے‘‘ -(عین الفقر)
چونکہ عشاق کی ارواح مبارکہ اذلی اذان ِ عشق کی وجہ سے ہرچیزسے بے نیاز صرف اپنے معبود حقیقی کے عشق میں مست چلی آرہی ہیں-اس لیے انہیں غیر ماسوی اللہ کچھ اچھا نہیں لگتا، جیساکہ آپؒ عارف باللہ کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
2: ’’پانی پیاسا پیتاہے، کھانا بھوکا کھاتاہے، سرکوفداعاشق کرتا ہے اور طلب ِمولیٰ کا بھوکا اپنے جگر کا خون کھاتاہے، طلب ِمولیٰ کا پیاسا دریائے معرفت پیتا ہے کہ وہ عاشق ِدیدار ہوتا ہے ‘‘-(امیرالکونین)
مزید فرمایا:’’ شاغل ِاہل ِ ذات ذاکرکا ہر ساعت میں قال اور ہے ،حال اور ہے اور خیال اور ہے اور ہر لحظہ اُن کی جان اور ہے، مکان اور ہے، بیان اور ہے اور نشان اور ہے - وہ رات دِن خونِ جگر پیتے رہتے ہیں- اُن کا ہر کھانا مجاہدہ او رہر خواب وحدتِ حق کا مشاہدہ ہے ‘‘-(محک الفقر کلاں)
3: اذان ِ عشق کی صدا جن کے کانوں میں گونجتی ہے تو وہ اپنے معبود حقیقی پہ جان قربان کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے، حضرت سلطان باھُوؒ کے نزدیک مقامِ فنا و بقا کی سب سے عُمدہ مثالیں صحابہ کرام کی زندگیاں ہیں، جیساکہ آپؒ حضورنبی کریم (ﷺ) کے جان نثار صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی شان مبارک بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں کہ :
’’جنہیں دین عزیز تھا اُنہیں ابو جہل نے دین کے بدلے مال و زر اور حکمرانی کی پیش کش کی لیکن اُنہوں نے اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ)کی راہ میں جان تک قربان کر دی‘‘- (عین الفقر)
مزید ارشادفرمایا : ’’جب حضورنبی کریم (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے حکم مبارک سے کعبہ سے کوچ کیا اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ہر اہل ِمحبت و جان نثار صحابی(رضی اللہ عنھنم)نے بھی آپ(ﷺ) کی اِتبا ع میں ہجرت کی اورحضور نبی رحمت(ﷺ) پر اپنی جان و مال اور سر قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا- اِس کے برعکس جن لوگوں پر اپنے وطن، اپنی زمین، اپنے مال، اپنی دولت اور اپنے قرابت داروں کی محبت غالب آئی وہ خدمت ِ ہجرت سے جدا و محروم رہے لیکن وہ اصحاب جو اہل ِمحبت تھے اور طائفہ ٔ فقرأ میں سے تھے، پکے عاشق ِ رسول(ﷺ) تھے اِس لئے وہ آپ کے ساتھ ہی ہجرت کر گئے‘‘- (عین الفقر)
4: عاشق وصل کے علاوہ کسی چیز پہ اکتفا نہیں کرتا-اس لئے ارشادفرمایا کہ جب واصل ہو گئے تو ہم نے شکر کیا -گویا وصل سے کم کسی بات پہ عشق راضی نہ تھا- یہاں پہ تکبیر پڑھنے سے مراد ہے جب جانور کو ذبح کرتے ہوئے تکبیر پڑھی جاتی ہے ، مراد یہ کہ ہم نے اپنی جان لٹا کے اس کو پایا-جب واصل ہو گئے تو سمجھ آئی کہ جان دے کر اس کا وصل پانا کوئی مہنگا سودا نہیں تھا، اِس لئے ہم نے شکر ادا کیا کہ اس کے قرب کے مقابلے میں ہماری جان کی کوئی قیمت نہیں تھی - سو ، ہم نے سَستی چیز دے کر مہنگی چیز لے لی- جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’جس طرح جانور کو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘کہہ کر چھری سے ذبح نہ کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا- اِسی طرح اگرنفس کو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کی تکبیر سے ذبح نہ کیا جائے معرفت ِوصالِ حق تک ہرگز نہیں پہنچا جا سکتا -جو آدمی موت سے ڈرتا ہے وہ عاشق نہیں، ابھی خام ہے- جو طلب ِدیدار کا دعویٰ کرتا ہے مگر خود کو مارتا نہیں وہ اہل ِدنیائے مردار ہے ‘‘-(عقل بیدار)