ابتدائیہ:
برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے وقت ہندوتوا، اکھنڈ بھارت اور توسیع پسندانہ عزائم کی حامل بھارتی قیادت نے انگریز سامراج کے ساتھ ساز باز کر کے قیام پاکستان کی مخالفت کی- تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی پارلیمان میں ہونے والی تمام قانون سازی ’’متحدہ ہندوستان‘‘ کے مؤقف کو سپورٹ کرتی تھی- لیکن جب پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تو بھارتی قیادت سازشوں اور ہتھکنڈوں سے پاکستان کے وجود کو مٹانے کی ناپاک کوششیں کرتی چلے آ ر ہی ہیں-
تاریخی طور پر حالیہ بھارتی قیادت کے نہ صرف متعدد ایسے بیانات بلکہ اقدامات کے حوالے بھی دئیے جا سکتے ہیں جن سے یہ مکروہ عزائم بے نقاب ہوتے ہیں- قیام پاکستان کی تشکیل کے وقت انگریز سامراج سے ساز باز کرنے کے بعد کئی مسلم اکثریتی علاقوں کی بھارت میں زبردستی شمولیت، شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو پاکستان سے الحاق کی خواہش پر دھونس اور دھاندلی سے دھمکیاں دینا اور بزورِ بازو ان کی ریاستوں پر قبضے، مہاجرین کا قتل عام، نا انصافی پر مبنی سرحدوں کی حد بندی، دفاعی اور اقتصادی اثاثوں کی تقسیم نمایاں ہیں-
ان سارے واقعات میں برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بھارتی قیادت سے گٹھ جوڑ نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا-لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے تھے- لیکن بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح () کی اعلیٰ بصیرت نے ماؤنٹ بیٹن کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے فوراً انکار کر دیا تھا- برطانوی مؤرخ ہیری ھڈسن نے اپنی معروف کتاب ’’گریٹ ڈیوائیڈ: بریٹن، انڈیا، پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ’’Basket full of apples‘‘ سیبوں کی بھری ہوئی ٹوکری ( شاہی ریاستوں کا انڈیا کے ساتھ الحاق کے بدلے گورنر جنرل شپ )آفر کی تھی-[1] اسی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے دوران ایک غیر جانبدارانہ کرادر ادا کرنے کی بجائے بھارتی آلہ کار کا بھرپور کردار ادا کیا-[2]
زیر نظر مضمون میں ہم بطور ’’Case Study‘‘ ریاست جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اہم تاریخی دستاویزات کی روشنی میں جائزہ لیں گے-
جس سے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے بھارتی قیادت اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ کی وجہ ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے الحاق کے فیصلے پر کس طرح نواب صاحب آف جونا گڑھ کو اپنا قانونی حق استعمال کرنے پر دھمکایا گیا- نواب صاحب کے غیر متزلزل اور اپنے الحاق پاکستان کے فیصلے پر ڈٹ جانے کا تذکرہ کریں گے- اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے ریاست جونا گڑھ کی معاشی ناکہ بندی، فوجی محاصرہ اور چڑھائی، نام نہاد عارضی حکومت کا قیام اور دیگر اہم پہلوؤں کا جائزہ لیں گے-
قانون آزادی ہند 1947ء اور شاہی ریاستیں:
قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی 570 کے قریب تمام شاہی ریاستوں کو تین اختیارات دیئے گئے تھے:
- پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں -
- بھارت کےساتھ الحاق کر سکتی ہیں-
- یا شاہی ریاستیں اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھ سکتی ہیں-[3]
اسی قانون کے تحت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگ نے واضح پالیسی اپنائی-
’’ مسلم لیگ تمام ریاستوں کے حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں- لیگ کسی شاہی ریاست پر ایک خاص اقدام اٹھانے پر دباؤ نہیں ڈالے گی‘‘-[4]
دوسری طرف کانگریسی رہنما شاہی ریاستوں کے نوابین پر بھارت میں شمولیت کے لئے دباؤ حتی کہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد رہنے کی صورت میں دھمکیاں دیتے تھے- جواہر لال نہرو نے 18 اپریل 1947ء کو تمام ریاستوں کے نوابین کو اس طرح مخاطب کیا-
’’ایسی ریاست جو بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرے گی اسے دشمن ریاست مانا جائے گا اور اس کو اس اقدام کے سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے‘‘-[5]
یہ صرف دو بیانات ہی نہیں ہیں بلکہ دو مختلف ذہنیتوں کا اظہار ہے، قائد اعظم کی بات اصول اور صداقت کی عکاس جبکہ پنڈت نہرو کی بات بد معاشی اور دھونس دھاندلی کی عکاس ہے- کانگریسی ایماء پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزادی ہند ایکٹ 1947ء سے انحراف کرتے ہوئے شاہی ریاستوں سے ’’آزاد رہنے‘‘ کا تیسرا آپشن چھینا اور ان کی جانب سے شاہی ریاستوں کے نوابین کو بھارت کے ساتھ زبردستی الحاق پر دباؤ ڈالا جاتا تھا-[6]
نواب آف جونا گڑھ کا الحاق پاکستان کا فیصلہ :
14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی نواب آف جونا گڑھ سر نواب مہابت خانجی نے سٹیٹ کونسل کی منظوری کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کردیا تھا- یہاں یہ بات بھی قابل ذکر رہے کہ ریاست جونا گڑھ کی ایک سٹیٹ کونسل تھی جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو نمائندگی حاصل تھی- ریاست جونا گڑھ کے اعلیٰ منصب دیوان آف جونا گڑھ (وزیر اعظم) پر بھی غیر مسلم شخصیات براجمان رہی ہیں[7]-
ریاست جونا گڑھ کے الحاقِ پاکستان کا فیصلہ جونا گڑھ کے سرکاری گزٹ ’’دستور العمل سرکار جونا گڑھ‘‘ میں 15 اگست 1947ء کو ان الفاظ میں شائع ہوا-
’’ جوناگڑھ حکومت کو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ڈومینین آف انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے انتخاب کرنے کا مسئلہ درپیش تھا-اس حوالے سے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لیا گیا ہے-اس مسئلے کے ہر پہلو پر غَور و خَوض کرتے وقت ان بنیادی باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ جوناگڑھ کے لوگوں کی مستقل فلاح و بہبود، ریاست کی سالمیت اور اس کی آزادی کی محافظت ہو-اس سلسلے میں کافی غور و فکر اور تمام عوامل کا توازن رکھتے ہوئے (جونا گڑھ کی) ریاستی حکومت، پاکستان سے الحاق کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتی ہے-ریاست پراعتماد ہے کہ حقیقی فلاح و بہبودکی خاطر اس فیصلے کا ریاست کے تمام وفادار رعایا خیرمقدم کریں گے‘‘-[8]
نواب صاحب آف جونا گڑھ، بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 15 اگست 1947ء کو اپنے ایک خط میں ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کے فیصلے کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں:
’’ فضیلت مآب! میری حکومت نے پاکستان سے الحاق اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے-----مہربانی سے توثیق فرمائیں‘‘-[9]
اس کے فوراً بعد نواب صاحب آف جونا گڑھ نے محمد اسماعیل کو معاہدے کی شرائط اور گفت و شنید کیلئے پاکستان بھیجا-
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو قبول فرمایا اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 15 ستمبر 1947ء کو اس فیصلے کی توثیق کردی[10]
یوں آزادی ہند ایکٹ کے تحت جونا گڑھ پاکستان کا حصہ بن گیا- اس فیصلے کے تحت پاکستان کو ریاست جونا گڑھ کی طرف سے تین شعبہ جات دفاع ، خارجہ پالیسی اور مواصلات کے اختیارات تفویض کئے گئے تھے-[11]
جونا گڑھ کے الحاق پاکستان پر بھارتی ردعمل
اور اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال:
نواب صاحب آف جونا گڑھ نواب مہابت خانجی کے آئینی اور قانونی فیصلے کا احترام کرنے کی بجائے بھارتی حکومت نے غیر منصفانہ اور غیر قانونی ردعمل کا اظہار کیا- برصغیر پاک و ہند پر برطانوی قبضہ ختم ہونے کے بعد بھارت کی جانب سے ایک آزاد اور خودمختار ریاست جونا گڑھ کے اندورنی معاملات میں مداخلت اور دراندازی کی کوششیں کیں-[12]
اس فیصلے کے ردعمل میں بھارت قیادت خصوصاً لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو ، مہاتما گاندھی، وی پی مینین اور سردار ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ نے انتہائی اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا- بھارت کے انہی چند نمایاں اقدامات کا آگے ہم ذکر کریں گے-
نواب صاحب آف جونا گڑھ پر بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے دباؤ ڈالنا:
بھارت نے شروع دن ہی سے قانون آزادی ہند کے برعکس دوسری شاہی ریاستوں کی طرح نواب آف جونا گڑھ پر بھی بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا- لیکن نواب صاحب آف جونا گڑھ نواب سر مہابت خانجی الحاق پاکستان کے فیصلے پر استقلال اور استقامت سے ڈٹے رہے - آپ بانیٔ پاکستان کے نام اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ:
’’ اخباری اطلاعات سے آپ کو علم ہو گیا ہوگا کہ جونا گڑھ (الحاق پاکستان کے فیصلے پر) ہر جانب تنقید کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اپنے ارادے پر قائم ہیں‘‘-[13]
جب پاکستان نے الحاق جونا گڑھ کو قبول کر لیا تو جواہر لال نہرو اور دوسری بھارتی قیادت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا- نواب صاحب آف جونا گڑھ پر مزید دباؤ بڑھانے اور بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے وی پی مینین 17 ستمبر 1947 کو جونا گڑھ آئے اور بھارتی حکومت کا پیغام اپنے ساتھ لائے جس میں واضح تھا کہ :
’’جونا گڑھ پاکستان کے ساتھ الحاق پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کرے‘‘-[14]
ان تمام دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود نواب مہابت خانجی اپنے عزم و استقلال سے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے-
ریاست جونا گڑھ کا فوجی محاصرہ:
17 ستمبر 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی صدرات میں ہونے والی کابینہ میٹنگ میں ریاست جونا گڑھ کے گرد فوجی محاصرہ اور کاروائی کا فیصلہ کیا گیا-
’’بھارتی قیادت لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے میٹنگ سے پہلے ہی جونا گڑھ پر فوجی کاروائی کا فیصلہ کر چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ گورنمنٹ آف انڈیا جونا گڑھ کے معاملے پر کوئی کمزوری نہ دکھائے‘‘-[15]
اس فیصلے کے بعد ریاستِ جونا گڑھ کے ارد گرد فوجی محاصرے کیلئے بھارتی افواج کو تعینات کر دیا گیا تھا-
اسی طرح وی پی مینین کی سرپرستی میں ’’ کاٹھیاواڑ ڈیفنس فورس‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا جو ریاست جونا گڑھ میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلانے کا کام کرتی تھی-
قائد اعظم صاحب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے جونا گڑھ کے قریب فوجی محاصرے پر تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اطلاع ملی ہے کہ پاکستان سے الحاق شدہ ریاست جونا گڑھ اور کاٹھیاواڑ کی دوسری ریاستوں کی سرحدوں پر ہندوستانی فوجوں کا اجتماع جمع ہو رہا ہے-----یہ اقدام جونا گڑھ کی خودمختاری یا اس کے علاقے میں خلل اندازی کو معاندانہ اقدام سمجھا جائے گا-----فوجیں کسی بہانے سے جونا گڑھ کے علاقے میں زبردستی داخل ہونے کی غلطی نہ کریں‘‘-[16]
اس وقت کے دیوان آف جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو بانی پاکستان کے نام اپنے پیغام میں صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’پچھلے چند ہفتوں کے حالات و واقعات سے دکھائی دیتا ہے کہ ظلم و جبر کی ابتدا ہونے والی ہے- کانگریس نے انتہائی زہریلا پروپیگنڈا پھیلانا شروع کر دیا ہے- حکومت ہندوستان کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کاٹھیاواڑ میں اعلیٰ آفیسرز بھیجے ہیں جو پولیس اور باقی ماندہ پرانی ریزیڈنسی کے عملے کی مدد سے متعدد والیان ریاست اور جاگیر داروں کو ڈرا دھمکا کر اطاعت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں‘‘-[17]
ریاست جونا گڑھ کی معاشی ناکہ بندی:
چونکہ ریاست جونا گڑھ تین اطراف سے خشکی اور ایک طرف پانی سے گھری ہوئی تھی اس لئے ریاست جونا گڑھ کی درآمد کا انحصار انہی راستوں سے ہوتا تھا- بھارتی حکومت نے ریلوے لائن اور دیگر دوسرے راستوں کو بند کر کے ریاست جونا گڑھ کی معاشی ناکہ بندی ( Economic Blocked) کر دی جس سے اشیاء کی آمد و رفت میں شدید قلت واقع ہو گئی تھی-
بھارت کے ان اقدامات کا دیوان آف جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو اِس طرح ذکر کرتے ہیں:
’’حکومت ہندوستان نے ہمیں اشیائے خوردونوش اور دیگر لوازمات کا کوٹہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے- دو دن پہلے کول کنٹرولر نے کول کی فراہمی بند کردی ہے جس کا مقصد ہمارے ریلوے کے نظام کو مفلوج کرنا ہے-اس طرح کے اقتصادی اقدامات اور پروپیگنڈہ کا مقصد ریاست کی غیر مسلم رعایا پر اثر انداز ہونا ہے انہیں ان کے مذہب، مقدس مقامات اور اداروں کا خوف دلایا جا رہا ہے حالانکہ نواب صاحب کی حکومت مختلف طبقات اور عقائد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھتی ہے‘‘-[18]
عارضی حکومت کا قیام:
ہندوستان نے آج تک پروپیگنڈا کیا ہے کہ پاکستان نے کشمیر میں مسلح قبائل بھیج کر ’’سول ملیٹنسی‘‘ کا آغاز کیا، مگر تاریخی حقائق و شواہد اس بھارتی پروپیگنڈا کی نفی کرتے ہیں اور ہماری توجہ ولبھ بھائی پٹیل اور شامڑ داس گاندھی کی نگرانی میں جونا گڑھ میں داخل ہوکر دنگا فساد مچانے والے ان جتھوں کی طرف کرواتے ہیں جو گجرات کاٹھیاواڑ کے مختلف علاقوں سے کرائے پہ لائے گئے تھے - سر نواب مہابت خانجی کی طرف سے پاکستان سے الحاق جونا گڑھ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے پر وی پی مینین کی سرپرستی میں ریاست جونا گڑھ میں فسادات کروانے کیلیے ممبئی میں ایک ’’عارضی حکومت‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا- جس کی صدارت شامڑ داس گاندھی کو سونپی گئی تھی- ممبئی میں عارضی حکومت کے قیام کے بعد اس کا دفتر جونا گڑھ کے قریب راج کوٹ میں منتقلی کے علاوہ رضا کاروں کے نام پر مسلح جتھوں کی ایک فورس تیار کی گئی- شامڑ داس گاندھی نے وی پی مینین کو یہ یقین دہانی کروائی کہ :
’’لوگ (مسلح جتھے) جونا گڑھ میں خود کو منظم کر کے مارچ کرنے ( فسادات پھیلانے) اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہیں‘‘-[19]
راجکوٹ پہنچتے ہی شامڑ داس گاندھی اور اس کے مسلح جتھوں نے راجکوٹ میں ’’جونا گڑھ ہاؤس‘‘ پر قبضہ کر لیا- عارضی حکومت کے ان مسلح جتھوں نے بزورِ بازو اور قتل و غارت گری سے جونا گڑھ کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا- حتی کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر رات گئے حملہ کیا گیا- جونا گڑھ پر قبضے کے دوران کتیانہ اور بانٹوا میں تباہی، لوٹ مار اور غارت گری کا بازار گرم کیا گیا- اس قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا تذکرہ جونا گڑھ کی پاکستان میں قیام پذیر کمیونٹی سے ان کی اپنی آب بیتی کی صورت میں سن کر کیا جاسکتا ہے-
دیوان آف جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو بانی پاکستان قائد اعظم کے نام لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کی پشت پناہی سے کانگریس کی ان کاروائیوں کا نتیجہ بے گناہ لوگوں کے جانی اور مالی نقصان کی صورت میں ہوگا‘‘-[20]
ان مسلح جتھوں کی فوج کا تذکرہ کرتے ہوئے دیوان آف جونا گڑھ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام لکھتے ہیں کہ:
’’ہماری رسد منقطع کر دی گئی ہے-جونا گڑھ کے لئے جام نگر اور دوسری بندرگاہوں سے اشیائے خوردونوش اور پٹرول کی سپلائی کو روک دیا گیا ہے- ہر طرف سے ہماری مواصلاتی روابط منقطع ہونے کا خطرہ ہے-اس خوف سے غیر مسلم رعایا جونا گڑھ سے ہجرت کر رہی ہے اور اسی دوران فساد زدہ بالائی ہندوستان سے مسلمان مہاجرین اپنی درد بھری داستانوں کے ساتھ یہاں داخل ہو رہے ہیں‘‘[21]
بانی پاکستان کا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بھارتی ایماء پر جونا گڑھ کے الحاق پر اعترضات کے جوابات:
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے اعتراضات پر مبنی خط کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح انتہائی مدلل انداز سے ان کا جواب ارشاد فرماتے ہیں جن کا ہم خلاصہ بیان کریں گے-
(ڈاکٹر زیڈ ایچ زیدی نے جناح پیپرز کی جلد نمبر پانچ میں تفصیل سے یہ ڈاکومنٹ شائع کیا ہے - اہلِ علم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر زیڈ ایچ زیدی کا تحقیقی کام قائدِ اعظم پہ سند کا درجہ رکھتا ہے )-
آپ کے بھیجے گئے تار میں اعتراضات بے بنیاد اور غلط فہمی پر مبنی ہیں:
- ریاستوں کی حیثیت پر بار ہا اتفاق کیا گیا ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے سقوط کے بعد ہر ریاست آزاد اور خودمختار ہوگی اس لئے اب آپ نئے کلیات وضع کر کے ریاستوں کے آزادانہ حق انتخاب کو محدود کرنا چاہتے ہیں-
- ریاستوں کا مسئلہ علیحدہ طور پر طے ہوا تھا اور اس کی نوعیت بھی مختلف ہے- اس لئے جونا گڑھ کسی اور ریاست کی طرح پاکستان میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہے جو اس نے استعمال کیا ہے-
- آپ کے اظہار رائے میں پاکستان کیلیے دھمکی پوشیدہ تھی- ہندوستان کو جونا گڑھ پر علاقائی یا کسی اور طرح کی خودمختاری کا حق حاصل نہیں ہے- یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کس طرح ہندوستان کی خود مختاری میں دخل اندازی اور باہمی تعلقات کی خلاف ورزی ہے-
- جہاں تک استصواب رائے کا تعلق ہے یہ معاملہ جونا گڑھ کے حکمران جو آئینی طور پر خود مختار کار اور وہاں کے عوام کے درمیان طے ہونے چاہیے- ( بانی پاکستان جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کی دستاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں جس کے مطابق جونا گڑھ کے نواب کو دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ خودمختاری حاصل تھی)-
- جونا گڑھ نے ہمیں وثوق اطلاع دی ہے کہ آپ کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ جونا گڑھ نے وسیع پیمانے پر تیاریاں شروع کی ہوئی ہیں- جونا گڑھ تو صرف چاہتا ہے کہ اسے امن اور سکون سے رہنے دیا جائے-
- اس کے بر خلاف ہماری اطلاع یہ ہے کہ ’’باہر کے لوگ‘‘ (یعنی شامڑ داس گاندھی زیر قیادت مسلح جتھے) جونا گڑھ کے اندر گڑبڑ کر رہے ہیں-
- جونا گڑھ کے دیوان کی طرف سے (حالات و واقعات کی آگاہی پر مبنی) تار کی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں اور ہماری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ تار صداقت پر مبنی ہے‘‘-(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی پاکستان متعدد ذرائع سے لمحہ بہ لمحہ جونا گڑھ کے حالات و واقعات سے باخبر تھے)
- تمام حقائق کی روشنی میں حکومت پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ہندوستان اپنی پالیسی اور عمل سے پاکستان کی خودمختاری میں دخل اندازی کر رہی ہے-
- پاکستان کے ہائی کمشنر نے سردار پٹیل کو اس معاملے میں حکومت پاکستان کی پالیسی سے آگاہ کر دیا تھا- اس کے بعد مزید مراسلت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی-[22]
مناوادَر پر قبضہ:
کاٹھیاواڑ کے بعد جونا گڑھ سے متصل مناودر نے بھی 21 ستمبر 1947ء کو پاکستان سے الحاق کیا تھا جس پر ہندوستان نے زبردستی فوجی طاقت سے قبضہ جمایا ہوا ہے- (ریاست جوناگڑھ کے خود مختار حکمران کو ’’نواب صاحب آف جوناگڑھ‘‘ کہا جاتا تھا جبکہ ریاست مناوادر کے حکمران کو ’’خان صاحب آف مناوادر‘‘ کہا جاتا تھا ) -
خان صاحب آف مناودر قائد اعظم کے نام لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری ریاست مملکت پاکستان میں شامل ہوگئی ہے- مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق اس برادری سے ہو گیا ہے جس کی بنیاد اسلامی مساوات، اخوت اور آزادی کے اصولوں پر ہے-----حکومت پاکستان کو جس صورتحال کا سامنا ہے میں اس سے بخوبی واقف ہوں-----میری پرخلوص دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں سے آپ کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ آپ شیطانی قوتوں سے نبرد آزما ہو کر آگے بڑھ سکیں‘‘- [23]
قائد اعظم جواباً لکھتے ہیں:
’’پاکستان کےلئے آپ کی نیک خواہشات کا شکریہ- مجھے یقین ہے کہ ہماری عوام کیلئے آپ کی ہمدردی، حمایت، باہمی اتحاد، نظم و ضبط اور دوستوں کی مدد سے ہم پاکستان کی تعمیر اس طرح کر سکیں گے کہ وہ دنیا کی امن پسند اقوام کے ہم پایہ ہو جائے‘‘-[24]
پاکستان سے الحاق کے فیصلے پر وی پی مینین نے اپنے 19 ستمبر کے دورے کے دوران راجکوٹ میں خان صاحب آف مناودر پر بھارت کے ساتھ الحاق پر دباؤ ڈالا لیکن خان صاحب آف مناودر اپنے فیصلے پر قائم رہے- جونا گڑھ کے محاصرے کے دوران 22 اکتوبر کو بھارتی افواج نے ریاست مناوادر کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے پر تشدد کاروائی کے بعد خان صاحب آف مناودر کو قید کرنے کے علاوہ ریاست پر قبضہ کر لیا-[25]
جونا گڑھ پر قبضہ:
طویل فوجی محاصرہ، معاشی ناکہ بندی، قتل و غارت اور لوٹ مار کے بعد بھارت افواج بزور طاقت ٹینکوں کے ساتھ ریاست جونا گڑھ میں 9 نومبر کو قبضہ کر لیا تھا-[26]
وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے جواہر لعل نہرو کے نام اپنے پیغام میں بھارت کے جونا گڑھ کے قبضے کو عالمی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے بھارتی فوج کے انخلاء کا مطالبہ کیا-
’’حکومت پاکستان کی طرف سے کسی بھی اور اختیار کے علم میں دئیے بغیر، ریاستی انتظامیہ کو سنبھالنے کیلئے آپ کی کاروائی اور بھارتی فوج بھیجنا، پاکستان کی سر زمین اور بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے-ہم جونا گڑھ کی انتظامیہ کو سنبھالنے اور بھارتی فوجوں کو جوناگڑھ پر قبضہ کرنے کیلیے بھیجنا پاکستان کے خلاف براہِ راست دشمنی کا عمل سمجھتے ہیں-ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کو فوری طور پر اپنی افواج کو واپس لینا چاہیے اور انتظامیہ کا چارج صحیح حکمران کو دیتے ہوئے یونین آف انڈیا کے لوگوں کو جونا گڑھ پر حملہ کرنے اور تشدد کی کاروائیوں سے باز رکھنا چاہیے‘‘-[27]
جونا گڑھ میں جعلی ریفرنڈم:
بزور طاقت ریاست جونا گڑھ میں بھارتی حکومت نے اپنی من مانی سے فروری 1948ء میں استصواب رائے کے نام پر ایک ڈھونگ ڈرامہ رچایا جس کے نتائج 99.1 فیصد ووٹ بھارت کے حق میں اور اس کی مرضی کے مطابق سامنے آئے- بھارت کا استصواب رائے کے نام پر رچایا ہوا ڈھونگ ڈرامہ درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر بے بنیاد ثابت ہوتا ہے-
- آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بننے کے باوجود بھارت جونا گڑھ پر بزور طاقت قابض ہوا-
- ریاست کا فوجی محاصرہ اور معاشی ناکہ بندی کی گئی-
- ریاست میں بھارتی سرکار کی پشت پناہی سے مسلح جتھوں اور غنڈہ گرد عناصر نے لا اینڈ آرڈر ہاتھ میں لیا-
- کافی طویل عرصے سے بھارتی فوج بندوق کی نالی پہ عوام کو مکمل طور پہ خائف کر چکی تھی تو استصواب رائے کرانا بے معنی ہوا کیونکہ جونا گڑھ کی آبادی زیر عتاب تھی-
- 1948ء میں اس وقت جونا گڑھ کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں ابھی بحث ہو رہی تھی کہ بھارت نے اپنی مرضی سے استصواب رائے کروا دیا-
- کسی انٹرنیشنل مبصر کی غیر موجودگی، ریاست کے خود مختار حکمران اور حکومتِ پاکستان کی نمائندگی کے بغیر ہونے والا ریفرنڈم سوائے جبر زبردستی اور غصب کے کچھ بھی نہیں ہے-
جونا گڑھ کا مسئلہ اقوام متحدہ میں:
جب بھارت نے انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستانی سرزمین پر قبضہ کر لیا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے انصاف کی فراہمی کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا- جونا گڑھ کے مسئلے پر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کو تفصیل سے اس مسئلے کی سنگینی سے متعلق آگاہ کیا- اس وقت جونا گڑھ کے مسئلہ پر کئی سیشنز میں بحث بھی ہوتی رہی لیکن 7 دہائیوں کے گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر کی طرح جونا گڑھ بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب ہے-[28]
اختتامیہ:
اس مضمون میں طوالت سے اختصار کرتے ہوئے مستند دستاویز سے حقائق کو بیان کرنے سعی کی گئی ہے- جس سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت بھارتی قیادت کے توسیع پسندانہ، ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت پر مبنی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے- بانی پاکستان اور بھارتی قیادت کے بیانات اور پالیسوں کا ہم اگر غیر جانبدارانہ موازنہ کریں تو بانی پاکستان وعدے اور اصولوں کے پکے اور قانون کی حکمرانی پیامبر نظر آتے ہیں جبکہ بھارتی قیادت غیر قانونی اور ناانصافی پر مبنی اقدامات کی پرچار نظر آتی ہے- انہی کی سازشوں اور دھونس دھاندلی سے نہ صرف ریاست جونا گڑھ اور بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کے غیر قانونی قبضے میں ہیں بلکہ سارا ساؤتھ ایشیا ایک وار زون بنتا جا رہا ہے، ساؤتھ ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو بھارتی سازشوں اور توسیع پسندانہ عزائم سے بچا ہوا ہو-اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ ’’1947ء سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور ریاست جونا گڑھ تقسیم ہند کے نامکمل پہلو اور 1948ء سے اقوام متحدہ کے نامکمل ایجنڈے ہیں‘‘-[29]
آج عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کو ان دیرینہ مسائل کے انصاف پر مبنی حل کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آج ان مسائل کا حل انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ ان مسائل کے حل ہی سے جنوبی ایشیاء اور خطے کا دیرپا امن وابستہ ہے-
٭٭٭
[1]Hodson mentioned this offer in his book See, Hodson, H.V. The Great Divide: Britain-India-Pakistan. London: Hutchinson & Co. 1969
[2]There are many evidence, but just we can imagine who they played their role in Boundary Commission. See, Khan, Hamid. Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009)
[3]The text of Indian independence act of 1947
[4]Ali, Muhammad. Emergence of Pakistan. Lahore: Research Society of Pakistan. 2009.
[5]ibid
[6]ibid
[7]Round Table Discussion on Junagadh: A Tragedy Lost In History by MUSLIM Institute
https://muslim-institute.org/newsletter-rtd-junagadh.html
[8]Menon, V.P. The story of the integration of Indian states. London: Orient Longman.2014.
[9]Jinnah Papers Vol 5, Appendix 5, Document No 7.
[10]Ali, Muhammad. Emergence of Pakistan. Lahore: Research Society of Pakistan. 2009
[11]The text of instrument of accession singed by Pakistan and Junagadh State
[12]The Indian of Independence act of 1947 said "The suzerainty of His Majesty over the (princely) Indian States lapses, and with it, all treaties and agreements in force at the date of the passing of this Act between His Majesty and the rulers of (princely) Indian States."So, after 15 August 1947, Junagadh was independent and sovereign state had its right to choice independent Decision.
[13]Jinnah Papers Vol 5.
[14]Menon, V.P. The story of the integration of Indian states. London: Orient Longman.2014
[15]Hodson, H.V. The Great Divide: Britain-India-Pakistan. London: Hutchinson & Co. 1969.
[16]Jinnah Papers Vol 5
[17]ibid
[18]ibid
[19]Hodson, H.V. The Great Divide: Britain-India-Pakistan. London: Hutchinson & Co. 1969.
[20]Jinnah Papers Vol 5
[21]ibid
[22]Jinnah Papers Vol :5 Appendix 5 Document #: 57 & 60
[23]ibid, Appendix 5 Document No, 65.
[24]ibid Document No.18
[25]حبیب لاکھانی، الحاق جونا گڑھ- لاکھانی پبلیکیشن کراچی
[26]ایضاً
[27]Razzak, Abdul. Illegal occupation of Junagadh: A Pakistani Territory. Digital addition. 2011.
Accessed December 15, 2020. www.memonbooks.com.
[28]To see discussion on Junagadh issue, Annual report of UNSC 1947-48.
https://daccess-ods.un.org/TMP/8035472.03540802.html
[29]صاحبزادہ سلطان احمد علی: کشمیر کانفرنس 2014.