قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد ہی یہ حقیقت دنیا پر آشکار ہو چکی تھی کہ ہندو سامراج نے پاکستان کے آزاد اور خود مختار وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا - اس لئےہندوستان نے ابتدا ء ہی میں پاکستان مخالف سازشوں کے بیج بونےشروع کردیے جس کا اثر قیامِ پاکستان کے 24سال بعد سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں رونما ہوا اور بالآخر 17 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا-1971ء کی جنگ اور سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس کا زخم ابھی تک تازہ ہے-اِس تاریخی واقعہ کے پس منظر میں کئی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں لیکن اس کے حقائق کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے-
زیرِ نظر تحریر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کی گھناؤنی سازشوں کو حقائق پر مبنی چند بیانات کے ذریعے بے نقاب کیا گیا ہے جس میں سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت کے مذموم عزائم، بھارت کی مشرقی پاکستان میں غیر قانونی فوجی مداخلت، 1971ء کی پاک بھارت جنگ کا اصل مقصد، مکتی باہنی کی تخلیق اور آخر میں پاکستان بنگلہ دیش تعلقات پر مختصراً بات کی گئی ہے-
سانحہ 1971ء پر مختلف آراء و بیانات :
سانحہ 1971ء کے متعلق میڈیا اور علمی و تحقیقی حلقوں میں کئی آراء اور بیانات موجود ہیں جن میں زیادہ تر منفی پروپیگینڈا اور پاکستان مخالف خودساختہ ہندو بیانیے ہیں جن پر عالمی میڈیا بات کرنے سے کتراتا ہے- مثلاً گزشتہ 50 برس میں مغربی میڈیا نے ایک دفعہ بھی 1971ء کےانڈو مکتی باہنی مظالم اور قتلِ عام کے حقائق پر بات نہیں کی جو مظالم 1971ء کی پاک -بھارت جنگ کی بنیادی وجہ بنے بلکہ صرف پاکستانی افواج کو ہی مؤردِ الزام اور قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت ا س کے برعکس ہے-
سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت کا اصل مقصد کیا تھا؟
بنگلہ دیشی انٹیلی جینس (DGIF) کے سابق ڈائریکٹر میجر جرنل زیڈ اے خان اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
”اگرچہ را مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اس کا بڑا مقصد سیاسی و معاشی دباؤ ڈال کر بنگلہ دیش کو اپنی طفیلی ریاست بنانا تھا -بھارتی ماہرین نے 1947ء میں بھارت کی تقسیم کو قبول نہیں کیا-ان کے خفیہ مقاصد غیر منقسم بھارت کا قیام تھا جس کو وہ اکھنڈ بھارت ماتا کہتے ہیں-اس سمت میں وہ ابتداء ہی سے بہت سا کام کرتےچلے آرہے تھے- جب بھارت نے دیکھا کہ نارمل طریقے سے کام کو آگے بڑھانا ممکن نہیں تو پھر اس نے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا“ -[1]
مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں
ہندوستان کی سب سے بڑی سازش:
ویسے تو ہندوستان نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کیلئے کئی مکروہ چالیں چلیں لیکن ہندوستان نے سب سے بڑی ساز ش یہ کی کہ کلکتہ میں تحقیقی مراکز قائم کیے جو گمراہ کن لٹریچر مشرقی پاکستان بھیجتے تھے جس کا مقصد بنگالی مسلمانوں میں احساسِ محرومی پیدا کرنا تھا جس سے بالخصوص بنگالی نوجوانوں میں نظریہ پاکستان کے خلاف منفی سوچ نے جنم لیا -پاکستان کی معروف سیاسی شخصیت اور سابق وزیر برائے خارجی امور مرحوم اکرم زکی لکھتے ہیں:
”بھارت نے مشرقی پاکستان میں سازشی سرگرمیوں کیلئے کلکتہ میں تحقیقی مراکز قائم کئے اور بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کے لئے گمراہ کن لٹریچر، کتابیں ، تصویریں تیار کرکے مشرقی پاکستان میں بھیجیں جس سے بنگالی نوجوانوں میں اس تاثر نے جنم لیا کہ جس آزادی کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں وہ مغربی پاکستان میں رہن ہوچکی ہیں‘‘-[2]
مزید محمود عالم صدیقی اپنے مضمون (المیہ مشرقی پاکستان ،تاریخی حقائق) میں رقم طراز ہیں:
”بھارت مشرقی پاکستان میں شروع ہی سے علیحدگی پسندوں اور پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی کرتا آیا ہے مشرقی پاکستان کی درسگاہوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں ہندو پروفیسرز اور لیکچررز، اسلام، نظریہ پاکستان اور قومی زبان اردو کے خلاف صف آرا رہے “ -
مشرقی پاکستان میں بھارت کی غیر قانونی فوجی مداخلت کے پیچھے اصل وجہ کیا تھی؟
مشرقی پاکستان میں 1971ء میں بھارت کی فوجی مداخلت غیر قانونی تھی اور در اصل اپنے سیاسی و سیکیورٹی عزائم کی تکمیل کیلیے طاقت کا ناجائز استعمال کرنا تھا-جیساکہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز کے ڈائریکٹرسُبرامنیم (Subrahmanyam) نے 31 مارچ 1971ء کو ایک سیاسی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
“What India must realise that the breakup of Pakistan is in our interest and an opportunity which will never come again”.[3]
1971ء کی پاک-بھارت جنگ در اصل بھارتی بالا دستی کی جنگ تھی:
1971ء کی جنگ میں بھارت کا خیال تھا کہ وہ مشرقی پاکستان پر تسلط کے ذریعے اپنی بالا دستی قائم کرلے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا بلکہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ہندوستان میں شامل ہونے کی بجائے بنگلہ دیش کے قیام کو ترجیح دی جس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے ہوتا ہے:
”جب مکتی باہنی بھارت کی مدد کے باوجود بھی پاکستانی فوج کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی تو 21نومبر 1971ء کو بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے پوری قوت کے ساتھ حملہ کردیا-حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی- پاک فوج سے بھاگے ہوئے بنگالی جوان، افسر اور مکتی باہنی کے دستے اس کے علاوہ تھے- پاک فوج کے مقابلے میں دشمن کی طاقت 7 گنازیادہ تھی-سب سے بڑھ کر منفی پروپیگنڈے کے باعث مقامی آبادی کی مدد پاک فوج کو کم حاصل تھی- چنانچہ 16دسمبر 1971ءکو پاک فوج کو ڈھاکہ ریس کورس میں ہتھیار ڈالنے پڑے- اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت بھارت کی بالادستی کی جنگ تھی جو اس نے پاکستان سے ناراض بنگالیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی تھی- اندرا گاندھی کا خیال تھا کہ مشرق پاکستان پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت کی جھولی میں آگرے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بھارت میں شامل ہونے کی بجائے بنگلہ دیش بنانا پسند کیا“ -[4]
بھارت مغربی پاکستان کوبھی غیر مستحکم کرنے کی چالیں چل رہا تھا:
یہ حقیقت ہے کہ بھارت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت سے ہی مغربی پاکستان کے استحکام کو بھی سبوتاژ کرنے کیلئے خفیہ چالیں چل رہا تھا جس کا انکشاف درج ذیل تحریر سے ہوتا ہے:
پرنسٹن یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے سابق پروفیسر گاری باس لکھتے ہیں کہ:
”جون 1971ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیرِ خارجہ سورسان سنگھ نے اپنے سفارتکاروں کو مغربی پاکستان کو توڑنے کےلئے مختلف طریقوں کے بارے میں خفیہ بات چیت کے دوران کچھ تفصیلات بتائیں- مثلاً یہ کہ بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں بغاوت کو ہوا دی جائے تاکہ یہ علاقے بھی بنگلہ دیش کی پیروی کریں“ -[5]
مکتی باہنی کا خالق کون؟
لندن ٹائمز نےاپنی رپورٹ مورخہ یکم دسمبر 1971ء کو لکھا :
”اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ اگر تمام نہیں تو کم از کم مکتی باہنی کا ایک بڑا حصہ بھارتی فوجیوں پر مشتمل تھا“- بھارت کے سابق وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی نے اطالوی صحافی اوریانہ فلاچی کو انٹرویو (جو واشنگٹن پوسٹ میں 14 دسمبر 1971 کو شائع ہوا) دیتے ہوئے کہا کہ : ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوجی مکتی باہنی کارکنوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے جن کو اپریل سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان بھیجا جانا تھا“ -[6]
محققین کا کہنا ہے کہ یہ انڈین آرمی ہی تھی جس نے 6 ماہ تک مکتی باہنی فورس کو بھرپور ملٹری ٹریننگ دی تاکہ اسے مشرقی پاکستان میں فتنہ و فساد کیلئے تیار کیا جائے جس کی ایک جھلک ہم د رج ذیل پیرا ئے میں دیکھ سکتے ہیں:
’’83سے زیادہ تربیتی کیمپ مشرقی پاکستان کی سرحد سے محض چند کلومیٹر دور بھارتی سرزمین پر قائم کیے گئے تھے-ایک بھارتی میجر جنرل مکتی باہنی کی تربیت کا انچارج بنایا گیا تھا-مکتی باہنی کے افسروں کو باقاعدہ بھارتی فوجی اداروں میں تربیت دی جاتی تھی،جس میں بھارتی فوج کی ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون بھی شامل تھی-بھارتی فوجی انجینئر انہیں بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد کی تربیت دیتے تھے-انہیں مارٹر بمبوں، مشین گنوں اور وائر لیس سیٹوں کے استعمال کی بھی تربیت دی جاتی تھی“ -[7]
”مکتی باہنی ایک چھاپہ مار گوریلا تنظیم تھی جس نے بنگلا دیش کے قیام میں اہم کردار ادا کیا-بھارت کی مدد سے تخلیق کردہ اس دہشتگرد گروہ نے 1971ءمیں قتلِ عام اورخواتین کی عصمت دری کی ‘‘-[8]
نریندر مودی کا اعتراف ِ جرم:
2015 ء میں نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئےکہا کہ:
’’بھارت نے سب سے پہلے اپنی کمانڈو فورس مکتی باہنی کی شکل میں پاکستانی افواج سے لڑنے کیلئے مشرقی پاکستان میں داخل کی تھی-بھارت نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک بنایا‘‘ -
یہ بیان دراصل طاقت کے تکبر میں اعتراف جرم تھا کہ بھارت نے ہی پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے-ایسا بیان عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے جو مستقبل میں بھارت کے مذموم مقاصد کی عکاسی کرتا ہے-اِس وقت بھی نریندرمودی اپنی فاشسٹ پالیسیز اور شدت پسندانہ اقدامات کی وجہ سے بھارت کی ہند و توا سوچ کا حقیقی روپ ہے-
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت بنگالی مسلمانوں کا خیال کیا تھا؟
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت بنگالی مسلمانوں کا خیال تھا کہ وہ مغربی پاکستان سے علیحدہ زیادہ خوشحال زندگی گزارسکیں گے لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پیچھے بھارت کےمذموم عزائم شامل ہیں جو اب بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی، اندورونی سیاست، معیشت اور سماجی و ثقافتی سطح پر بھارتی غلبے کی صورت میں نظر آرہے ہیں -
یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ بھارت میں جس طرح اسلام مخالف موومنٹس چل رہی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزاور اشتعال انگیز مواد ترسیل ہو رہا ہے اس کا اثر ہندستان میں بسنے والے مسلمانوں سے کہیں زیادہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر پڑ رہا ہے-بھارت کے اِنہیں فاشسٹ اور مسلم دشمن اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش اب بھارت کو اس طرح سپورٹ نہیں کرتا جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے نظر آتا تھا -
پاکستان -بنگلہ دیش تعلقات:
(چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ و دیوان آف ریاست جوناگڑھ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے ایک تجزیہ سے اقتباس)
v پاکستان اور بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہیں- یہ ہماری تاریخی بدقسمتی ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مشترکہ مفادات اور دوستانہ تعلقات کو بہت کم نمایاں کیا گیا ہے-بنگلہ دیش اور پاکستان کی تاریخ، نظریہ اور تہذیب و ثقافت میں یکسانیت کا عنصر نمایاں ہے- ہمارا علمی و ادبی ورثہ ایک ہے-اسی طرح بنگلہ دیش اور پاکستان کا صوفی ٹریڈیشن ایک ہے، یعنی جو مشائخ یا سلاسل بنگال کے مسلمانوں کے ہیں وہی ہمارے ہیں اور جو ہمارے ہیں وہی بنگالی مسلمانوں کے ہیں- یہ تمام پہلو ہمارے باہمی برادرانہ تعلقات کی بنیاد ہیں-
v مزید اگر ہم جد و جہدِ آزادی کی بات کریں تو بنگالی و مغربی مسلمانوں نے برطانوی راج اور ہندوتوا جبر و استحصال کے خلاف شانہ بشانہ جدو جہد کی بلکہ انگریز کے خلاف جتنے بڑے محاذ بنگالی مسلمانوں نے لڑے ہیں شاید اتنے بڑے محاذ ہمارے حصے میں نہیں آئے- بنگالی مسلمان Lord Clive جیسے ظالم، درندے اور وحشی کے خلاف برسرِ پیکار رہے ہیں-
v دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہوا تھا جس پربنگالی مسلمان آج بھی فخر محسوس کرتے ہیں-اس کے علاوہ شیرِِ بنگال مولوی فضل الحق نے قراردادِ پاکستان پیش کی جو قیام ِ پاکستان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے-
v تحریک ِ پاکستان میں بنگال کے وکلاء، سیاستدان، خواتین اور سٹوڈنٹس کا بہت بڑا کردار ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا معروف بنگالی رہنما عبدالحمیدخان بھاشانی جو تحریکِ پاکستان کے پر جوش کارکن تھے اوربعد میں پاکستان پارلیمنٹ کے ممبربھی رہے،ان کی خواہش تھی کہ 1971ء کے بعد بھی بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کہلائے- عبد الحمید خان نے اپنے کتابچے ’’پاکستان: لیں گےیا مرجائیں گے‘‘ میں پاکستان سے جس طرح محبت کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنگالی مسلمان کس قدر قیام ِپاکستان کے مطالبہ پر ایمان ویقین کے ساتھ ڈٹے رہے اور صرف پاکستان کوہی اپنا مقصد اور اپنی منزل بنایا-
v حال ہی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو دورہ بنگلہ دیش کے دوران جس جوش و خروش سے خوش آمدید کہا گیا یہ اس چیز کا اظہار تھا کہ دونوں ممالک قریب آرہے ہیں جو انتہائی خوش آئندقدم ہے-
v آج پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہندوستان کی مکروہ پالیسیز کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے- انٹرنیشنل پولیٹکس اور ریجنل پولیٹکس میں بنگلہ دیش اور پاکستان کا مفاد بہت مطابقت رکھتا ہے-دونوں ممالک سارک، OIC اور اقوامِ متحدہ میں ایک دوسرےکی مدد کر سکتے ہیں-اسی طرح پاکستان شنگھائی تعان تنظیم (SCO) کی ممبر شب کے حصول کیلئے بنگلہ دیش کی مدد کرسکتا ہے-
v مزید برآں! پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفارتی تعلقات ایک مثبت و تعمیری سوچ اور جذبے پر مبنی ہونے چاہییں اور اپنی تاریخی غلطیوں کو explore کرنے کی بجائے ہمیں باہمی مشترکہ مفادات سامنے رکھ کر اِن تعلقات کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے-
٭٭٭
[1]RAW in Bangladesh by Abu Rushd, Dhaka, March 2005, Page 303
[2]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/detail/MjczNQ==.html
[3]https://www.issi.org.pk/wp-content/uploads/2017/10/7-SS_Mir_sherbaz_Khetran_No-3_2017.pdf
[4]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/detail/MjczNQ==.html
[5]ایمبیسیڈر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی،سقوطِ ڈھاکہ1971ء ،حقیقت کتنی،افسانہ کتنا، مترجم نزر حسین کاظمی،ص:81،اشاعت،2018ء
[6]ایمبیسیڈر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی،سقوطِ ڈھاکہ1971ء ،حقیقت کتنی،افسانہ کتنا، مترجم نزر حسین کاظمی،ص:89،اشاعت،2018ء
[7]لیفٹیننٹ جنرل کمال متین الدین، مشرقی پاکستان کا بحران :غلطیوں کا المیہ،ص:219-218،واجد علیز لاہور،1994
[8]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/detail/MjM5Nw==.html