مسلم انسٹیٹیوٹ نے 28 اکتوبر 2021ء کو ’’دم گھٹتا کشمیر: ایک نہ ختم ہونے والا لاک ڈاؤن‘‘ کے عنوان پہ ایک ویبینار کا انعقاد کیا- معزز مقررین میں محترم صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف ریاست جوناگڑھ، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)، محترمہ وکٹوریہ شیفیلڈ (برطانوی مصنفہ اور تجزیہ کار)، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ (دفاعی تجزیہ کار) اور ڈاکٹر سید مجاہد گیلانی (سیکرٹری ایڈوائزری بورڈ، پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر) شامل تھے- ویبینار کی صدارت محترمہ فرزانہ یعقوب (سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر) نے کی- جناب محمد علی افتخار (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، یوکے) نے ماڈریٹر کے امور سر انجام دیئے- ویبینار میں محققین، طلباء، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس کے نمائندوں، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-
مقررین کی طرف سے اظہارخیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جموں و کشمیر پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا- ہندوستان نے یہ عمل نہ صرف برصغیر کی تقسیم کے پلان کےخلاف کیا بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی- حال ہی میں 5 اگست 2019ء کو، ہندوستان نے منفی اقدامات جاری رکھتے ہوئے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا- ہندوستان کی موجودہ حکومت نے اس غیر قانونی عمل سے اپنے بانیان کے کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں کی بھی توہین کی- اس ایکٹ کے ذریعے 1948ء کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان نے ’ہندوتوا‘ نظریہ پہ چلنے والی BJP اور RSS کے شیطانی منصوبے کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت اور آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے- تاہم بھارتی فاشسٹ BJP کی ہندوتوا فاشسٹ قیادت اور اس کے زیر اثر انتظامیہ کو غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کو بہادر کشمیری عوام، پاکستان اور عالمی برادری نے واضح طور پر مسترد کر دیا ہے-
غور طلب امر یہ ہے کہ کشمیری عوام 5 اگست 2019ء سے پہلے بھی نئی دہلی کی طرف سے مختلف قوانین، آئینی پابندیوں، سیاسی جبر، معاشی عدم تحفظ، ثقافتی تشدد اور مذہبی پابندیوں کا شکار ہیں- لیکن 5 اگست 2019ء کے بعد نئی دہلی نے ان آئینی قوانین کو ختم کر دیا جو کم از کم کاغذ پر موجود تھے- یہ قوانین اور ڈھانچہ کشمیریوں کیلئے کسی حد تک تسلی کا ذریعہ تھا جن کی نسلیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہ رہی ہیں- اگرچہ وہ ہمیشہ گھبراہٹ، تناؤ اور احساس محرومی سے دوچار رہ رہے ہیں، مگر پھر بھی امید ہے کہ اقوام متحدہ کی رائے شماری سے وہ اپنے حق خود ارادیت کو حاصل کر سکیں- کشمیر کے لوگ اس سارے ڈرامے کے بعد نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہیں جو ان کی تحریروں اور بیانیے سے ظاہر ہوتاہے- وہ ایک مسلسل صدمے، انتہائی افسردگی، گھٹن، تنہائی اور احساس محرومی جیسی تکالیف سے گزر رہے ہیں- یہ احساس صرف یوتھ فرنٹ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خاندانی سطح تک موجود ہے- اگرچہ خواتین گھروں سے نکلنے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں لیکن مظاہروں میں نکلنے کے لیے پُر اَز ہِمَّت ہیں-
گزشتہ دو برسوں سے کشمیری بنیادی انسانی حقوق کے بغیر ایک جگہ پر قید ہو کر رہ گئے ہیں اور 80 لاکھ افراد 9 لاکھ فورسز کے ہاتھوں گھروں میں نظر بند ہیں- اس کے علاوہ کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی بھی بھارتی انتہا پسند حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے- نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے آرٹیکل 2 (1948) کی تعریف کے مطابق، مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی ایسی کاروائی جو کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی گئی ہونسل کشی قرار پائے گی- جیسے کہ: گروہ کے ارکان کو قتل کرنا؛ گروہ کے اراکین کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا؛ جان بوجھ کر حالات زندگی اور حقوق کو متاثر کرنا جو ان کی مکمل یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا باعث بنے؛ گروہ میں پیدائش کو روکنے کیلئے اقدامات کا نفاذ اور گروہ کے بچوں کو زبردستی دوسرے گروہ میں منتقل کرنا-مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی کاروائیاں ایک منظم منصوبے کے تحت انجام دی جاتی رہی ہیں جو کہ نسل کشی سے کم نہیں ہیں- اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بھارتی قابض افواج دانستہ طور پر کشمیری شہریوں کو قتل کر رہی ہیں اور کشمیریوں کو اندھا کرنے کیلئے پیلٹ گنز کا استعمال کر رہی ہیں، سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو حراست میں لے کر ان پر تشدد کر رہی ہیں اور کشمیری خواتین کی عصمت دری کر رہی ہیں- 1990ء سے اب تک بھارت کی قابض فوج نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید، 22 ہزار خواتین کو بیوہ، 108000 بچوں کو یتیم اور 11000 سے زائد خواتین کی عصمت دری کی ہے- بھارت کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جس کو نہ تو جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی ایک سیاہ حقیقت ہے جو عالمی سطح پر مختلف رپورٹس سے واضح ہے- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2005ء میں شہریوں کی نسل کشی، جنگی جرائم، نسلی تعصب اور انسانیت کے خلاف جرائم سے بچانے کی ذمہ دار آر ٹو پی کے متعلق قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا- تاہم اقوام متحدہ ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کو روکنے میں ناکام ہے-
کشمیر میں جاری نسل کشی کی نوعیت کو ایک طویل سماجی تنازعہ بھی قرار دیا جا سکتاہے- یہ لوگوں کے سماجی و سیاسی حقوق حذف کرنے کا نتیجہ ہے جبکہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے - قابل ذکر بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ 200 ممالک میں سے 150 ممالک خود ارادیت کی تحریکوں کے نتیجے میں سامنے آئے- بلاشبہ بھارت کی اقتصادی اور فوجی صلاحیت اور اس کا علاقائی اثر و رسوخ نہ صرف اقوام متحدہ کے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت بلکہ عالمی برادری پر بھی اثر انداز ہوتا ہے- عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کرنے سے باز رکھے اور اس قسم کی نسل کشی کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے-
اگر مسئلہ کشمیر کو متعصب عالمی سیاست کے پس منظر میں دیکھا جائے تو نام نہاد عالمی طاقتیں بھارت کے ساتھ معاشی اور سٹریٹجک تعلقات کی وجہ سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رجسٹر کروانے اور بھارت کو قصور وار ٹھہرانے میں رکاوٹ بنتی ہیں- اس کے علاوہ بھارت نے کشمیر پر ہائبرڈ وارفیئر مسلط کر رکھی ہے- مستقبل قریب میں مسئلہ کشمیر بالخصوص اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان حل ہونے کا امکان نہیں- جب تک ہندوستانی سول سوسائٹی ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں رہنے کی معاشی قیمت کو سمجھ نہیں لیتے ہندوستان انکار کے موڈ میں ہی رہے گا-
اسلام آباد کو کشمیر پالیسی پر جدید تقاضوں اور تازہ ترین صورتحال کے مطابق نظر ثانی کرنا ہوگی اور حق خودارادیت کے لیے دباؤ جاری رکھنا ہوگا- اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کو کشمیر کی حق خود ارادیت اور تحریک آزادی کشمیر کو بھارت کی طرف سے دہشتگردی کا لیبل لگانے سے بچانا ہوگا- مزید براں اس جد وجہد میں جارحانہ لابنگ، جس میں وزیر اعظم صف اول میں شامل ہیں ، کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے پاکستان کے اندر اور باہر نوجوان نسل کوبھرپور کام کرنے کی ضرورت ہے جس کی پہنچ مغرب اور وسطی ایشیائی ممالک سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی ہونی چاہیے اور دنیا میں کہیں بھی مقیم کشمیریوں کو اپنے ملک کے منتخب نمائندوں پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مسئلے کے حق میں بات کریں-
پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی منصفانہ اور حق خود ارادیت کی اس جدوجہد میں اس وقت تک اپنی غیر متزلزل حمایت جاری رکھنی چاہیے جب تک کہ کشمیری بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج جائز حق خود ارادیت حاصل نہیں کر لیتے- ہندوستان کو اپنے بانیان کے وعدوں کا احترام کرنے اور اس دیرینہ تنازعہ کے منصفانہ حل کیلئے جموں کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے جو کہ خطے کی سلامتی کے لئے انتہائی ضروری ہے-
٭٭٭