مسلم انسٹیٹیوٹ اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے زیرِ اہتمام ’’مسئلہ فلسطین و کشمیر: انصاف کی ضرورت‘‘ کے موضوع پہ سیمینار کا انعقاد 27 مئی 2021ء کو پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز، اسلام آباد میں ہوا- سیمینار میں شہدائے فلسطین اور کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے ایک منٹ کی علامتی خاموشی اختیار کی گئی- سیمینار کی صدارت صدر آزاد جموں و کشمیر جناب سردار مسعود خان نے کی- چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی نے افتتاحی کلمات ادا کیے- چئیرمین کشمیر کمیٹی جناب شہریار آفریدی نے اختتامی کلمات ادا کیے- دیگر مہمان مقررین میں سیکرٹری جنرل مؤتمر العالم الاسلامی سینیٹر راجہ ظفر الحق، فلسطینی سفیر احمد ربائی، لارڈ نذیر احمد (سابق ممبر ہاؤس آف لارڈز) اور ڈنمارک کے ممبر پارلیمنٹ سکندر صدیق شامل تھے- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- سفراء، سکالرز، طلباء، جامعات کے پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے سیمینار میں شرکت کی-
پینل میں شامل ماہرین کی جانب سے کیے گئے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ابتدائی کلمات
صاحبزادہ سلطان احمد علی
دیوان ریاست جوناگڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
مسئلہ کشمیر و فلسطین دونوں تنازعات میں عدل و انصاف ناپید ہے- مقدس ماہ رمضان میں معصوم شہریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے اور مسجد ا قصیٰ جیسے متبرک مقام کی بے حرمتی کی گئی- اگر پچھلے 73 سال اور بالخصوص گزشتہ چند ہفتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ دنیا کا نظام جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر قائم ہے- اگرچہ فلسطین میں جو کچھ ہوا اس کی مذمت پوری دنیا میں کی گئی لیکن مسلم دنیا کی طرف سے سادہ سا مشترکہ جواب آنے اور اقوامِ متحدہ کو فعال کرنے میں بھی ہفتوں وقت لگا- اس کی وجہ دنیا میں طاقت کا عدم توازن (power asymmetry) ہے اس وقت کشمیر اور فلسطین میں نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی اقدار- مودی کی بی جے پی حکومت اور اسرائیلی قابض افواج ان دونوں خطوں میں نہتے شہریوں کے قتل عام میں مصروف ہیں- کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کی زبوں حالی ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام مسلم ریاستیں اپنے وسائل کو مجتمع کریں اور ایک سیاسی و سفارتی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں-اس ضمن میں مسلم اقوام کو مغرب کے دیئے گئے قومیت کے نظریہ سے بھی جان چھڑانا ہو گی اور رنگ،نسل یا جغرافیہ کی بجائے حضور نبی کریم(ﷺ)کے فرمودات کے مطابق اسلام کے تصورِ قومیت پر اکٹھا ہونا ہو گا-
اظہارِ خیال (بذریعہ ویڈیو لنک)
جناب سکندر صدیق:
ممبر پارلیمنٹ،ڈنمارک
سب سے پہلے میں قابض اسرائیلی افواج کی شدید مذمت کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے بے گناہ لوگوں کے خلاف کاروائی کی- اسرائیل فلسطینی لوگوں کا قتل عام کرتا ہے جبکہ پوری دنیا دیکھتی ہے اور عملی اقدام نہیں کرتی- اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور تمام جمہوری ریاستیں کہاں ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں؟ غزہ کئی دہائیوں سے کرفیو میں ہے فلسطینی کھلی جیل میں رہ رہے ہیں جہاں وہ اجازت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ہیں- دنیا بھر کو اصولاً معاشی، سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا چاہئے- یہ مطالبہ میں نے ڈینش پارلیمنٹ کے سامنے بھی پیش کیا ہے- میں ڈنمارک کے وزیر اعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کم از کم اسرائیل سے کہیں کہ ہم بحیثیت قوم فلسطین میں آپ کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں- ہم یہ قبول نہیں کرسکتے کہ ہماری حکومتیں معاشی نمو اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظرانداز کریں -
اظہارِ خیال
لارڈ نذیر احمد :
سابق ممبر ہاؤس آف لارڈز، یو کے
کشمیر اور فلسطین دونوں کیلئے ایک جیسا سانحہ 1947ء میں شروع ہوا - دونوں مسئلوں پہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں- ان قرار دادوں پر عمل درآمد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی ذمہ داری ہے- مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر میں مماثلت ہے - نسل کشی کی تعریف کے مطابق کسی ایک خاص قوم کی بڑی تعداد کو قتل کرنا ہے تاکہ اس کی تعداد کو کم کیا جائے اس ارادے سے کہ اس قوم یا گروہ کو تباہ کردیا جائے ، یہ تعریف کشمیر اور فلسطین دونوں پہ صادق آتی ہے- جہاں پہ نسل کشی کی جارہی ہو وہاں اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ دخل اندازی کرے- اسرائیل فلسطین پر غیر قانونی قبضہ کر رہا ہے اور ہندوستانی کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر رہے ہیں- مسلمانوں نے میڈیا پر سرمایہ کاری نہیں کی جبکہ اس کے بر عکس پوری دنیا کا میڈیا (کا بڑا حصہ) صیہونیوں کے قابو میں ہے- مسلمانوں کو مضبوط تحقیقی اداروں پہ خرچ کر نے کی ضرورت ہے - بھارت میں میڈیا پر مکمل کنٹرول انتہا پسند تنظیم RSSکا ہے- مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے ظلم و جبر سے آزادی اور بنیادی انسانی حقوق پہ ہر انسان کا حق ہے
اظہارِ خیال
عزت مآب احمد ربعی:
فلسطینی سفیر برائے پاکستان
فلسطین میں حالیہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں پاکستان کے عوام اور حکومت نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا- فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے بزور طاقت نکالا گیا اور بنیادی سہولیات پانی ، خوراک اور علاج سے محروم کردیا گیا ہے- اس کے علاوہ مختلف قوتیں اسرائیلیوں کو غیر قانونی طور پر فلسطینیوں کی سرزمینوں پر آباد کرنے کوشش کر رہی ہیں- غزہ کی پٹی میں لگ بھگ 2 ملین افراد بھی اسرائیلی مظالم کا شکار ہوچکے ہیں- ان مظالم کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اس طرح خلاصہ بیان کیا-
’’تم میرا پانی لے لو اور میرے تمام درخت جلا دو، میرے گھر کو تباہ کرو، میرے والد کو قید کرو، میری ماں کو قتل کرو، میرے ملک پر بمباری کرو، سب کو فاقے سے دوچار کر دو لیکن مورد الزام بھی میں ٹھہرا اگر میں نے جوابی کاروائی میں ایک راکٹ پھینک دیا‘‘-
انسانی حقوق کمیشن اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں فلسطین کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں- مزید یہ کہ تمام مسلمان ممالک کو فلسطین میں یہودیوں کے غیرقانونی ٹھکانے کے خلاف مزاحمت اور مسجد اقصیٰ کے مظالم کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے- ان شاءاللہ فلسطینی اسرائیل سے آزادی حاصل کریں گے-
اظہارِ خیال
سینیٹر راجہ ظفر الحق :
سیکرٹری جنرل، مؤتمر العالم الا سلامی
جب برصغیر کے مسلمان اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو مسلمانانِ ہند نے مارچ 1940ء کے سیشن میں دو اہم قرار -دادیں منظور کی تھیں- ایک قیامِ پاکستان کیلئے اور دوسری فلسطینی مسلمانوں کیلئے - مسئلہ فلسطین کو پیدا ہوئے 100 سال بیت چکے ہیں اور یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر سازشوں کاشکار رہا - گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے- لیکن اسرائیل کو کسی مسلمان ملک کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو ا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں- موجودہ صورتحال میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ حماس اور الفتح کے مابین مشترکہ موقف پیدا کیا جائے تاکہ فلسطینی مؤقف عالی سطح پہ زیادہ پذیرائی حاصل کرے- دنیا بھر کے لوگوں نے فلسطین کےحق میں اپنی آواز بلندکی ہے- ہمیں مسئلہ فلسطین پہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ اسرائیلی مظالم پر مقدمہ چلایا جا سکے- حکومتوں اور انفرادی حیثیت میں لوگوں کو غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے فنڈز قائم کرنے چاہئیں- کشمیر کے مسئلہ پہ ہم نےکچھ کام کیا ہےلیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے -تمام سیاستدانوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے-
صد ر محفل
سردار مسعود خان:
صدر آزاد جموں و کشمیر
پوری پاکستانی قوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے جس کی وجہ انسانیت اور اخلاقیات ہیں- ترکی اور فلسطین کے ساتھ مل کر پاکستان کی کاوشوں کے سبب غزہ میں بہت سی قیمتی جانیں محفوظ ہوئیں- فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اپنا حقِ خود ارادیت چاہتے ہیں جس کا وعدہ عالمی برادری نے کر رکھا ہے- کشمیر اور فلسطین عالمی اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں جو انسانی حقوق کی فراہمی میں ناکام ہوئے ہیں- مجھے فلسطین کی موجودہ صورتحال پر جرأتمندانہ مؤقف اختیار کرنے پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے- اقوام متحدہ بین الاقوامی آرڈر کو نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے- ہمیں بین الاقوامی اسٹریٹیجک معاملات کو سمجھنا ہوگا- سیاسی اسٹریٹیجک معاملات میں صیہونیوں کا اثر و رسوخ ہے- اگر دنیا میں ناانصافی ہے تو، دنیا کی سب سے طاقتور ریاست ذمہ دار ہے لیکن ان کا مستقل نمائندہ سلامتی کونسل میں اسرائیلی سفیر سے خوف کھاتا ہے کیونکہ اس کی ملازمت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے- اس کے باوجود المیہ یہ ہے کہ طاقتور ممالک اپنے آپ کو انسانی حقوق کا نگران کہتے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے لئے غیر معمولی پن کے خواہاں ہیں-
اختتامی کلمات
جناب شہریار آفریدی:
چئیرمین کشمیر کمیٹی
فلسطینی صدر نے موجودہ حالات میں پاکستان کے کردار کو سراہا- مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے مگر وہاں کی عوام مصمم ارادے کے ساتھ جبر کے خلاف کھڑی ہے- بھارتی قابض حکومت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ماڈل پر عمل پیرا ہے- عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے- کشمیر کی لوکل آبادی کو وہاں سے بے دخل کر کے ہندوؤں کی زبردستی آبادکاری کی جا رہی ہے تاکہ فلسطین کی طرح کشمیر کی سرزمین پر غیرقانونی آبادکاری کی جا سکے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے- انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت انسانی حقوق کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو زبردستی خاموش کروا رہی ہے- بہت سے مسلمان ملازمین کو ملازمت سے برخاست کیا جا رہا ہے-گوکہ تمام عالمی ادارے انسانیت کے علمبردار ہیں لیکن دیرینہ انسانی مسائل پہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے باعث اکھٹی نہیں ہو سکتیں- مسلم ممالک کو فرقہ وارانہ تفریق سے آزاد ہو کر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کیلئے متحد ہوناپڑے گا- ہم نے ماہرین پہ مشتمل آٹھ کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو مختلف مسائل پہ ہر دو ہفتے بعد اپنی سفارشات پیش کریں گی- سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز جہاں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے معاملے جانبداری کامظاہرہ کیا گیا ہم نے ان فورمز پہ بھی ملکی سطح پہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے-
وقفہ سوال و جواب
وقفہ سوال و جواب میں مقررین کی طرف سے اظہار خیا ل کا خلاصہ درج ذیل ہے :
مقبوضہ کشمیر پہ منظور ہونے والی قراردادیں آرٹیکل 6 کے تحت ہیں جبکہ یہاں امن عامہ کی ابتر صورتحال اور خطے کے سلامتی کو خطرہ کے باعث ان کو آرٹیکل 7 کے تحت ہونا چاہیے تھا- آرٹیکل 6 کے تحت ہونے کے باعث یہ قرادادیں صرف سفارشات کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کو نافذ کرانے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا جا سکتا-فلسطین اور پاکستان دونوں ان قراردادوں کے نفاذ کے منتظر ہیں لیکن ایسٹ تیمور کی طرح یہاں ان کا نفاذ عمل میں نہیں لایا جا رہا- لہذا ہمیں اپنی تمام تر سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے- جنیو ا کنونشن کے تحت ہمارے پاس یہ اختیار ہے کہ ہم انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں جائیں اور اس نسل کُشی کےمقدمہ کو پوری تیاری کے ساتھ پیش کریں- حال ہی میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے پراسیکیوٹر نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ 2014 سے لے کر اب اسرائیلی جارہیت اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کریں گے- مسئلہ فلسطین پہ ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے - فلسطین کیلیے ایک انسانی راہداری بنانے کی ضرورت ہے جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر ادارے بھی امداد مہیا کریں- OICاور عرب لیگ پہ محض تقاریرو ں سے کچھ نہیں بنے گا ہمیں ہر صورت مسلم ممالک کو اکھٹا کرنا ہو گا تاکہ ان دونوں مسائل پہ پوری طرح فعال ہو کر اور اپنی قوت کو مجتمع کر کے کام کیا جائے-
٭٭٭