"اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس"

"اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس"

مصنف: وقار حسن جنوری 2021

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ  (1039ھ - 1102ھ) کی ذات مبارکہ وہ مینارۂ نور ہے جس نے عالم انسانیت کو فقرِ محمدی(ﷺ) کی حقیقت سے روشناس کروایا-آپؒ صوفیاء کرام میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں-آپؒ نے طالبان مولیٰ کی رہنمائی کیلئے 140 کتب رقم فرمائیں جن  میں مضامینِ تصوف کو قرآن و سنّت کی روشنی میں پیش فرمایا-  آپؒ کی تمام تر تعلیمات کے خلاصہ و نچوڑ کو اگر آپ ہی کے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ جملہ  ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ہے- یہ آپؒ کی تحریر کا اعجاز ہے کہ آپ نے اپنی تصانیف میں جس موضوع کو بھی زیرِ بحث لایا اس کا اختتام نظریہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ پہ کیا ہے- تعلیماتِ حضرت سلطان باھو ؒ کے مطابق ’’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘‘  کا مفہوم یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہر رکاوٹ نفس پرستی ہے جس کا تدارک واجب ہے-البتہ سلطان العارفین نے اپنی تعلیمات میں جہاں بھی ترک ماسوی اللہ یا ترک دنیا کی بات کی ہے اس سے ہرگز رہبانیت مراد نہیں ہے بلکہ آپ کے ہاں ہر وہ چیز دنیا ہے جو بندے کو یادِ الٰہی سے غافل کر دے-

سلطان العارفینؒ اور حکیم الامتؒ کے درمیان زمانی اعتبار سےکم و بیش 300 سال کا فاصلہ ہے لیکن ان کی تعلیمات میں مماثلت بدرجہِ اتم موجود ہے- یہاں پر صرف سلطان العارفینؒ کے اس نظریے کو تعلیماتِ اقبال (اردو کلام) کی روشنی میں دیکھنے کی ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے-

 کلام اقبال میں مکمل طور پر سلطان العارفینؒ کے نظریہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ کی تائید نظرآتی ہے-انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد معرفتِ الٰہی حاصل کرنا ہےاور اسباب کے بجائے مسبب الاسباب کی طرف توجہ کرنا -اسی ضمن میں سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) ارشاد فرماتے ہیں:

’’الدنیا لکم والعقبی لکم والمولی لی‘‘

’’دنیا تمہیں مبارک ہو-عقبیٰ بھی تمہیں مبارک ہو-میرے لیے تو میرا مولیٰ ہی کافی ہے‘‘-

دنیا میں تین طرح کے لوگ ہیں-ایک طالبانِ دنیا، دوسرے طالبانِ عقبی اور تیسرے طالبانِ مولیٰ-

پہلا گروہ جو طالبانِ دنیا کا ہے ان کا مقصود فقط متاعِ دنیا یعنی زر، زمین، زن، اولاد، آباؤ اجداد، عزیز و اقارب، شان و شوکت وغیرہ-بدقسمتی سےآج ہمارا مقصود بھی یہی رہ گیا ہے-انسان دن،رات حصولِ دنیا کی تگ و دو میں سرگرداں نظر آتا ہے-اقبال امت کی اس حالتِ زار کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں لکھتے ہیں:

جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین

انسان حصولِ دنیا کو اپنا مقصود بنا چکا ہے یہاں تک کہ میراث انبیاء یعنی علم کو فروخت کرنے میں لگ گیا-عموماً ہماری دنیوی درس گاہوں میں طلبِ دنیا اور حصولِ دنیا کی تعلیم دی جاتی ہےجبکہ دینی درس گاہوں کا مقصد حصولِ عقبیٰ تک محدود رہ گیا ہے-صوفیائے کاملین اس پہ حیف فرماتے ہیں کہ کہیں پر بھی طلبِ الٰہی کا درس سننے کو نہیں ملتا-

اقبالؒ ہماری اس حالت پر نالاں ہو کر فرماتے ہیں:

شکایت ہے یا رب مجھے خدا وندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

ہم نے حصولِ علم کو حصولِ دنیا کا باعث سمجھ لیا ہے جس کے متعلق اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جَو

ہماری دنیاوی درس گاہیں معاشرے کو تعمیر کے بجائے تخریب کاری کی طرف دھکیل رہی ہیں- جبکہ دینی درس گاہوں میں دنیا سے آگے کی تعلیم تو دی جاتی ہےلیکن ان کا ٹھہراؤ بھی جنت اور حورو قصور پہ ہو جاتاہے - عارفین کے نزدیک یہ بھی طلب خام اور ناقص ہے- بقول عارف لاہوریؒ:

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ)‘‘ ہی مسلمان کی ابتداء اور انتہاء ہے-جب بندہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ کے الہ واحد ہونے کا اقرار کرتا ہے- اگلا مرحلہ تصدیق ہے جس کا تعلق باطن سے ہے-ہماری درسگاہیں فقط اقرار کا درس دے رہی ہیں اور عملی طور پر اس کی تربیت وہاں مفقود ہے- بزبانِ حکیم الامت:

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

تعلیمی اداروں کے بعد ہماری تربیت کا مرکز خانقاہی نظام تھاجہاں ترکِ ماسویٰ اللہ کا درس ملتا تھا- مگرآج ہمارا خانقاہی نظام اس نعمت عظمیٰ سے محروم نظر آتا ہے-یہاں سے بھی حصولِ دنیا و عقبیٰ کا درس ملتا ہے اور رہی سہی کسر کرامات اور مقامات کے حصول کی صورت میں نکل جاتی ہے-اقبالؒ فرماتے ہیں:

وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا

’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ کے نظریے پر عمل نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم قرب الٰہی سے محروم ہوگئے اور محکومی اور غلامی ہمارا مقدر ٹھہری- جبکہ بندۂ مومن کا یہ وصف ہوتاہے کہ وہ مخلوق سے بے نیاز ہوکر اپنا رشتہ بےنیاز ذات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے-اقبالؒ فرماتے ہیں:

خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

اگر ہم قرب و وصال ِ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سلطان العارفین کے نظریہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘کو اپنانا ہو گا اور اللہ کے سوا ہر یاد اور طلب کو اپنے صنم خانہ (دل) سے مٹانا ہوگا- بقول شاعر:

کوئی تو ہو جو سینہ ہستی سے راز فاش کرے
بتوں کو توڑے صنم خانے پاش پاش کرے
خدا نے بھیجا ہے پھر سے پیام اپنے بندوں کو
میں کنزِ مخفی ہوں کوئی مجھے تلاش کرے

ذاتِ حق کی تلاش ہم نے خود اپنے اندر سے کرنی ہے کیونکہ انسان کا دل ذات حق کی جلوہ گاہ ہے-بقول حکیم الامت:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

ہم ذاتِ حق کو اس وقت ہی اپنے دل سے پاسکتے ہیں جب ہمارا دل واحد و لاشریک کی محبت میں اسیر ہو اور دولت ، رشتہ و پیوند اور ایسے تمام  بتوں سے پاک ہو-

یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لا الہ الا اللہ

یہ شعر جس غزل کا ہے یہ غزل علامہ محمد اقبال صاحبؒ نے حضرت سلطان العارفینؒ کی زمین پہ لکھی ہے جو کہ آپ کی کتاب نور الہدیٰ میں ہے-اس غزل کا مغز و حاصل یہی نظریہ ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ ہے-اس لئے اگر اقبال صاحبؒ کی اس غزل کو بغور پڑھیں تو بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس‘‘ -

بندہ ٔمومن کی سرفرازی اسی میں ہے کہ وہ تمام بتوں سے امیدیں ہٹا کر صرف خالقِ حقیقی سے امید رکھے-وہ اسی کے سامنے سجدہ ریز ہو اور اپنی عبادات کو بے لوث اور بے ریا بنائے-

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر

ہماری محتاجی اور محکومی کی وجہ بھی اللہ سے دوری ہے-جب بندہ اپنے خالق و رازق کو پہچان لیتا ہے تو پھر کسی کا محتاج نہیں رہتا-علامہ اقبالؒ بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں کہ:

اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم

ذاتِ الٰہی کے قرب و وصال کے لئے دنیاپرستی  کی سوچ و بچار سے آزاد ہونا پڑتا ہے-حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک دین اور دنیا سگی بہنوں کی طرح ہیں جو بیک وقت ایک نکاح میں نہیں آ سکتیں- اقبالؒ فرماتے ہیں:

یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن، یا بندہ زمانہ

دنیا کی حقیقت کے متعلق اقبالؒ ہمیں درس دیتے ہیں:

امید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی
رَم اس کی طبیعت میں ہے مانندِ غزالہ

انسان کے مادی وجود کا تعلق عالمِ ناسوت سے ہے، اس لیے ارضی پیوستگی اس کے ظاہر کے ساتھ لازم و ملزوم ہے- مگر یہ ضرورت کی حد تک ہو نہ کہ اسے  مقصود بنا لیا جائے- اقبالؒ نے یہ سمجھانے کیلیے ’چیونٹی‘ اور ’عقاب‘ کے درمیان ایک مکالمہ پیش کیا ہے

چیونٹی:

میں پائمال و خوار و پریشان و درد مند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

عقاب:

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
میں نُہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں

آپ ایک اور جگہ پر کہتے ہیں کہ ظاہر میں اسبابِ دنیا سے تیرا تعلق ضروری ہےکہ اس کے لوازمات اسی دنیا سے پورے ہونے ہیں-مگر تو اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے لئے متخص رکھ -

گر چہ تو زندانیِ اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ

قربِ الٰہی انسان کو اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب وہ کسی مرشد کامل سے’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ کا سبق پڑھے اور باطن باصفا ہوجائے-بقول اقبال:

مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تُو
پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھو

 ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس پُرفتن دور میں جانشینِ سلطان الفقرسر پرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی قیادت میں نظریہ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ کا پرچار دنیا کے طول وعرض میں جاری وساری ہے- جو بھی آپ کی اس تحریک میں شامل ہوتا ہے اس کو پہلا درس یہی ملتا ہے-

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر