پڑھنا لکھنا انسانی شعور میں اضافہ کرتا ہے -دینِ اسلام میں علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہےجبکہ آغازِ وحی ہی لفظ”اقراء“ سے ہوا ہے جس کا معنی”پڑھئے “کے ہیں-[1]
علم کو فروغ دینے میں کتاب سب سے زیادہ معاون رہی ہے اور صدیوں سے کتابوں کی قدر کرنے والے معاشروں نے ترقی کی اونچائیاں چھوئی ہیں- کتاب جہاں علم و حکمت کا خزانہ سموئے ہوئے ہوتی ہے وہیں اس سے بہترین دوست بھی کوئی نہیں ہوتا-کتاب کے مطالعہ سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے اور زبان و بیان میں بہتری آتی ہے-مطالعے کا ذوق و شوق کتاب پڑھنے، کتاب خریدنے اور کتاب جمع کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور جب کتابیں جمع ہوتی ہیں تو کتب خانے (لائبریری) بن جاتے ہیں- کتب خانے وجود میں آتے ہیں تو تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں، لوگوں میں تخلیقی و تعمیری رجحانات جنم لیتے ہیں-یوں فرد سے افراد اور معاشرے کو استفادہ حاصل ہونے لگتا ہے اور معاشرہ علمی و فکری پروان چڑھنے لگتا ہے-کیونکہ کتب بینی سے علم اور مشاہدات نصیب ہوتے ہیں جو زندگی میں تغیرات کا باعث بنتے ہیں- ڈاکٹر جاوید منظر نے کتب بینی کے متعلق لکھا ہے:
رہِ وفا میں سبھی ساتھ چھوڑتے ہیں مگر |
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے سے معلوم پڑتا ہے کہ دنیا کا پہلا کتب خانہ ساتویں صدی قبل مسیح میں عراق میں بنایا گیاتھا اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جن معاشروں میں زیادہ کتب خانے ہوتے ہیں اور ان کی تزئین و آرائش اور سلیقہ مندی کا خیال رکھا جاتا ہے اُن معاشروں میں علمی و فکری ترقی کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ترقی یافتہ معاشرے کتابوں اور کتب خانوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں-کتب بینی کے بیش بہا فوائد ہیں،جن پر وقت بوقت کئی تحقیقات کی گئی ہیں اور اب بھی ہورہی ہیں-کتب بینی کئی جسمانی اور ذہنی فوائد سے آراستہ کرتی ہے-کتاب پڑھنے سے دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے،ذہنی پختگی اور تجربہ حاصل ہوتا ہے-[2]کتاب کا مطالعہ کرنے سے افہام اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے-[3] جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کے لئے احساسات کا جذبہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تحقیق کہتی ہے کہ کتاب انسان کے باطنی افزاء کا باعث بنتی ہے-[4] سونے سے قبل کتاب پڑھنے کی عادت اچھی نیند میں مدد گار ثابت ہوتی ہے-[5]مزید برآں کتب بینی ذہنی تناؤ کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہےاور انسان کو ایک الگ جہانِ تخیلات میں لے جاتی ہے- برطانوی فلسفی روجر اسکروٹن نے اسی متعلق کہا تھا:
”خیالی چیزوں سے ملنے والی تسلی، خیالی تسلی نہیں ہوتی“[6]-
کتاب کے مطالعے کیلئے جہاں قاری کو کتاب خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں کتب خانےہر معاشرے میں ایسے مقام ہوتے ہیں جہاں شمعِ کتاب کے پروانے بغیر خرید و فروخت کے بآسانی کتاب سے اپنا رشتہ پیوست کرسکتے ہیں- اور یہی وجہ ہے کہ لائبریری کو کسی بھی علمی معاشرے کا اہم گوشہ کہا جاتا ہے-کتب خانہ محققین کیلئے ایک بہترین ادارہ ہوتا ہے، نئے خیالات کااجراءہوتا ہے،اذہان میں نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں جبکہ نئی کتابوں کے ساتھ ساتھ نئے لوگوں سے ملنے کا بھی موقع ملتا ہے-[7] کتب خانے کی اہمیت رومی فلسفی مارکس سیسیرو اس طرح بیان کرتے ہیں:
”کتابوں کے بغیر کمرہ ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم“[8]-
دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں کتب خانے موجود ہیں اور اس دورِ جدید میں جہاں سب کچھ اب انٹرنیٹ پر موجود ہے اور رواں صدی کوکتابوں کی آخری صدی کہا جانے لگا ہے، اس دور میں بھی لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے موجود ہیں جو کتابوں سے اپنا رشتہ استوار کئے ہوئے ہیں- بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں جو بڑی بڑی جامعات ہیں وہ تاریخ میں کبھی مسلم ممالک کا ذخیرہ ہوا کرتے تھے-لیکن کئی حوادث ایسے رونما ہوئے جنہوں نے شرق و غرب کی تاریخ بدل دی -
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چار ہزار سے زائد لائبریریاں موجود ہیں[9]- جو ا س بات کی دلیل ہے کہ ملکِ پاکستان ایک کتاب دوست ملک ہے-البتہ چند کتب خانے ایسے بھی ہیں جو پاکستان کے نوجوانوں کو صدائیں دیتے ہیں کہ ان میں رکھی کتابیں اب گرد آلود ہوچکی ہیں اور وہ آج بھی اپنے قارئین کی منتظر ہیں- جبکہ کئی کتب خانے ایسے بھی ہیں جہاں ہر روز ،صبح و شام قارئین کا سمندر موجود رہتا ہے-
پاکستان کا سب سےبڑے شہرکراچی میں 41 پبلک لائبریریاں، 15جامعہ کےبڑے کتب خانے،3 تدریسی کتب خانے، 4 تاریخی لائبریریاں اور 10اسپیشل لائبریریاں موجود ہیں[10] جو کہ کل ملا کر 73 لائبریریاں بنتی ہیں- ان کے علاوہ بھی کئی لائبریریاں دوسرے سیکٹرز میں موجود ہیں جو علم دوست افراد کے لئے موزوں مقام ہیں- اس مقالے میں فقط کراچی کے چند ایک کتب خانوں کی مختصر تفصیلات پیش کرنا مقصود ہے-کراچی کی چند منتخب لائبریریوں کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہاہے-
خالقدینا لائبریری:
خالقدینا لائبریری 1856ء میں نیٹیو جنرل لائبریری کے نام سے قائم کی گئی تھی جو کراچی کا پہلا عوامی کتب خانہ تھا-عمارت کا ڈیزائن یورپی فن تعمیر کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے جسےموسز سومیک نے تیار کیا تھا-[11] 50سال بعد 1905ء میں اس کا نام خالقدینا لائبریری پڑگیا تھا جو کہ سیٹھ خالقدینا کی وصیت کے تحت کیا گیا تھا جنہوں نے 18 ہزار روپے اس لائبریری کیلئے مختص کئے تھے- 2002ءمیں اس عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی جس میں ڈیڑھ کروڑ کی لاغت صرف ہوئی تھی- [12]
بدقسمتی سے اس لائبریری کی حالت اب کافی خراب ہے جبکہ ایک وقت تھا جب خالقدینا لائبریری میں قارئین کی ایک نمایاں تعداد پائی جاتی تھی- اس لائبریری میں کم و بیش 9 ہزار کتابیں موجود ہیں-
فرئیر ہال لائبریری:
فرئیر ہال لائبریری کراچی کا قدیم ترین کتب خانہ ہے جو اکتوبر5 186ءکو بنایا گیاتھا[13] اس لائبریری کی تعمیر سندھ کے دوسرے کمشنر سر بارٹل فرئیرنے کروائی اور اس عمارت کا نقشہ کرنل ہینری ونکنز نے بنایا-اس عمارت میں ایسے پتھر لگائے گئے ہیں جس پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے- اردگرد میں ہریالی اور وسیع باغ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے-
یہ لائبریری ایک صدی سے زیادہ کی عمر پوری کر چکی ہے اور آج بھی کئی کتب بین افراد اسے زینت بخشتے ہیں-یہ کراچی کے علاقہ صدر سِول لائنز میں فاطمہ جناح روڈ پر واقع ہے- اس عمارت کی تعمیر میں ایک لاکھ اسّی ہزار روپے کی لاغت آئی تھی جس میں سے پچاس ہزار دو سو روپے علم دوست شخصیات نے ادا کئے تھے-لائبریری میں پچاس ہزار کتابیں ہیں جن میں 1500 نایاب کتب اور 50قلمی دستاویزات ہیں- حال ہی میں اس لائبریری میں ایک گوشہ دیوار علم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جہاں سی ایس ایس کے طلبہ کے لئے کتب فراہم کی گئی ہیں-البتہ کتب خانہ کو تزئین و آرائش کی ضرورت لاحق ہے جس پر منتظمین کی توجہ درکار ہے- [14]
محمود حسین لائبریری:
جامعہ کراچی کا مرکزی کتب خانہ 1952ء میں قائم ہوا جسے 1975ء میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمود حسین کے انتقال کے بعد ان کی جامعہ کے لئے بے لوث خدمات کے باعث محمود حسین لائبریری کے نام سے منسوب کر دیا گیا- اس لائبریری میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں جبکہ اسی تعداد کے قریب تحقیقی اور سائنسی رسائل و جرائد کا بھی ذخیرہ موجود ہے-لائبریری میں اقوام متحدہ کا ڈپوزٹری سینٹر بھی ہےجبکہ 6000 سے زائد کے قلمی دستاویزات اور نایاب کتب بھی ہیں جو سولہویں صدی کی ہیں-46اسکالرز کے ذاتی مجموعۂ کتب ہونے کے ساتھ ساتھ کئی دانشوروں اور ادیبوں کی تصنیفات یہاں موجود ہیں-
سب سے اہم یہ کہ یہاں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا ذاتی مجموعہ بھی نایاب الماریوں میں محفوظ ہے-بلاشبہ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کا شمارملک بھر کے بڑے تعلیمی اور تحقیقی مراکز میں ہوتا ہے-[15] لائبریری میں طلبہ کی آسانی کیلئے انٹرنیٹ لائبریری کا بھی سیشن بنایا گیا ہے جبکہ لائبریری میں سائنسی اور سماجی سائنسی مضامین کے الگ الگ سیکشن بنائے گئے ہیں اور اوپری حصے کو اخباروں کے ریکارڈ کے لئے مختص کیا گیا ہے جہاں روزنامہ جنگ اور daily dawn اخبارات کے ریکارڈز محفوظ ہیں-
غالب لائبریری:
غالب لائبریری 1970ء میں ناظم آباد کے علاقے میں معروف شاعر فیض احمد فیض اور دانشور مرزا ظفر الحسن نے قائم کی،اس لائبریری کا مقصد اردو زبان و ادب اور بالخصوص غالب کے فن و فکر کو ترویج دینا تھا- لائبریری کا قیام ادارۂ یادگارِ غالب کے تحت ہوا جو مذکورہ دو اشخاص نے 1968ء میں غالب کی صد سالہ برسی پر بنایا تھا- جس طرح آج آرٹ کونسل میں تقریبات سجتی ہیں ایک وقت میں یہاں پہ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، مجنوں گورکھپوری، ابن انشا، ابراہیم جلیس، احمد ندیم قاسمی، ابو الفضل صدیقی، محسن بھوپالی اور صادقین وغیرہ ادبی محافل کو سجایا کرتے تھے-
لائبریری میں 30ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ مختلف مضامین کے جنرل بھی وافر مقدار میں یہاں موجود ہیں-اس لائبریری کیلئے گرچہ کتب خریدی بھی گئیں لیکن تقریباً 11 ہزار کے قریب کتب وہ ہیں جنہیں عوام نے عطیہ کیا-تقسیم ہندسے قبل شائع ہونے والے رسائل وجرائد کا بھی نہایت عمدہ اور بڑا ذخیرہ یہاں موجود ہے-مزیدیہ کہ اس لائبریری میں تاریخی خطوط اور شمارےمحفوظ ہیں جن میں جوش ملیح آبادی، سبطِ حسن،رالف رزل،مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط جبکہ شاہنامہ فردوسی،الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا جیسی نایاب اشاعات بھی موجود ہیں- [16]
ڈی ایچ اے سنٹرل لائبریری:
ڈی ایچ اے سنٹرل لائبریری ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی نے نومبر 1991ء کو ڈیفنس فیز 2 میں قائم کی- خوبصورت ڈیزائن اور فن پارے سے مزین اس عمارت کے اطراف میں سبزہ اسے نہایت خوبصورت بناتا ہے- یہاں پر کمپیوٹرائزڈ کتاب انوینٹری، جدید اور تیز انٹرنیٹ سہولیات، خصوصی اخبارات اور رسالوں کے سیکشن، ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری، جدید ترین آڈیو ویژؤول سہولیات اور جدید سہولیات سے آراستہ چلڈرن لائبریری بھی موجود ہے جو کہ 1996ء میں قائم کی گئی- ای لائبریری سیکشن میں تقریباً 70 ہزار اسکین شدہ کتب موجود ہیں-[17] اس لائبریری میں ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے علاوہ دیگر لوگ بھی آسکتے ہیں البتہ ان کیلئے الگ سے ممبرشپ کروانا ضروری ہوتی ہے-
ڈی ایچ اے لائبریری میں کتابوں کے شیلف کی ترتیب جدید کتب خانوں کی عکاس ہیں جہاں پرسکون ماحول قارئین کے لئے سودمند ثابت ہوتا ہے-اس لائبریری میں 80ہزار کتابیں موجود ہیں- [18]
ایس بی پی لائبریری:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان لائبریری کراچی کے علاقہ بولٹن مارکیٹ، آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے- اس لائبریری کا قیام 1949ء میں ہوا اور مختلف اوقات میں اس لائبریری کو تین بار شفٹ بھی کیا گیا- اس لائبریری میں 98700 کتابیں موجود ہیں-ان کتب میں اکثر اکنامکس، اکاؤنٹنگ، فائنانس وغیرہ کے موضوعات والی کتابیں زیادہ ہیں-اس کتب خانے میں 17 مختلف سیکشنز ہیں، اس کے علاوہ ای بک اور ای جنرلز کا ڈیٹا بھی موجود ہے-لائبریری میں قرآن مجید کے نایاب نسخہ جات بھی موجود ہیں- [19]
کورنگی ماڈل لائبریری :
کورنگی ماڈل لائبریری کا افتتاح 2017ء میں ہوا- یہ لائبریری جدید ٹیکنالوجی سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ 50 ہزار کتب کا ذخیرہ رکھے ہوئے ہے-
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولیات کے باعث یہاں آنے والے طلبہ کو کافی آسانیاں میسر ہیں- لائبریری میں کئی مضامین پر مبنی رسائل و جرائد، روزنامے، ماہنامے، اخبارات وغیرہ بھی موجود ہیں- خواتین و حضرات کے لئے الگ الگ مطالعہ گاہ بنائی گئی ہے-عمارت بیرونی و اندرونی خوبصورتی سے مزین ہے- حال ہی میں اس لائبریری میں سی ایس ایس کارنر کا بھی افتتاح کیا گیا ہے-[20] کورنگی ماڈل لائبریری کورنگی نمبر پانچ کی مرکزی سڑک پر واقع ہے-
بیت الحکمت لائبریری:
بیت الحکمت لائبریری کراچی کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک ہے- اسے جنوبی مشرقی ایشیاء کی سب سے بڑی لائبریری مانا جاتا ہے- یہ لائبریری 1989ء میں بنائی گئی اور اس کا نام مسلمانوں کے تاریخی ورثہ”بیت الحکمہ“ بغداد کے کتب خانے پر رکھا گیا- یہ لائبریری ہمدرد یونیورسٹی میں ہے- ایک وقت تھا جب یہ سندھ کا داخلی دروازہ ہوتا تھااور اب شارع مدینۃ الحکمت کے نام سے جانا جاتا ہے- اس لائبریری میں مختلف زبانوں میں 4 لاکھ 77 ہزار251 کتابیں موجود ہیں-29611 رسائل، ایک ہزار سے زائد مخطوطات، 1300 سے زائد موضوعات پر 30 لاکھ 65 ہزار اخباری تراشے موجود ہیں- نیز ہر شعبہ جات بالخصوص پاک و ہندکی تاریخ کی کتب موجود ہیں- اس لائبریری میں قرآن شریف کے مختلف 66زبانوں میں 421 تراجم بھی رکھے ہوئے ہیں- ان سب کے علاوہ غیر ملکی سکے، اے وی کیسٹیں اور سینکڑوں خطوط مصنفین کے اپنے ہاتھوں کے لکھے ہوئے محفوظ ہیں-[21]
اسٹریٹ لائبریریاں:
شہر کراچی کی خوبصورتی اور فن پاروں میں لائبریری کی معاونت سے خوب اضافہ ہوا ہے- 2019ء میں میٹروپول روڈ پر کراچی کی پہلی اسٹریٹ لائبریری کا قیام عمل میں آیا جہاں بابائے قوم، مادر ملت اور شہر کی قدیم عمارتوں کے دلفریب فن پاروں کے ساتھ کتابوں کے شیلف اور وہاں بیٹھ کر پڑھنے کیلئے کرسیاں نسب کی گئیں[22]- گو کہ یہاں کتابوں کی تعداد سینکڑوں سے زیادہ نہیں ہیں لیکن اس لائبریری کے قیام کا مقصد عوام میں کتب بینی کو بطور فیشن کے متعارف کروانا مقصود تھا- اس لائبریری کے قیام کے ایک سال بعد کراچی کے علاقے لیاری کے چاکیواڑا میں شہر کی دوسری اسٹریٹ لائبریری کا قیام کیا گیا-[23]ان لائبریریوں میں کتاب کی حفاظت پہ چوکیدار رکھا گیا ہے البتہ اگر کوئی کتاب گھر لے جانا چاہتا ہے تو اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اپنی ایک کتاب یہاں رکھ کر کوئی بھی کتاب لے جائے-
بیدل لائبریری:
جولائی 1974ء میں ڈاکٹر ظفیر الحسن نے ایک کمرہ میں 300 کتب و رسائل سے اس لائبریری کا آغاز کیا جو اب 85 ہزار کتب مع رسائل کا ذخیرہ محفوظ کئے ہوئے ہے-اس لائبریری کا نام فارسی کے معروف شاعرمیرزا عبدالقادر بیدل کے نام پر رکھا گیا ہے جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
میرزا بیدل نےکس خوبی سے کھولی یہ گرہ |
اس لائبریری کا شمار کراچی کی قدیم اور نادر لائبریریوں میں ہوتا ہے- لائبریری میں کتب کے علاوہ تقریباًپچاس اردو اور فارسی میں مخطوطات موجود ہیں-یہاں مختلف زبانوں کے 11 اخبارات کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے- یہ لائبریری بہادرآباد کے عقب میں شرف آباد میں موجود ہے-
حرفِ آخر:
یوں تو اس مضمون پر پوری کتاب تحریر ہوسکتی ہے لیکن ’’خَیرُالکَلام ِ مَاقلّ وَ دَلّ ‘‘ کے تحت مختصر اور مدلل پر ہی اکتفا کیا ہے- اس مقالہ کو لکھنے کا مقصد قارئین میں کتب خانے سے متعلق دلچسپی کو بڑھانا اور کتب بینی کی ترغیب کی ادنیٰ کاوش کرنا ہے-ہم بطور پاکستانی اس بات پر تو مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کتب خانے وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت ان کتب خانوں کا رُخ نہیں کرتی جس کے باعث آج یہ کتب خانے ویران اور ان میں رکھی کتابیں گرد آلود ہوچکی ہیں- جہاں ان کتب خانوں کو انتظامیہ کی توجہ درکار ہے وہیں انہیں دوبارہ آباد کرنے میں قارئین کی ایک تعداد چاہیے-یاد رہے کہ کتاب کا مطالعہ انسانی شعور کی نشونما میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے اور یہ کتب خانے اسی معاونت کے مراکز ہوتے ہیں- اس لئے اگر ہم چاہیں تو اس ورثہ کی حفاظت کر سکتے ہیں ،ورنہ:
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے |
٭٭٭
[1] https://quranurdu.org/96
[2] https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4128180/
[3] https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/21772058/
[4] https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/24091705/
[5] https://www.healthline.com/health/benefits-of-reading-books#aids-sleep
[6] https://quotes.pub/q/the-consolation-of-imaginary-things-is-not-imaginary-consola-318294
[7] https://www.statelibraryofiowa.org/ld/t-z/TTLS/speeches/sample
[8] https://www.goodreads.com/quotes/764-a-room-without-books-is-like-a-body-without-a
[9]https://archive.ifla.org/IV/ifla62/62-kham.htm
[10]http://www.kmc.gos.pk/Contents.aspx?id=85
[11]https://tribune.com.pk/story/626468/secret-histories-the-jews-built-karachi
[12]https://www.dawn.com/news/938443/the-past-is-another-story
[13]The Speeches and Addresses of Sir H.B.E. Frere, G.C.S.I., K.C.B., D.C.L.
[14]https://urdu.arynews.tv/farrior-hall-karachi-library-brink-of-collapse/
[15]https://www.uok.edu.pk/library/
[16]https://thekarachiwalla.com/2019/05/14/city-libraries-ghalib-library-nazimabad/
[17]http://www.dclkarachi.com/Facilities.aspx
[18]https://www.facebook.com/dclkarachi/videos/469209676942302/
[19]https://dnb.sbp.org.pk/library/index.htm
[20]https://dunya.com.pk/index.php/city/karachi/2021-03-28/1799681
[21] http://hamdardfoundation.org/bait-al-hikmah/
[22] https://www.youtube.com/watch?v=l4n2oNfWcbA
[23] https://www.youtube.com/watch?v=kkM1N_xzjm4