بدقسمتی سے پاکستان کو اپنے مشرق میں ایک ایسے ہمسایہ سے پالا پڑا ہے جس نے اپنے اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا نظریات کی وجہ سے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا -نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کا بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی یہی رویہ ہے-
اگر ہم مغل سلطنت کے خاتمہ سے لے کر تقسیم ہند تک دیکھیں تو ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کے پُرتشدد نظریات کی بدولت متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا گیا تھا اور مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ اور مظالم ڈھائے گئے- مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کی بدولت آنے والے حالات و واقعات کو بھانپ لیا گیا تھا اس لئےمسلمانان برصغیر پاک و ہند نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا -
مگر وقت کا انتقام بہت سخت ہوتا ہے ، تاریخ کے آئینے میں سچ دکھتا ہے، پاکستان کے خلاف سازشیں رچانے والا بھارت آج کیسے بے نقاب ہوا ہے شاید شیشہ بازانِ بھارت نے ایسا سوچا بھی نہ تھا-بھارتی نام نہاد دانشور حیرت میں ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انڈیا کا مکروہ چہرہ کیسے بدنام ہوا ہے جو کہ اپنے مذموم توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کرتا آ رہا ہے بلکہ اپنے ہی ملک میں ’’ہندوتوا‘‘ کو پروان چڑھانے کیلئے اقلیتوں پر مظالم ڈھا رہا ہے-
فالس فلیگ آپریشن اور گوسوامی لیکس:
فالس فلیگ آپریشن ( False Flag Operation) کو جنگی حکمت عملی ( War Strategy) کے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ایک ملک اپنی ہی ایجنسیوں کے ذریعہ اپنی سر زمین یا عوام پر دہشت گردانہ کاروائی کر کے دوسرے ملک پر الزام عائد کرتا ہے تا کہ اس حملے کو بنیاد بنا کر دوسرے ملک کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اپنائی جا سکے-
جس کی تازہ مثال جب 14 فروری 2019ء کو مودی سرکار نے ایک فالس فلیگ آپریشن کے تحت مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی 40 فوجی قتل کروا دئیے اور فوراً بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کر دیا اور جوابی کاروائی کے لئے نام نہاد سرجیکل سٹرائیک ( Surgical Strike) کی دھمکی دے ڈالی- بھارت نے 26 فروری 2019ء کو زمینی حقائق کے برعکس پاکستانی علاقے بالا کوٹ پر ایک جھوٹے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا اور بھارتی فضائیہ نے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ورزی کی- 27 فروری 2019ء کو پاکستان نے بھرپور جوابی کاروائی کی اور بھارتی فضائیہ کے دو طیارے مار گرائے جس کے نتیجے میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن گرفتار ہوا(ان دنوں ایک اور پاکستان دشمن ملک کے پائیلٹ کے بھی گرائے جانے کی اطلاع گردش میں رہی ، واللہ اعلم) -
بھارت کے رچائے ہوئے اس سارے ڈرامے میں ہمیشہ کی طرح پاکستان سرخرو ہوا اور پوری دنیا نے پاکستان کی جیت پر تصدیق کی مہر ثبت کی-
بھارت کے اس سارے فالس فلیگ آپریشن کا جھوٹ اس وقت بے نقاب ہوا جب بھارتی نیوز چینل ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹران چیف ارنب گوسوامی (جو صحافتی اصولوں سے نابلد اور پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کا ایک اہم آلہ کار ہے) کی بھارت کے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کے ادارے BARC کے CEO پرتھوداس گپتا کے ساتھ کی گئی وٹس ایپ چیٹنگ لیک ہوئیں-
ان لیک چیٹنگ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ارنب گوسوامی کو بھارت کے بالاکوٹ کے اوپر نام نہاد انڈین سرجیکل سٹرائیک کی پیشگی اطلاع تھی- گوسوامی یہ بھی انکشاف کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیر میں بھی کچھ بڑا ہونے والا ہے جس کا اشارہ بھارتی حکومت کا غیر قانونی اقدام مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا تھا -
ان لیک ہونے والی وٹس ایپ چیٹنگ سے ایک بات واضح ہوتی ہے پاکستان مخالف پروپیگنڈا پھیلانے کے مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کا ایک گٹھ جوڑ بنا ہوا ہے- وزیراعظم پاکستان عمران خان بھارتی حکومت اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کو پہلے بھی بے نقاب کر چکے ہیں-جیسا کہ2019ء میں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ سفاک مودی سرکار نے بالاکوٹ بحران کو کیسے اپنی انتخابی فتح کیلئے استعمال کیا-
پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے ہمیشہ بھارت کے اس ڈرامے کو بے نقاب کیا ہے اور پوری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کراوئی ہے کہ بھارت کے ان اقدامات کی وجہ سے ناصرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے- وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اپنے بیان میں عالمی برادری کی مسلسل توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ :
’’میں اقومِ عالم پر بالکل واضح کردوں کہ اگر بھارت نے پاکستان کیخلاف کسی جعلی حملے (فالس فلیگ آپریشن) جیسی حماقت کی جسارت کی تو اسے پاکستانی قوم کے عزمِ آہن کا سامنا ہوگا اور اسے اس کی حماقت کا ہر سطح پر مناسب جواب دیا جائے گا ‘‘-
ای یو - ڈس انفولیب رپورٹ:
ای یو ڈس انفولیب ( EU Disinfo Lab) یورپی یونین میں فیک نیوز (Fake News) اور ڈس انفارمیشن (Disinformation) کو پھیلانے سے روکنے اور اس کے متعلق عوام میں شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے یورپ میں قائم ایک اداراہ ہے-اس ادارے نے 9 دسمبر 2020ء کو انڈین کرونیکلز (Indian Coronicles) کے نام سے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق بھارت پچھلے 15 برسوں یعنی 2005ء سے 750 جعلی اور فیک ویب سائٹس اور 10 سے زیادہ جعلی این-جی-اوز کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر ایک وسیع عالمی ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا پھیلا رہا تھا جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا تھا اور بھارتی مفادات کو فائدہ پہنچانا تھا-[1]
اس نیٹ ورک کے ذریعے بھارت مختلف حربے اور چالیں استعمال کر کے پاکستان کوعالمی سطح پر تنہا کرنے اور اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کیلیے ایک کثیر رقم خرچ کر رہا تھا- گزشتہ سال پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے ایک ڈوزئیر بھی رکھا تھا جس میں ناقابل تردید ثبوت موجود تھے بھارت ریاستی سطح پر پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کروانے میں ملوث اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا آ رہا ہے-
کسانوں پر مظالم اور لال قلعہ پر خالصتان کا پرچم:
بھارت کی غذائی ضروریات اور زراعت کا دوسرے علاقوں کے علاوہ بڑی حد تک دارومدار پنجاب اور ہریانہ پر بھی ہے- بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے بھارتی کسان پنجاب، ہریانہ، بنگال، جنوبی اور مغربی انڈیا میں کئی سالوں سے اپنے حقوق کیلیے احتجاج کرتے چلےآ رہے ہیں- حال ہی میں بھارت کی فاشٹ مودی سرکار نے کسانوں کیلئے تین نئے قوانین (دی فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیلیسیٹیشن) 2020ء، ’’فارمرز اگریمنٹ آن پرائز انشورنس‘‘ اینڈ فارم سروس ایکٹ 2020ء (ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) اور اسسینشیل کموڈیٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ 2020ء متعارف کروائے ہیں-
ان قوانین سے کسان تنظیموں کو شدید تحفظات لاحق ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت بھارتی حکومت نے فصل کی فروخت کیلئے منڈیوں کو ختم کر کے کسانوں کو نجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے ان کا با آسانی استحصال کیا جائے گا- کسانوں کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ان قوانین سے ان کو پیداوار کی کم قیمت ملے گی اور لاگت بھی نہیں نکلے گی-
بھارت کے ہر کونے سے ان قوانین کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ مودی سرکار ٹَس سے مَس نہ ہوئی- آخرکار کسانوں نے دہلی میں ان قوانین کے خلاف دھرنا دینے کا فیصلہ کیا اور بھارت بھر سے پچھلے تین مہینوں سے کسان دہلی میں جمع ہیں- اقلیتوں پر مظالم ڈھانے والا بھارت ہر سال 26 جنوری کو نام نہاد ’’یوم جمہوریہ‘‘ مناتا ہے - اس سال 26 جنوری کو کسانوں نے ’’ٹریکٹر ریلی‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا- بھارتی کسانوں نے اس ریلی کو ’’ ٹریکٹر پریڈ‘‘ کا نام دیا-[2]
26 جنوری کو پورے بھارت سے کسان دہلی میں جمع ہوئے جن پرجگہ جگہ بھارتی فورسز لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے شیلنگ کرتی رہی- اسی اثناء میں کسان تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اپنا مارچ لال قلعہ تک لے گئے- جہاں پر سکھ کسانوں نے لال قلعہ پر بھارتی ترنگا ہٹا کر سکھوں کی بھارت سے علیحدگی کی تحریک خالصتان کا پرچم لہرا دیا جو کہ دنیا کو واضح پیغام تھا کہ سکھ بھارت کا حصہ نہیں ہیں -
26 جنوری کو ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے عالمی میڈیا خصوصاً امریکی ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی حالیہ تحریک بغاوت کی شکل اختیار کر کے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے-[3]
بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ اس پورے واقعے سےعالمی سطح پر بھارت کو بد نامی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا- یونائیٹڈ نیشن ہومین رائیٹس نے بھی بھارتی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاری کسانوں کے احتجاج میں زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں-
اقلیتوں کے حقوق کی پامالی:
دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت میں اقلیتوں کےساتھ ظلم و ستم کوروا رکھنا ایک ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پوری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے اور بھارت کا فاشٹ اور ہندوتوا سوچ کی وجہ سے اس کا مکروہ اور بھیانک چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے-
معروف عالمی جریدہ فارن پالیسی میگزین کے مطابق بھارت میں صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سکھوں، بدھ مت، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں حتیٰ کہ دلت اور شودر کمیونٹی کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے- بھارت میں مسلمانوں کو بد ترین تعصب کا سامنا ہے جس کی تازہ اور واضح مثال تعصب پر مبنی مودی سرکار کی جانب سے لائے شہریت کے دو بلز این سی آر اور سی اے اے ہیں-[4]
ان قوانین کے خلاف ایک شدید عوامی ردعمل پیدا ہوا اور ایک طویل عرصے تک دہلی کے شاہین باغ میں مسلمان مرد اور خواتین کا دھرنا جاری رہا- ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی سوچ رکھنے والی مودی سرکار اور RSS کے بنائے جانے والے یہ قوانین بھارت کے آئین سے بھی متصادم ہیں- ان قوانین کا مقصد اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو بھارت سے باہر نکالنا ہے تاکہ بھارت کو ہندوتوا کے تحت ایک ہندو ریاست بنایا جا سکے کیونکہ بھارت میں سوائے ہندو ہونے کے اور کچھ بھی ہونا جرم بن چکا ہے-
آج بھارت میں درجنوں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں 30سے 35 فیصد رقبے پر حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے- اس کی ایک وجہ تو بھارتی سرکار کے مظالم ہیں بلکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کبھی ایک ملک کی شکل میں نہیں رہا بلکہ یہ ایک ریجن (Region) ہے جہاں مختلف قومیں آباد رہی ہیں اور ہیں- حتی کہ تقسیم ہند کے وقت بھی یہ خطہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا-قابض برطانوی راج کے بعد انڈین نیشنل ازم کے نام پر ایک نئی امپیریل قوت نے زبردستی، دھونس، فراڈ اور طاقت کے استعمال کے ذریعے قبضہ کر لیا-
بھارت کی بیرونی محاذ آرائیوں اور اندورنی طور پر عدم استحکام اور درجنوں آزادی کی شورشیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اس خطہ کا امن مصنوعی اور زبردستی الحاق سے نہیں بلکہ ہندوستان میں بسنے والی ہر قوم کو آزادی اور خود مختاری دینے سے وابستہ ہے-
٭٭٭
[1]https://www.disinfo.eu/publications/indian-chronicles-deep-dive-into-a-15-year-operation-targeting-the-eu-and-un-to-serve-indian-interests/
[2]https://www.aljazeera.com/gallery/2021/1/26/in-pictures-indian-farmers-protest-on-republic-day
[3]https://apnews.com/article/india-farmer-protest-654ef151a8af6de8c264c29363d0607b
[4]https://foreignpolicy.com/2020/12/18/one-year-mass-caa-protests-india-muslims-citizenship-amendment-act-modi/