جب سالک اسمِ ’’ فَقَرْ‘‘ کا تصور کرتاہے تو لایحتا ج ہوجاتاہے اور اُسے دنیا و آخرت کے تمام خزائن پر تصر ف حاصل ہوجاتاہے، وہ جس کام کا ارادہ کرتاہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ کام ہوجاتاہے - یہ تصور اُسے سلطان الفقر کے مرتبے پرپہنچادیتاہے- اُسے جمعیت ِ کل و جز حاصل ہوجاتی ہے اور اُسے مرتبۂ فنا فی اللہ بقا باللہ حاصل ہو جاتا ہے اِس آیت ِکریمہ کے مطابق: ’’وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا‘‘[1] اسمِ ’’فَقَرْ‘‘ یہ ہے-
فَقَرْ
اور جب سالک کلمہ طیب کے تصور میں مشغول ہوتا ہے تو اُس پر جملہ علوم منکشف ہوجاتے ہیں،قرآن مجید سے اسمِ اعظم کو پا لیتا ہے، جملہ انبیاءو اؤلیاءاللہ کی ارواح اُس سے ملاقا ت کرتی ہیں، حقیقت ِماضی حال و مستقبل اُسے معلوم ہوجاتی ہے، پہاڑ سے سنگِ پارس حاصل کر لیتا ہے، تمام جن و انسان اور فرشتے اُس کے فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور اُس کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی- اگر صاحب ِتصورِ کلمہ طیب کا گزر زمین پر سے ہو تو گھا س پھونس اور درخت اُس سے ہم کلام ہوتے ہیں کہ اُن میں ہم کلامی کی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے- اگر وہ مٹی یاپہاڑ پر توجہ کردے اور چاہے کہ یہ سونا بن جائیں تو وہ فوراً سونا بن جاتے ہیں- اگر وہ چاہے کہ آگ یا پانی پیدا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا ہو جاتا ہے- اگر کسی کافر پر توجہ کر دے تو وہ مسلمان ہو جاتاہے- اگر جاہل پر توجہ کر دے تو وہ عالم بن جاتا ہے اور اگر وہ کسی مریض پر توجہ کر دے تو وہ شفایاب ہو جاتا ہے- غرض وہ جو چاہتاہے حاصل کرلیتاہے کہ تمام چیزوں کے حصول کی چابی یہی کلمہ ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے- ذاکر ِقلبی وہ ہے جو اندرونِ قلب ولایت کے سات قلعوں میں داخل ہو کروہاں کے سات خزائن ِالٰہی کو رنج و ریاضت کے بغیر اپنے تصرف میں لے آئے - ایسے ذاکر کو صاحب ِولایت ِقلب کا نام دیا جاتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’ ایمان کا مقام خوف و امید کے درمیان ہے‘‘-پس مقامات تین ہیں-(1) ’’مقامِ خوفِ نفس‘‘ جو شخص مقامِ خوف ِنفس میں داخل ہو جاتاہے وہ گناہوں سے توبہ کرلیتاہے اور پڑھتا ہے ’’رَبَّنَاظَلَمْنَااَنْفُسَنَا‘‘ [2] - (2) مقامِ رجا ، جب کوئی مقامِ رجا میں آجاتاہے تو طاعت و بندگی کی طرف رجوع کر لیتا ہے جس سے اُس کی روح کو حلاوت نصیب ہو تی ہے کہ مقامِ رجا روزِ از ل ہی سے روح کا مقام ہے-(۳) مقامِ قلب ، یہ مقامِ نفس و روح کے درمیان ہے-جب کوئی اِس طرف متوجہ ہوکر مقامِ قلب میں غرق ہوجاتاہے تو اُس کا قالب قلب میں ڈھل جاتاہے، اُس کے ہفت اندام لباسِ نور میں ملبوس ہوجاتے ہیں، مقاماتِ خوف و رجا اُس کے مدِّنظر آجاتے ہیں اور وہ مراتب ِاولیاء اللہ پر پہنچ جاتاہے- (جاری ہے)