زکوۃوعشرکےمسائل و فضائل

زکوۃوعشرکےمسائل و فضائل

زکوٰۃ کی لغوی و اصطلاحی تعریف:

’’زکوٰۃ کے لغوی معانی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں-اس کو زکوٰۃ اس لیے کہا ہے کیونکہ یہ دنیا میں باقی رہ جانے والے مال میں اضافے اورآخرت میں ثواب کے اضافے کا سبب ہے اور اسی طرح ایک قول ہے کہ یہ پاکی سے بھی عبارت ہے کیونکہ یہ اپنے اداکرنے والے کو گناہوں سے پاک کرتی ہے ‘‘-[1]

شرعی اصطلاح میں:

’’زکوٰۃ( شریعت کی جانب سے مقرر کردہ اس مال کو کہتے ہیں) جس سے اپنا نفع ہر طرح سے ختم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے کسی ایسے مسلمان فقیر کی ملکیت میں دے دیا جائے جو نہ تو خود ہاشمی ہو اور نہ ہی کسی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ہو‘‘-[2]

زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرائط:

’’زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیےشرط ہے: عقل، بلوغ، اسلام،حریت،پورے سال ایسے مال کا مالک ہو جو مال قرض اور حوائجِ اصلیہ سے فارغ ہو (مزیدیہ کہ یہ مال) بڑھنے والاہو اگرچہ تقدیرًا ہی کیوں نہ ہو‘‘-[3]

اس سے واضح ہوا کہ ادائیگی زکوٰۃ سے پہلے درج ذیل امور پائے جائیں:

v     زکوٰۃ اداکرنے والا عاقل،بالغ، مسلمان ہو اور آزاد ہو یعنی غلام نہ ہو-

v     نصاب کی مقدار (مال) کا مالک ہو-

v     مال پر سال کا پورا گزر جانا یعنی جس تاریخ کو مالک صاحبِ نصاب بنا ہو اگلے سال کی اس تاریخ کو اس کی صاحبِ نصاب کی حیثیت باقی ہو چاہے درمیان سال اس میں کمی کیوں نہ واقع ہوگئی ہو-

v     یہ مال قرض سے فارغ ہو یعنی اگر مقروض ہے تو قرض ادا کرنے کے بعد باقی مالیت بقدر نصاب یا زائد ہو تو زکوٰۃ فرض ہے-

v     حاجت اصلیہ یعنی رہائشی مکان، سواری، استعمال کی اشیاء (برتن، کپڑے، اوزار اور علماء کرام کی کتب مطالعہ) وغیرہ سے فارغ ہو-

v     مال کا نامی ہونا یعنی مال کا حقیقتاًیا حکماً مقدار اورمالیت میں بڑھنے والا ہونا یعنی مالک چاہے توا پنے مال میں اضافہ کر سکے-

نصاب کی وضاحت:

بنیادی طور پرتین قسم کی مال پہ زکوٰۃ ہے :

  1. ثمن یعنی سونا،چاندی
  2. مال تجارت
  3. سائمہ جانور(سائمہ وہ جانور ہے جو سال کے اکثر حصہ میں چر کر گزرکرتا ہو)

سب کی مختصر وضاحت کچھ یوں ہے:چاندی[4] کا نصاب 52.5 تولہ ہے، سونے کا نصاب 7.5 تولہ ہے نیز مال تجارت چاہے کچھ بھی ہو، اس کا نصاب یہ ہے کہ اس کی قیمت 52.5 تولہ چاندی کے برابر ہو جائے- جہاں تک جانوروں کے نصاب کاتعلق ہے تو اونٹ کا نصاب 5 (یعنی 5سے 9اونٹ پہ 1سالہ بکری یا بکرافرض)، گائے اوربھینس کا نصاب 30 (30 سے 39 گائے، بھینسوں پہ 1سالہ بچھڑی یابچھڑا)اور بکری کا نصاب 40(یعنی 40 سے 119 بکریوں تک 1 سالہ بکری یا بکرافرض ہے(یہاں انتہائی اختصار کیاگیاہے تفصیل کے لیے فتاوٰی جات سے رجوع فرمائیں)

نوٹ: گھوڑے گدھے اور خچر کی زکوٰۃ دینا واجب نہیں ہے اگرچہ سائمہ ہوں، ہاں ! اگر تجارت کیلئے ہوں تو واجب ہے -[5]

درختوں کی زکوٰۃ:

بدائع الصنائع، فتاوٰی ہندیہ، فتاوٰی عالمگیری میں درختوں کی زکوٰۃ کے بارے میں مذکورہ احکامات کاخلاصہ درج ذیل ہے:

’’زمین کی اس پیداوار میں عشر واجب ہوتا ہے جس کو آمدنی اور پیدوار سے نفع کی غرض سے کاشت کیا جائے-لہٰذا زرعی زمین میں خود رو درخت جو بغیر قصد کے حاصل ہوئے ہیں ان میں عشر لازم نہیں ہوگا- بلکہ اگر ان درختوں  کو فروخت کیاجائے اور ان سے حاصل شدہ آمدن دیگر قابلِ زکوٰۃ اموال کے ساتھ مل کر زکوٰۃ کے نصاب کے مقدار کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ کی شرائط کے مطابق سال پورا ہونے پر اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی-البتہ اگر کسی علاقے میں خود رو درختوں یا خود کاشت کردہ درختوں کی آبیاری اور نگہداشت اسی مقصد سے ہوتی ہوکہ ان کو کا ٹ کر فروخت کیا جائے اور ان سے کمائی مقصود ہو تو ایسی صورت میں ان سب درختوں میں بھی عشر واجب ہوگا-نیز مملوکہ زمین سے حاصل شدہ شہد میں بھی عشر لازم ہے‘‘ -

زکوٰۃ کی فرضیت واہمیت:

زکوٰۃ 2ھ میں روزوں سے پہلے فرض ہو ئی، زکوٰۃکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں کم وبیش 32مقامات پہ صراحتاً نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو ذکر فرمایا ہے -اختصارکی خاطر یہاں صرف ایک مقام کو زیب ِ قرطاس کی سعی سعید کرتے ہیں جس میں اللہ پاک نے اپنی بندگی اور اپنے محبوب کریم (ﷺ) کی اطاعت کے ساتھ ادائیگیٔ زکوٰ ۃ کابھی حکم ارشادفرمایا:

’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘[6]

’’اور نماز برپا رکھو اور زکوٰۃ دو اور رسول اللہ (ﷺ) کی فرمانبرداری کرو اس اُمید پر کہ تم پر رحم ہو‘‘-

ادائیگی زکوٰۃ پچھلی امتوں پہ بھی فرض تھی جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ماں کی گود میں ارشادفرمایا:

’’وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ ص وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا‘‘[7]

’’اور اللہ عزوجل نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں‘‘-

اس کی اہمیت کااندازہ درج ذیل روایات مبارکہ سے بھی لگایا جاسکتاہے :

1- سید ی رسول اﷲ (ﷺ) نے زکوٰۃ کو اسلام کا ایک ستون قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘‘[8]

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے- گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج (عمر میں ایک بار) کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘-

2-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے،میں اُس کیلئے جنت کا ضامن ہوں- میں نے عرض کی: یارسول اﷲ (ﷺ)! وہ کیا ہیں؟ فرمایا: نماز، زکوٰۃ، امانت، شرمگاہ، پیٹ اور زبان‘‘- [9]

3-اللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی یہ شان بیان فرمائی ہے کہ اگر ان کو زمین پہ اقتدار ملے تو جن کاموں کی طرف وہ توجہ دیں گے ان میں سے ایک زکوٰۃ وعشرکی وصولی بھی ہوگی-جیساکہ فرمان ِ حق تعالیٰ ہے:

’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُورِ‘‘[10]

’’وہ لوگ کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں ‘‘-

اس لیے آقا کریم (ﷺ) اور خلفائے راشدین (رضی اللہ عنھم) نے اپنے ادوار مبارکہ میں دیگر احکام ِ اسلام کے ساتھ زکوٰۃ کا نفاذ بھی فرمایا اور جب سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کےدور مبارک میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینےسے انکار کیا تو آپؓ نے ان سے جہاد فرمایا- جیساکہ بخاری شریف میں رقم ہے کہ:

’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ(ﷺ) کا وصال مبارک ہو گیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)مسندِ خلافت پہ جلوہ افروز ہوئے اور عرب میں سے جس نے کفر کرنا تھا اس نے کفرکیا(یعنی زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے کہا:آپ لوگوں سے کس طرح قتال کریں گے حالانکہ رسول اللہ (ﷺ) نے یہ ارشاد فرمایا ہے : ’’مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتی کہ وہ کہیں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ -پس جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا،اس نےمجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کومحفوظ کر لیا سوائے اس کے جو ا س پراسلام کاحق ہو اوراس کا حساب اللہ عزوجل کے ذمہ کرم پہ ہے‘‘- (یعنی حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ) کا مؤقف تھاکہ یہ لوگ تو ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا؟) (یہ سن کر) حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم !مَیں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا،جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہےاور اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے (واجب الاداء)ایک بکری کے بچے کو بھی دینے سے انکار کیا جس کو وہ رسول اللہ(ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں پیش کرتے تھے تو مَیں ان سے اس کو نہ دینے کی وجہ سے جنگ کروں گا- حضرت سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا :اللہ کی قسم! یہ وہی چیز تھی جس کیلیے اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے سینہ(مبارک)کو کھول دیا ہے-پس میں نے بھی پہچان لیا کہ یہی حق ہے‘‘-[11]

ترکِ فریضۂ زکوٰۃ پہ وعیدیں:

1-’’الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ‘‘[12]

’’وہ جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں‘‘-

فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:

’’زکوٰۃ فرض ہے، اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے‘‘- [13]

2- سورہ التوبہ میں حکمِ باری تعالیٰ ہے :

’’وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ؁ یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْطهٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ‘‘ [14]

’’اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خبر سناؤ درد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جوڑنے کا‘‘-

یاد رہے اس آیت مبارک میں’یَكْنِزُوْنَ اور تَكْنِزُوْنَ‘ کے الفاظ ’’کنز‘‘ سے ہیں جن کے بارےمفسرین کرام نے لکھا ہے جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی جائے تو وہ ایسے (کنز ) میں نہیں آئے گا جس پہ عذاب کی وعید ہے- جیسا کہ علامہ بدر الدین عینیؒ فرماتے ہیں:

’’مَا اُدِّيَ زَكَاتُهٗ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ‘‘[15]

’’پس جس مال کی زکوٰۃ اداکردی جائے تو مال کنز نہیں‘‘-

3- امام طبرانی ؒ، حضرت عبد اﷲ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں:

’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے پس جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی‘‘[16]

4- حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جب لوگ ز کوٰۃ کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک آسمان سے بارش کو روک دیتا ہےاور اگر زمین پر چوپا ئے موجود نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا‘‘-[17]

5-حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’زکوٰۃ نہ ینے والا قیامت کے دن دوزخ میں جائے گا‘‘-[18]

عشر کی تعریف وتوضیح:

عُشر کا لغوی مطلب ہے دسواں حصہ- دینی اصطلاح میں یہ زمینی پیداوار کی زکوٰۃ ہے- اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ‘‘[19]

’’اور اس (فصل ) کی کٹائی کے دن اس کا حق دو ‘‘-

حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) ارشاد فرماتے ہیں :

’’یہ(فصلوں کی کٹائی کا حق) فرض کیا گیاہے جو عشر یا نصف عشر کی صورت میں ہوتا ہے ‘‘-[20]

امام بخاریؒ نے روایت کیا کہ آقا کریم (ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشادفرمایا:

’’فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ‘‘[21]

’’جو زمین بارش یاچشموں سے سیراب ہو یا دریائی پانی سے سیراب ہو، اس پرعشر10/1ہے اور جس زمین کو کنوئیں کے پانی سے اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر20/1ہے‘‘-

فقہاءکرام کی تصریحات کے مطابق:

جو زمین بارش یا قدرتی ذرائع سے سیراب ہوتی ہو تو اس سے پورا عشر یعنی پیداوار کا 10فیصد وصول کیا جائے گا-اس کے برعکس جس زمین کی آبپاشی مصنوعی طریقہ پر ہو اور اس کے لیے کاشتکار کو اخراجات دینا پڑیں تو اس پر نصف عشر یعنی پیداوار کا 5 فیصد وصول کیا جائے گا-

سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک زمین سے جو پیداوار اُگے چاہے وہ غلہ (گندم(بھوسے کے علاوہ)، گنا، چاول وغیرہ) ہو چاہے پھل (آم، مالٹا، سیب وغیرہ) یا سبزیاں (گوبھی،آلو، گاجر وغیرہ) ہوں ،تھوڑی ہو یا زیادہ) اس میں عشرہے-

مسئلہ :اگر مالک ٹھیکے پردے یعنی فی ایکڑ بیس ہزار تو عشر زمین ٹھیکے پر زمین لینے والے پر واجب ہے نہ کہ مالک پر؛ اور اگرزمین مزارعت یعنی حصہ پر دی ہو تو زمین کی پیدوار کا عشر مالک اورمزارع دونوں پر بقدر حصہ واجب ہے- یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ عشر اخراجات نکالنے کے بعد ادا نہیں کیا جائے گا بلکہ کل پیداوار پر اخراجات نکالے بغیر عشر کی ادائیگی لازم ہے-نیز سرکاری ٹیکس وغیر ہ ادا کرنے سے عشر ادا نہیں ہوتا-

یادرہے! عشر بھی زکوٰۃ کی طرح ہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ زکوٰۃ مال کی اورعُشر زمینی پیداوار کا ہے-البتہ فقہی کتابوں کی روشنی میں عشر اور زکوٰۃ میں درج ذیل چند باتوں کا فرق ہے:

v     زکوٰۃ کی ادائیگی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جبکہ عشر کے واجب ہونے میں عقل و بلوغ شرط نہیں،اس لیے پاگل یا نابالغ کی طرف سے ان کے سرپرست عشر ادا کریں گے-

v     زکوٰۃ کے واجب ہونے کیلیے مخصوص نصاب متعین ہے اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جبکہ عشر کے واجب ہونے کے لیے نصاب متعین نہیں بلکہ پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عشر واجب ہوتا ہے-

v     زکوٰۃ کی ادائیگی کیلیے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جبکہ عشر میں سال گزرنا ضروری نہیں- بلکہ اگر دو مرتبہ فصل ہوتی ہے تو ہر مرتبہ عشر ادا کرنا ضروری ہے نیز امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مطابق مویشیوں کے چارے پر بھی عشر واجب ہے-

v     مقروض آدمی قرض نکالنے کے بعد اگر صاحب نصاب ہو تو اس پہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جبکہ عشر میں ایسا نہیں یعنی اگر کسی نے عشر ادا کرنا ہو تو اس کا قرض وغیرہ عشر سے نہیں نکالا جاتا-

v     ایسی چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، مثلاً کسی کے پاس سونا یا چاندی وغیرہ موجود ہو تو جب تک یہ سونا یا چاندی وغیرہ موجود رہے گی ہر سال ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی- جبکہ عشر میں ایسا نہیں بلکہ اگرایک مرتبہ عشر ادا کر دیا ،اس کے بعد وہ جنس غلہ وغیرہ اگرچہ کئی سال تک بھی اس کے پاس باقی رہےتو ہر سال اس کا عشر نہیں نکالا جائے گا-

مصارفِ زکوٰۃ و عشر و صدقات واجبہ:

عشر و زکوٰۃ دونوں صدقات واجبہ ہیں دونوں کے مصارف ایک جیسے ہیں ان کے بارے میں اللہ رب العزت نے اپنی لاریب کتاب میں ارشادفرمایا:

’’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ ط وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ‘‘[22]

’’ زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لئے ہے،محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھوڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کااور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘-

مصارف کی تفصیل:

فقراء: فقیر کی جمع ہے، فقیر (محتاج) وہ ہے جو حاجت اصلیہ (گھر، سواری، لباس، استعمال کے برتن و بستر اور اوزارِ پیشہ) کے علاوہ نصاب(52.5 تولے چاندی ) کا مالک نہ ہو-

مساکین: مسکین کی جمع ہے- یعنی وہ نادار جس کے پاس دوسرے وقت کے کھانے کی طاقت بھی نہ ہو-

عاملین: جو حکومت کی طرف سے زکوٰۃ اکٹھی کرنے پر مقرر ہوں-

مؤلفہ قلوب: جن کے دلوں کو اسلام یا مسلمانوں سے الفت دینا ہو(سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کے دور مبارک میں غلبہ اسلام ہونے کے بعد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے ا س بات پہ اجماع فرمایا کہ اب زکوٰۃ اس مصرف کی بجائے دیگر مصارف میں خرچ کی جائے )

رقاب: سے مراد غلام اور باندیاں ہیں جن کو مالک نے مکاتب بنادیا ہو یعنی ان سے طے پایا ہو کہ اتنی رقم لاؤ تو تم آزاد ہو-(فقہاءکرام کے مطابق اب اس دور میں غلام نہیں ہیں )

غار مین: وہ مقروض جس نے گناہ کیلئے قرضہ نہیں لیا-

فی سبیل اللہ سے مراد مجاہدین، ضرورت مند علماء دین، طلباء علم دین اور نادار حاجی ہیں-

مسافر: جسے سفر میں خوراک، رہائش، دوائی، کرایہ وغیرہ کی ضرورت پڑ جائے اور اس وقت حالت سفر میں اس کے پاس مال کی قدرت نہ ہو-

صدقات واجبہ اور نفلیہ میں بہت زیادہ فرق ہے، لیکن آج لمحہ فکریہ ہے کہ صدقات واجبہ اور نفلیہ میں فرق نہیں کیا جاتا ہے اور ان کے کماحقہ مصارف کا خیال نہیں رکھا جاتا-حالانکہ نفلی صدقہ جہاں چاہیں(منہیات شرعیہ کے علاوہ) خرچ کر سکتے ہیں جبکہ فرض یا واجبی صدقہ مذکورہ بالا مصارف کے علاوہ کہیں خرچ نہیں کرسکتے-زکوٰۃ وعشر یا صدقات و واجبہ درج ذیل مقامات پہ خرچ نہیں کر سکتے:

’’سادات (اولادِ خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ الزہراء(رضی اللہ عنہا) یا دیگر بنو ہاشم)، مسجد کی تعمیر، ویلفئیر کے کام (جیسے سڑک، قبرستان، ہسپتال کی عمارت، مدرسہ کی عمارت، سکول کی عمارت)،  اپنے باپ دادا، اپنی ماں، اپنی اولاد یا اولاد کی اولاد، اپنی بیوی اور اپنے شوہر پر واجبی صدقہ خرچ کرنے سے صدقہ ادا نہیں ہوگا لیکن تحائف یانفلی صدقہ پیش کرسکتاہے - البتہ بہن بھائی اگر مستحق ہوں تو ان پر عشرو زکوٰۃ وغیرہ خرچ کرنا نا صرف جائز بلکہ مستحب ہے-نیزحرام کمائی سے زکوٰۃ و عشر ادا نہیں ہوتے‘‘-

زکوٰۃ کی تفسیر صوفیانہ :

جس طرح ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اورایک باطن-جدید اصطلاح میں اس کوہارڈوئیر( hardware)اورسوفٹ وئیر (software) سے موسوم کیا جائے گا-خود اسلام مجموعہ ہے ’’اقرار باللسان اورتصدیق بالقلب‘‘ کا -زبانی اقرار کا تعلق انسان کے ظاہرسے اورتصدیق کا تعلق انسان کے باطن سے ہے- بندہ مومن کو ظاہر و باطن دونوں تقاضے پورے کرنا لازم ہیں-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ‘‘[23]

’’اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو‘‘-

باطن کی جانب متوجہ کرتے ہوئے آقا کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ‘‘[24]

’’بے شک اللہ عزوجل تمہارے اجسام اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘-

اس لیے ہرصوفی نے جہاں اسلام کےظاہری احکام کی ترویج کی وہاں اس کے باطنی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا -جیساکہ محبوبِ سبحانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے زکوٰۃ کے باطنی پہلو پہ روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’زکوٰۃ طریقت یہ ہے کہ انسان جوکمائی آخرت کے لئے کرے اسے آخرت کے فقرائے دین اورمساکین میں تقسیم کر دے- حضرت رابعہ عدویہؒ  نے فرمایا: الٰہی! دنیا میں میراحصہ کافروں کو دے دے اورعقبیٰ میں میراحصہ مومنین کو دے دے ،میں دنیا میں تیرے ذکر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتی اورآخرت میں فقط تیرے دیدار کی طالب ہوں-

مزیدارشادفرمایا:زکوٰۃ کے معانی یہ بھی ہیں کہ قلب کوصفاتِ نفسانیہ سے پاک کر لیا جائے ‘‘-[25]

حرفِ آخر:

اسلام دین فطرت ہے،ہر سلیم الفطرت شخص تھوڑا سا غور کر کے بھی بآسانی اس نتیجہ پہ پہنچ سکتاہے کہ اسلام کا ہر
حکم اپنے اندر لامتناہی حکمتیں اور فوائد کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے - زکوٰۃ و عشر کے مسائل پر غور اور احکامِ الہیہ پہ اگر بسر و چشم عمل کرلیا جائے توا س کے نتیجے میں نہ صرف گردشِ دولت کاعمل ہوگا بلکہ معاشرہ ذخیرہ اندوزی کی لعنت کے خاتمہ سے بھی پاک ہوگا اور حاجت مندوں کی حاجتیں اپنے گھرکی دہلیز پہ پوری ہوں گی-

لیکن افسوس! ہم شرعی احکام کا باریک بینی سے مطالعہ یا روزمرہ پیش آمدہ مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کو اپنا فرض ِ منصبی نہیں سمجھتے-ہم شاید یہ ناقص گمان رکھتے ہیں کہ یہ صرف خاص طبقہ کی ذمہ داری ہے- بلاشبہ دین میں گہرائی و اجتہاد ایک خاص طبقہ(علماء و مجتہدین) کی ذمہ داری ضرور ہے لیکن دین کی مبادیات، حرام و حلال اور روزمرہ پیش آمدہ مسائل شریعت مطہر ہ کی روشنی میں حل طلب کرنا ہم سب کی بھی انفرادی ذمہ داری ہے- وگرنہ یاد رہے!جہالت کوئی عذر نہیں، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں- مثلاً کسی شخص کو کو ئی دھوکے سے شراب پکڑا دے یا اصلی کرنسی کی بجائے نقلی تھما دے اور راستے میں اس کو پولیس گرفتار کر لے تووہ کہےکہ مجھے علم نہیں تھا؛ تو اصولاً پولیس والے اس کے عذر کو قبول نہ کرنے کا حق رکھتے ہیں -اس لیے نہایت ضروری ہے کی دین کے بنیادی احکاما ت سے شناسی کو اپنے اوپر لازم کیا جائے-

اللہ پاک ہم سب کو احکام دین کے ظاہر و باطنی اسرار و رموز سے اپنے باطن کو منور کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین!

٭٭٭


[1](المبسوط للسرخسیؒ،كِتَابُ الزَّكَاةِ)

[2]( البحر الرائق شرح كنز الدقائق،كِتَابُ الزَّكَاةِ)

[3](تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق،کتاب الزکاۃ)

[4](چاندی کومقدم اس لیے رکھا کیونکہ اس میں ہی غریب کا فائدہ ہے)

[5]( نمونہ نشت و کرسی)

[6](النور:56)

[7](مریم:31)

[8](صحيح بخاری، کتاب الایمان)

[9]( المعجم الأوسط للطبرانیؒ:رقم الحدیث: 4925)

[10](الحج:41)

[11](صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ)

[12]( حم السجدۃ:07)

[13]( فتاوٰی ہندیہ ،کتاب الزکاۃ)

[14](التوبہ:34-35)

[15]( عمدة القاری شرح صحيح البخاری،کتاب الزکاۃ)

[16](المعجم الكبير للطبرانیؒ، باب عن ابن مسعودؓ)

[17]( سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن)

[18]( المعجم الصغیر للطبرانیؒ،بابَابُ الْمِيمِ)

[19]( الانعام:141)

[20]( تفسیر بغوی، زیرِآیت:الانعام:141)

[21]( صحیح البخاری ، كِتَابُ الزَّكَاةِ،)

[22]( التوبہ:60)

[23]( الانعام:120)

[24]( صحیح مسلم، كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ)

[25](سرالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار، فصل:زکوٰۃُ شریعت اورزکٰوۃِ طریقت کے بارے میں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر