جمہوریہ آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جو کہ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ بحیرۂ کیسپین Caspian) Sea) کے ایک کنارے پر واقع ہے-اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران، شمال مغرب میں جارجیا اور مغرب میں آرمینیا اور ترکی موجود ہیں-
آذربائیجان دنیا کی تہذیب کے سب سے قدیم مراکز میں سے ایک ہے- غارِ آزوخ، تغلر، دمجلی ، دش سلاہلے، گزما اور دیگر آبادکاری والے مقامات میں دریافت شدہ دریافتیں لاکھوں سال پرانی آباد کاری کی نشاندھی کرتی ہیں-
قفقاز خطے (ماضی میں کئی سلطنتیں اس خطے پر حکمرانی کر چکی ہیں) میں واقع ہونے کی وجہ سے آذربائیجان کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے- آج کا موجودہ آذربائیجان کا علاقہ کئی سلطنتوں کے زیر کنٹرول رہا ہے-
جن میں مانا (Manna)، ایٹروپاٹینا (Atropatena) اور البانیہ کی ریاستیں شامل تھیں-
تیسری صدی میں آذربائیجان پر Sassanid Empire نے حملہ کیا تھا اور ساتویں صدی میں آذربائیجان خلافت کے زیر کنٹرول آ گیا-
آذربایئجان کی آزادی:
آذربائیجان نے پہلی جنگ عظیم کے بعد مئی 1918ء میں اپنی آزادی کا اعلان کردیا لیکن دو سال کے بعد روسیوں کے قبضے کے بعد آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین کا حصہ بن گیا جو کہ 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا- جب سرد جنگ ( Cold War) کا خاتمہ ہوا تو آذربائیجان نے 18 اکتوبر 1991ء کو سوویت قبضے سے آزادی کا اعلان کر دیا-
آذربائیجان کی عوام کے قومی رہنما حیدر علیوف ہیں -مئی سے جون 1993ء میں جب آذربائیجان خانہ جنگی کی راہ پر گامزن تھا اور اسے آزادی ہارنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا تو آذربائیجان کی عوام نے مطالبہ کیا کہ حیدر علیوف کو اقتدار سونپا جائے- یوں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور خانہ جنگی رکوانے میں اہم کردار ادا کیا-
حیدر علیوف نے 21 نومبر 1992ء کو نیو آذربائیجان پارٹی کی بنیاد رکھی- 3 اکتوبر 1993ء کو ہونے والے ملک گیر ووٹنگ کے نتیجے میں حیدر علیوف جمہوریہ آذربائیجان کے تیسرے صدر منتخب ہوئے اور 2003ء تک اس عہدے پر براجمان رہے- اس پارٹی الہام علیوف آذربائیجان کی صدارت پر براجمان ہیں ان کی قیادت میں حال ہی میں آذربائیجان نے آرمینیا سے جنگ جیت کر اپنے مقبوضہ علاقوں کا قبضہ چھڑایا ہے-
آذربائیجان میں اسلام کی آمد:
آذربائیجان کی مجموعی آبادی کا تقریباً 96 فیصد حصہ مسلمان ہیں-آذربائیجان میں عربوں کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں دین اسلام کی آمد ہوئی ساتویں صدی میں آذربائیجان میں اسلام کی آمد یہاں کے لوگوں کی تاریخ اور مستقبل کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا-دین اسلام نے یہاں ایک مضبوط قوم کی بنیاد رکھی- قوم کو متحد کرنے اور اس کی واحد زبان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا- ترک اور دیگر نسلوں کے مابین مذہبی اتحاد نے ان کی مشترکہ روایات کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے اتحاد کو ترغیب دی-. اسلامی دنیا کی قدیم مساجد میں سے ایک آذربائیجان میں واقع ہے- شماخی جامع مسجد 743 میں تعمیر کی گئی تھی اور کچھ سال قبل اس کی مکمل تزئین و آرائش ہوئی تھی- دربند مسجد کے بعد قفقاز کی یہ قدیم ترین مسجد ہے- جب آذربائیجان سوویت یونین کے قبضے میں چلا گیا تو مسلمانوں کو بہت سی مذہبی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا- سوویت یونین سے آزادی کے بعد آذربائیجان میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی نصیب ہوئی- اسلام نے آذربائیجانی ثقافت میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا ہے- اس لئے آج آذربائیجان میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے-
آذربائیجان میں صوفیا کا کردار:
آذربائیجان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی صوفیاء کرام کی بھی آمد ہوئی-آذربائیجان میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں تصوف کے مشہور سلسلے نقشبندیہ اور قادریہ کے صوفیاء کرام کا بڑا کردار ہے-
آذربائیجان کے سیاحتی مقامات اور سیاحت کا معیشت میں کردار:
آذربائیجان ایک تاریخی ملک ہے جو کئی تہذیبی ورثوں کا حامل ہے- سیاحت کے حوالے سے آذربائیجان دنیا کے ابھرتے ہوئے ممالک میں شامل ہے-آذربائیجان کا دارالحکومت باکو دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے- جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور باکو شہر کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں-آذربائیجان کے دیگر سیاحتی مقامات میں نبران، میڈن ٹاور،حیدر علیوف سنٹر، شیروان نیشنل پارک اور گوبسٹن نیشنل پارک وغیرہ شامل ہی-سیاحت کی انڈسٹری آذربائیجان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے- سیاحوں کی آمد سے ناصرف آذربائیجان کثیر تعداد میں زر مبادلہ کما رہا ہے بلکہ اس کی مقامی سطح پر معیشت بھی ترقی کر رہی ہے- آذر بائیجان کی سیاحت کی اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ’’سال 2019ء میں 2018ء کے مقابلہ میں 11.4 فیصد اضافے سے 3.17 ملین سیاحوں نے آذربائیجان کا رخ کیا‘‘-
2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق ٹورازم انڈسٹری کا آذربائیجان کی جی ڈی پی میں 13.2 فیصد حصہ تھا-
نگورنو کاراباخ:
نگورنو کاراباخ کا علاقہ قدیم زمانے سے انیسویں صدی کے آغاز تک اور روسی حملہ سے پہلے آذربائیجان کا حصہ رہا ہے- آذربائیجان کی سوویت یونین سے آزادی کے اعلان کے ساتھ 1991ء میں آرمینیائی شدت پسندوں نے جنہیں آرمینیا کی پشت پناہی حاصل تھی نگورنو کاراباخ میں تشدد پسندانہ سرگرمیاں شروع کردیں جو بعد میں جنگ کی شکل اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر اور قتل ہوئے - اس طرح آرمینیا نے نگورنو کاراباخ پر ناجائز قبضہ جما لیا- عالمی قوانین اور اصولوں کے مطابق یہ علاقہ آذربائیجان کی ملکیت اور آرمینیا اس پر قابض تھا-اس تنازعہ کو لے کر دونوں ممالک کے درمیان کئی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں-
گزشتہ سال 27 ستمبر 2020ء کو آرمینیا نے ایک بار پھر آذربائیجان پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر دی اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جس کے بعد آذربائیجانی افواج نے آرمینیا کی اشتعال انگیزی کا بھر پور جواب دیتے ہوئے آرمینیا کے جہاز مار گرائے اور آرمینیا کو افرادی قوت کے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا- بالآخر آرمینیا کے وزیر اعظم نے اس جنگ میں اپنی شکست تسلیم کر لی- آذربائیجان کے صدر، آرمینیا کے وزیر اعظم اور رشین فیڈریشن کے صدر نے 10 نومبر 2020ء کو دستخط کیے جانے والے سہ فریقی اعلامیے میں ، فریقین کے مابین جنگ بندی کا اعلان کیا- اس معاہدے کے تحت آرمینیا کے قبضے سے چھڑائے گئے علاقے آذربائیجان کے پاس ہی رہیں گے اور دیگر نواحی علاقوں سے بھی آرمینیائی فوج پیچھے ہٹ جائے گی-
یوں آرمینیا کی جانب سے چھیڑی جانی والی اس 44 دنوں کی جنگ کا اختتام آذربائیجان کی شاندار کامیابی پر ہوا- اس جنگ کے دوران آذربائیجان نے آرمینیا کے قبضے سے 5 شہر، 5 قصبے اور 300 کے لگ بھگ دیہات آزاد کروا لئے-
خوجالی قتل عام:
خوجالی (جو کہ آرمینیائی کے قبضہ میں آذربائیجان کا مقبوضہ علاقہ تھا) کا قتل عام، آرمینی باشندوں اور قوم پرستوں کی آذر -بائیجانی عوام کے خلاف کی جانے والی نسل کشی کی 200 سالہ قدیم پالیسی کا تسلسل تھا- نگورنو کاراباخ پر قبضے کے دوران آرمینیائی فورسز نے اکتوبر 1991ء کو خوجالی شہر کا محاصرہ کیا اور اسی طرح آرمینیائی فورسز نے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک منظم پلان کے تحت 25 اور 26 فروری 1992ء کی درمیانی رات ہیوی آرٹلری سے خوجالی ٹاؤن پر گولہ باری شروع کردی اور بے دردی سے سویلین آبادی کا قتل عام شروع کر دیا- اس قتل عام میں سینکڑوں افراد شہید ، بے گھر اور زخمی ہوئے - آرمینیا کی فورسز لسانی بنیادوں پر آذربائیجان کے نہتے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کروا کر جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی-
دو گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں شدت پسند آرمینیائی فوج نے مارٹر ، توپ خانے اور ٹینک سے فائر کر کے 613 معصوم افراد کو بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا تھا- آرمینیائی افواج کا یہ اقدام اس علاقے سے آذری لوگوں کی آبادی کم کر کے قبضہ کرنا تھا-آذربائیجان کے ریکارڈ کے مطابق ان اموات میں 106 خواتین، 63 بچے اور 70 بوڑھے افراد شامل ہیں جبکہ 487 افراد شدید زخمی ہوئے-
پاکستان اور آذربائیجان کے باہمی تعلقات اور مستقبل:
پاکستان اور آذربائیجان دو برادرانہ اسلامی ممالک ہیں جو کہ جذبہ اسلامی کے تحت ایک دوسرے سے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں- دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد پر مبنی وسیع سٹریٹیجک نوعیت کے تعلقات قائم ہیں- دونوں ممالک کے درمیان ہیڈ آف سٹیٹ، گورنمنٹ، وزرائے خارجہ اور وفود کی سطح پر کئی دورے ہو چکے ہیں- اسی طرح دونوں ممالک کے مابین تجارت اور باہمی تعاون مستقل طور پر فروغ پا رہا ہے-
جب آذربائیجان نے سوویت یونین سے آزادی حاصل کی تو ترکی کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے آذربائیجان کو تسلیم کیا- نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر پاکستان اور پاکستانی عوام نے ہمیشہ آذری بھائیوں کے اصولی مؤقف کی بغیر کسی مفاد کے اور غیر مشروط حمایت کی ہے- اسی لئے نگورنو کاراباخ پر آرمینیا کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کی وجہ سے پاکستان نے آج تک آرمینیا کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا ہے- اس مسئلے پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی حالیہ جنگ میں پاکستان نے آذربائیجان کی بھر پور اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے- آذربائیجان کے پاکستان میں تعینات سفیر علی علیزادہ نے پاکستان کے کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا:’’میں خود بطور سفیر یہاں رہتے ہوئے پاکستانی قوم کی جانب سےمحبت اور ہمدری محسوس کر رہا ہوں اور یہ ہمارے لیے نہایت فخر کی بات ہے- میں یہ کہوں گا کہ یہ سب آذربائیجان کی قوم نے بھی دیکھا اور محسوس کیا‘‘-
حال ہی میں آرمینیا کو نگورنو کاراباخ میں عبرتناک شکست دینے کے بعد جنوری 2021ء میں آذربائیجان اور ترکی کے وزرائے خارجہ پاکستان تشریف لائے اور اسلام آباد میں پاکستان آذر بائیجان اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے مابین سہہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس منعقد ہو چکا ہے- تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبہ میں ہونی والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دو طرفہ تعاون کے فروغ کے حوالے سے باہمی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا-
پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان بہترین تعلقات ہونے کے باوجود باہمی تجارت کا حجم بہت ہی کم ہے- دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت حجم تقریباً 16 ملین ڈالر ہے- اس باہمی تجارت کے حجم کو بڑھانے کی مزید ضرورت ہے- پاکستان سے بہت سی مصنوعات مثلاً ادویہ سازی، کاسمیٹکس، جراحی کے آلات، کھیلوں کے سامان، بجلی کے ساز و سامان، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، گھریلو دستکاری، کھانے اور پھلوں کی مصنوعات، انجینئرنگ اور صارفین کے سامان سمیت، چاول کی آذربائیجان میں بہت زیادہ گنجائش ہے اسی طرح آذربائیجان کے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے-
٭٭٭