آج جب مَیں غزہ کی صورت حال اور وہاں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کی دل فگار ویڈیوز اور تصاویر جو منظر ِعام پر آ رہی ہیں، دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ انسان کو بے بسی اور معذوری کے ایسے جہان میں لے جاتی ہیں جو امِّت مُسلمہ نے گزشتہ0 140برس کی تاریخ میں نہیں دیکھا - اس کے علاوہ جو دنیا کے دہرے معیارات سامنے آئے ہیں ، شاید کرہ ٔارض نے انسانی تہذیب کی تاریخ میں اتنی بڑی منافقت، اتنے بُرے دوہرے معیارات اور اتنی بڑی جانبداری نہیں دیکھی جس میں لوگ مقتول کو ظالم کہتے ہیں-جن کے گھر گرائے جارہے ہیں، جن کے گھروں پہ کارپٹ بمبارمنٹ کی جارہی ہے،جن کی سویلین آبادی، ہسپتالوں، بچوں اور بے گناہ خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؛ لوگ ان مظلوموں کو دنیا کے سامنے ظالم بنا کے پیش کررہے ہیں –یہ دنیا کی وہ منافقت ہے جو انسان نے اپنے پورے تہذیبی سفر میں نہیں دیکھی اور اس سارے بحران (Crisis) کی بنیاد کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ عالمِ اسلام کی گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی کی تاریخ میں جھانکنا پڑتا ہے- جس وقت صیہونی تحریک (Zionist Movement) چلی-
صیہونی تحریک کیاتھی؟ اس تحریک کے عزائم کیا تھے اور اس تحریک نے کس طریقے سے دنیا کی سب بڑی اکنامک پاورز کو اپنے صہیونی مقاصد کے سامنے ڈھیرکیا-
قائداعظم محمدعلی جناح ؒ نے 1946ء میں ایسوسی ایٹٹد پریس آف یونائیٹڈ سٹیٹ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بڑے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
’’میں بڑا حیران ہوں کہ امریکہ جیسی طاقت صیہونیوں کے آگے بے بس ہے - جب ان کا جی چاہتا ہے وہ امریکہ جیسی طاقت کو ناک سے کھینچ کر جدھر مرضی لے جاتے ہیں ‘‘-
قائد اعظمؒ کے 1937ء سے 1948ء (یعنی اپنے وصال) تک کئی خطوط اور بیانات ہیں جس میں آپ فلسطین کی تحریک پر بات کرتے رہے -
قائداعظمؒ نےمسئلہ فلسطین پر برطانوی وزرأاعظم چیمبرلین، کلیمنٹ ایٹلی اور وِنسٹن چرچل کولکھا اور تنبیہ کرتے رہے کہ برطانوی گورنمنٹ عربوں کے ساتھ اور عالم ِ اسلام کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہے جس کیلئے برطانیہ کے کردار کو کبھی اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جائے گا اور دنیا ئے اسلام کبھی بھی یہ بے وفائی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے ہماری زمین پر جبراً ایک غیرقوم آباد کی جو نہ یہاں کی باسی ہے اور نہ یہاں کی رہائشی ہے- اس پر قائداعظمؒ کےباقاعدہ آن ریکارڈ برقی مراسلے،خطوط اور بیانات ہیں -
آج دنیا ان چیزوں سے غافل نہیں ہےکہ کس طرح انہوں نے اپنی دولت اور طاقت کے ذریعے باقی دنیا کو سرنگوں کیا ہوا ہے-مثال کے طور پہ اس وقت ٹویٹر پر ہزاروں اکاؤنٹس بند کیے جارہے ہیں، انسٹا گرام، فیس بک، یوٹیوب اور باقی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے چینلزصرف اس لیے بند کردیے جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے سامنے حقائق لے آتے ہیں کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے، محض اس بات پر جو نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے مغرب کی ظالمانہ پالیسی ہے اور جس کی حمایت میں خاص طور پر برطانیہ امریکہ سر فہرست ہیں،تو کیا یہ آزادی اظہار ِ رائے پہ حملہ نہیں ہے؟کیا لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی بات کا کھل کر اظہار کر سکیں اور اپنی بات کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں-
خاص طور پہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت عالم ِ اسلام کے اندر جو صیہونی انتشار کروارہے ہیں غزہ اور فلسطین میں اسی انتشارسے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے -اگر دنیا ئے اسلام میں یہ انتشار نہ ہوتا یا جس طرح اُمت ِمسلمہ میں خونریزی اور فسادات بپا ہیں اگریہ نہ ہوتے، اگر مسلمانوں نے اپنی ریاستوں اور افواج کو مضبوط کیا ہوتا اور ان تقاضوں کو پورا کیا ہوتا جو جدید دنیا کے تقاضے ہیں تو آج ان کی یہ جرأت نہ ہوتی جو کچھ وہ غزہ میں کر رہے ہیں - وہ اسرائیل جو کہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، اگر سارے مسلمان مل کر پھونک ماریں تو وہ اڑ جائے لیکن آج پوری دنیا ئے اسلام اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے ان کے سامنے بے بس ہے-
ہمارے داخلی انتشار کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل نظریاتی سطح کے ہیں جن کا استعماری طاقتیں ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں-مثال کے طور پہ جب ہم تاریخ میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اگر مسلمان مغربی تصور قومیت کے جھانسے میں نہ آتے جن کو ہم اپنے پڑھے لکھے کہتے تھے کہ جی یہ کیمبرج، پیرس، نیو یارک،ڈی سی اور فلاں فلاں کے گریجوایٹ ہیں،اگر ان گریجوایٹس نے اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی قومیت کے تصور کو پڑھا ہوتا اور اغیار کے تصور قومیت کو من وعن قبول نہ کیا ہوتا تو آج فلسطین نہ جل رہا ہوتا-
سب سے پہلا کام جو فلسطین کا کیا گیا وہ مسئلہ فلسطین کو ’’ڈی اسلامائز‘‘ کرنا تھا جس پر عربوں کے اپنے دوہرے معیارات بھی نہیں بھلائے جا سکتے کہ جب انہیں تعاون درکار ہوتا تو وہ عالم اسلام کی بات کرتے، لیکن اصل میں عرب نیشنلزم اور عرب قومیت پرستی کو فروغ دیا گیا -عربوں نے اس دوراندیشی کو دیکھے بغیر کہ آج سے ایک سوسال بعد عرب نیشنلزم کے یہ اثرات نکلیں گے کہ وہ اپنی ہی زمینوں پہ اپنا حق کھو بیٹھیں گے وگرنہ یہ پوری دنیا ئے اسلام ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ کی بنیاد پر ایک تھی- جس وقت ہم نے ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘کو ترک کردیا ، یہ ہمارانظریاتی بحران تھا کہ ہم نے کلمے پرقومیت اور رنگ ونسل اور زبان و جغرافیہ کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بطور اُمت ہماری ہیبت اور رعب و دبدبہ اغیار کے سینوں سے نکل گیا-کیونکہ جو نظریہ ان کا دیا ہوا ہے وہ اس کو زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ اس نظریے کے ماننے والوں کو کس طریقے سے ٹیکل کرنا ہے- انہوں نے ہمیں اس پہ جس طریقے سے بھگتایا ہے اور ہم بھگتے جا رہے ہیں آج بھی لوگ اس مسئلے پر بحث کرتے ہیں-
جہاں اس کے اکنامک اور سٹریٹیجک پہلو ہیں جس میں میڈیا وارفیئر شامل ہے، دفاع اور خارجہ پالیسز کے مسائل ہیں یا اس پر نیچرل ریسورسز اور اپنے ہیومن ریسورسز کو استعمال کرنے نہ کرنے کی جتنی مباحث ہیں، اس میں ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ساری بحث میں اکانومی، پاورپالٹکس اور خارجی تعلقات یا باقی قانونی مسائل اپنی جگہ ہیں لیکن نظریاتی مسئلہ اپنی جگہ پہ موجود ہے-
گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اور بالخصوص انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز سے جو نظریات عربوں نے قبول کیے جس میں لارنس آف عریبیہ اور بہت سے نام گنوائے جا سکتے ہیں-اس دوران عربوں نے جو کچھ نظریاتی سطح پہ اسلام کی سیاست کے نظریاتی محاذ پر کیا جب تک عرب اسے Undo نہیں کرتے عرب دنیا کبھی اپنے مسائل سے نہیں نکل سکتی -
چونکہ مسئلہ فلسطین سے ہمارا تعلق وہاں پہ آباد ہمارے مسلمان بھائیوں کی وجہ سے ہے جو اپنے نسب اور زبان کے اعتبار سے عربی زبان بولتے ہیں - اگرہم نے ’’عرب لیگ‘‘ اور ’’جی سی سی‘‘ سے زیادہ ’’اوآئی سی‘‘ کو اہمیت دی ہوتی تو آج عربوں کا یہ قتل عام نہ ہوتا اور ہمارےپاس اس سے مختلف آپشنز موجود ہوتے-
آج میں اپنی یوتھ جو چاہے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، ساؤتھ افریقہ یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھی ہے سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ اپنی تاریخ کو اپنے آئینے سے پڑھیں- مسئلہ فلسطین پہ ایک بہت اچھی کتاب”The Question of Palestine‘‘ ہے جو ایک مستشرق Edward Said نے لکھی ہے جن کا دنیا میں بڑا اکیڈیمک ریگارڈ ہے-ان کی دو اور کتابیں بھی پڑھنے لائق ہیں ایک ’’Culture and Imperialism‘‘ اور دوسری ’’Orientalism‘‘ - آپ کو یہ کتابیں پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں پاک و ہند میں حکومت کرنے والے عربوں، ترکوں اور پٹھانوں کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور خاص طور پہ جو لوگ انگریزی کتابیں پڑھ کر تاریخ سیکھتے ہیں وہ سلطنتیں قائم کرنے والے عربوں، ترکوں اور پٹھانوں کو کہتے ہیں کہ یہ ڈاکو تھے جو یہاں لوٹ مار کرنے آتے تھے-
مغربیوں کی تاریخ کیا ہے؟ ہندوستانی دانشور اور سیاستدان ششی تھرور سے میرانظریاتی اختلاف ہے لیکن جو کچھ اس نے اپنی کتاب ’’An Era of Darkness‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں سب سے بڑا ڈکیت برطانیہ تھا جس سے بڑی ڈکیتی ہندوستان میں کسی نے نہیں کی- پاک و ہند یا بنگال میں ترک، عرب اور پٹھان ضرور آئے لیکن ان کے زمانوں میں یہاں کی دولت یہاں پہ ہی خرچ ہوئی جس سے یہاں فتح پور سیکری ، دہلی، ملتان، لاہور ، ٹھٹھہ ، جہلم ،آگرہ اور اس جیسے سینکڑوں شاہکار بنے- یہاں سے کوئی پٹھان، ترک یا عرب دولت اٹھا کرنہ افغانستان، نہ عرب اور نہ سنٹرل ایشیا ء لے گیا بلکہ یہاں کی دولت یہیں پہ صَرف ہوئی -اگر کوئی یہاں کی دولت چراکر یا چھین کر لے گیا تو وہ مغرب تھا جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ جہاں جہاں مغربی کالونیز رہی ہیں سارا کچھ انہوں نے ایسے ہی کیا-مثال کے طورپہ آج تک کانگو کی دولت کانگو میں نہیں لگتی بلکہ کانگو کے جواہرات یورپ کی منڈیوں میں جا کے بکتے ہیں -
میری اپنے یوتھ فیلوز سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنی تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے پڑھیں نہ کہ آپ کے آباؤ و اجداد کو گالیاں دیکر مغربی استعماریوں کی چوریاں چھپانے والے نام نہاد مستشرقین کی نظر سے- ہمارے ساتھ یہی Ttragedy نظریاتی محاذ پر بھی ہوتی ہے اور ہمیں یہی کہا جاتا ہے کہ آپ کا جغرافیہ ،رنگ و نسل اور زبان آپکی قومیت طے کرتی ہے-
یاد رکھیں! مسلمانوں کے لیے نہ جغرافیہ،نہ رنگ ونسل اور نہ زبان قومیت طے کرتی ہے بلکہ مسلمانوں کی قومیت کلمہ طیّب’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘سے طے ہوتی ہے-
مسئلہ فلسطین کی بنیاد برطانوی قبضہ ہے جب الائیڈ فورسز نے آ کر عرب پہ قبضہ کیا ، مینڈیٹ مقرر ہوا اور فلسطین برطانوی حصہ میں ڈالا گیا اور جس طرح سارے یورپین نے ملکر یہاں پہ چڑھائی کی اور خلافت ِ عثمانیہ کی قبا کو اسی وجہ سے چاک کیا گیا -یہ در اصل نظریاتی بحران کا فائدہ اٹھایا گیا اور عرب نیشنلزم کو فروغ دیا گیا- علامہ اقبال ؒ نے عرب نیشنلزم پر ان الفاظ میں تنقید کی ہے:
آنچہ با تو خویش کردی کس نکرد |
یعنی عرب نیشنلزم کا نعرہ لگا کر تم نے خود کے ساتھ جو کیا ہے اس سے تم نے روحِ مصطفٰے(ﷺ) کو تکلیف دی ہے-
عرب کو عرب بنایا کس نے ؟
کرے یہ کافرِ ہندی بھی جُرأتِ گُفتار |
عرب تو آقا کریم (ﷺ) سے ہے، یعنی عر بوں کو دنیا میں جو عزت ملی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں اور بدؤوں کو جو عزت و رونق ملی وہ تو اسلام اور تہذیب اسلام سے ملی ، یہ بنیادی بات ہے-
اس وقت دنیا کی مسئلہ فلسطین پر خاموشی اور دوہرے معیارات کو دنیا کے سامنے ضرور بے نقاب کرنا چاہیے اور اس وقت دنیائے اسلام کو اپنے ان مسائل پرغیرجذباتی انداز میں لیکن بہت دوراندیشی کے ساتھ سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے-فلسطین میں جو جاری اسرائیلی جارحیت ہے اس کیلئے دنیائے اسلام کو ایک مشترکہ مطالبہ اسرائیل سے Arms Embargo کا کرنا چاہیے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اسرائیل کے ساتھ اسلحے اور ہتھیاروں کی تجارت نہ کرے ،نہ ہی اسرائیل سے کچھ خریدے اور نہ ہی اسے فروخت کرے- اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملک پہ جارحیت کرنے کی وجہ سے جو معاشی پابندیاں لگائی جاتی ہیں وہ اسرائیل پر لگائی جانی چاہیے-مزید اس پہ ایک زور دار اسلامک سمٹ ہونا چاہیے جس میں پاکستان، ترکی، ایران، سعودی عرب، ملائشیا اور جتنے بھی طاقتور مسلمان ممالک ہیں انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے- اگر مسلمان ریاستیں اس کا کوئی دفاعی حل ڈھونڈتی ہیں تو امتِ مسلمہ کو بیک آواز لبیک کہنا چاہئے-
داخلی عدمِ استحکام نہ ہو تو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع بہتر طور کیا جا سکتا ہے- اس لئے مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور افواج کو اپنے داخلی انتشار پہ قابو ڈالنا چاہئے، فرقہ وارانہ پروکسیز کی شدید ترین حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، تشدد پسند لسانی ، علاقائی ، فرقہ وارانہ گروہوں سے عوام کو دور رہنا چاہئے-اپنی ریاستوں کے خلاف انتشاری و فسادی قوت کے طور پہ لڑنے والے گروہوں کو بے نقاب کرنا چاہئے-داخلی عدمِ استحکام امت کو اجتماعی طور پہ کمزور کرتا ہے، جس سے نجات ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہئے -
ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور بھی یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرے، ہماری بے بسی زائل فرمائے ،ہماری مدد و نصرت فرمائے او رہمارے حکمرانوں کو وہ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے جو رسول پاک(ﷺ)،امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم اور امینِ امت سیدنا ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی اس میراث کو محفوظ کر سکیں، اور وہ امانت جس پہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان عبدالحمید ثانیؒ اور ان جیسے لوگوں نے پہرا دیا اس امانت کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوسکیں اور القدس (قبلہ اوّل) کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوسکیں –آمین!
٭٭٭