اکیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک کو سلامتی کے کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ اپنی استعداد اور اپنے طریقے سے نبر د آزما ہیں- پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جس کی سالمیت اور وقار کو نقصان پہنچانے کیلئے اندرونی اور بیرونی سطح پر کئی ملک دشمن عناصر سرگرم ہیں- یہ بھی حقیقت ہے کہ 11/9 کے بعد پاکستان کی عوام اور افواج پاکستان نےدہشتگردی سمیت دیگر چیلنجز کا جس طرح بہادری و جرأت سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کئی قربانیاں پیش کیں یہ اس امر کا واضح اظہار تھا کہ ہم پاکستان کی سلامتی اور امن کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے-
موجودہ دور میں ملکی و قومی سلامتی کا تصورایک وسیع تناظر میں لیا جاتا ہے جو روایتی اور غیرروایتی سیکیورٹی دونوں کا احاطہ کرتا ہے- روایتی سیکیورٹی میں ریاستی تحفظ و دفاع شامل ہے جبکہ غیرروایتی سیکیورٹی میں ملک کے شہری اور عوام کو درپیش چیلنجز شامل ہیں جیسے پانی کا بحران، ماحولیاتی آلودگی، بنیادی سہولیات اور فوڈ سیکیورٹی وغیرہ- سیکیورٹی کے یہ دونوں پہلو کسی بھی ریاست کی بقاء اورترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر ہیں-
اس وقت پاکستان کو ملکی سلامتی کے کئی ایسے مسائل کا سامنا ہے جن کا ملکی سلامتی و قومی بقاء سے چولی دامن کا ساتھ ہے- مثلاً داخلی مسائل میں کرپشن و بدعنوانی کا بڑا عمل دخل ہے جو دیمک کی طرح ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کررہی ہے جس کی وجہ سے ملکی ساخت پر منفی اثر پڑتا ہے- اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں لیکن کرپشن کے ناسور پر پوری طرح قابو پانے کیلئے مزید ٹھوس اقدمات کرنا ہونگے- اسی طرح دوسر امسئلہ ناخواندگی ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 60 فیصد ہے- یہ بات ذہن میں رہے اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے- اب ٹریڈیشنل یا کنونشنل وار (Conventional war)کی جگہ ہائبرڈ وار (Hybrid war)نے لے لی ہے جس میں ایجوکیشن، ہیلتھ، میڈیا اور ڈائیلاگ کے ذریعے دشمن کسی ملک کی عوام کو ٹارگٹ کرتا ہے تاکہ انہیں اپنے ہی ملک یا اداروں کے خلاف اکسایا جاسکے جیسے انڈیا نے پاکستان پہ ہائبرڈ وار مسلط کر رکھی ہے - حال ہی میں ڈس انفولیب(DisinfoLab) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق انڈیا تقریبا ً ساڑھے 500 سے زائد مختلف فیک نیوز چینلز اور ویب سائٹس بنا کر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈ کررہاتھا جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا - یہ ایک انتہائی سنجیدہ سیکیورٹی مسئلہ ہے اس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان میں تعلیم و تربیت کے فروغ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سماجی سطح پر تربیتی ورکشاپس کے ذریعے ہائبرڈ وار کی آگاہی وشعور اجاگر کرنے ضرورت ہے تاکہ وہ انجانے میں ملک کے خلاف کسی جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں-
پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل میں ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کی تشکیل ایک نظریاتی مملکت کے طور پہ ہوئی ہے ، جس کے نظریہ کی وضاحت مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال اور بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کی ہے-پاکستان ایک جمہوری عمل کے تحت وجود میں آیا جس میں پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کی رائے شامل تھی ، جو در حقیقت ان تمام نیشنلسٹ گروہوں کی بد ترین شکست تھی جو ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے مخالف تھے-اُن مخالفین نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں جو اس مملکت کا کھاتے ہیں (کئی ایسے ہیں جو اس مملکت کو کھاتے ہیں) مگر ان کی زبانیں بھارت کی بولی بولتی ہیں اور ہر محاذ پہ پاکستان مخالف بیانیہ کی حمایت کرتے ہیں-ریاستی سطح پہ بھی اکثربزدلانہ پالیسی اپنائی جاتی ہے اور ایسے ریاست مخالف بیانیہ کا جواب نہیں دیا جاتا-مثال کے طور پہ ہندوستان نے یہ بہتان پھیلا رکھا ہے کہ برصغیر میں سول مسلح کاروائی پاکستان نے شروع کی تھی جب ریاست جموں و کشمیر پہ قبائلی لشکر بھیجے گئے-حالانکہ یہ حقیقت کے بر خلاف ہے- حالانکہ کشمیر میں قبائل 1948 میں گئے –جبکہ! یہ بھارت تھا جس نے نومبر 1947میں ریاست جونا گڑھ میں غیر جوناگڑھی غیر گجراتی انتہا پسند مسلح ہندو جتھے داخل کئے-اسی طرح 1971 کی مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے بھی ریاست پاکستان ہمیشہ خاموش رہی ہے اور بھارتی الزامات کا جواب کبھی نہیں دیا اب جبکہ بین الاقوامی مصنفین کی غیر جانبدارانہ کتابیں شائع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پہ معلومات عام ہوئیں کہ اصل قصور وار تو بھارت ہے اور پاکستانی انتظامیہ و افواج پہ لگائے گئے الزامات جھوٹے ، بے بنیاد اور من گھڑت ہیں تو کسی گوشے کونے سے چند آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن مجموعی طور پہ ایک معذرت خواہانہ پالیسی ہی نظر آتی ہے-دہشتگردی کے بارے بھی دنیا کو صحیح معنوں میں آگاہ نہیں کیا گیا کہ پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردانہ پالیسیوں کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ تھا اور ہے-چاہے قبائلی علاقوں میں جنگ دہشتگردی تھی ، چاہے بلوچستان میں باغیانہ تحریکیں ہیں چاہے کراچی میں تشدد کے اڑھائی عشرے تھے ، ان سب کے پیچھے اس مکار دشمن بھارت کا ہاتھ رہا ہے جس نے کبھی بھی وجودِ پاکستان کو تسلیم نہیں کیا-
مزید پاکستان میں مذہبی،سماجی اور سیاسی سطح پر عدم برداشت اور شدت پسندی توجہ طلب مسئلہ ہے- حال ہی میں سیالکوٹ میں ہونے والا واقعہ ہمارے سامنے ہے-اگرچہ ریاستی سطح پہ پاکستان میں ’’پیغامِ پاکستان بیانیہ‘‘ کے بعد انتہاپسندی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوچکا ہے لیکن چالیس سالہ شدت پسندانہ لہر کے اثرات اب بھی باقی ہیں جن پر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ ملکی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہوگا-حکومت کو چاہیے کہ وہ انتہاپسند ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے سنجید ہ اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ایسامسئلہ درپیش نہ آئے جس سے پاکستان کی سلامتی اور عزت و وقار کو خطرہ ہو- اسی طرح نظامِ عدل میں بہتری سے عوام کا اعتماد بحال کیا جانا چاہئے تاکہ لوگ کسی بھی صحیح یا غلط انفارمیشن کی صورت میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب رجوع کریں-
خارجی مسائل میں پاکستان کواپنے پڑوس میں سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطر ہ بھارت سے ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا- بھارت میں انتہاپسند حکومت ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے جس کی مثال مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جاری کرفیو اور انسانیت سوز مظالم ہیں- خطے میں امن و استحکام کا داعی ہونے کے ناطے پاکستان بھارت کو کئی دفعہ مذاکرات کی پیش کش کرچکا ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی آڑ میں مذاکرات نہیں کرنا چاہتا جس وجہ سے دونوں ممالک کے در میان خلیج مزید بڑھ رہی ہے- عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فاشسٹ بھارت کو انسانیت پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے سے روکے اور پاکستان کو اس کاقانونی حق(کشمیراور جونا گڑھ)دلانے میں غیرجانبدارانہ کردار اداکرے تاکہ خطے میں امن وا ستحکام قائم ہوسکے-
پاکستان کا مغربی بارڈر افغانستان سے جڑا ہے اور ا س وقت افغانستان میں جو انسانی بحران جنم لے رہا ہے اس کا براہ ِ راست اثر پاکستان پرپڑے گااور اگر اسے عالمی برادری کی جانب سے ایڈریس نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں خطے بھر بالخصوص پاکستان کیلئے بڑا سیکیورٹی چیلنج ہوگا- ریاستِ پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کیلئے ہمیشہ سے سنجیدہ ہے اور عالمی طاقتوں کے ذمہ دارانہ کردارکیلئے اپنی سیاسی و سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے- عالمی برادری کی جانب سے سنجیدہ اقدامات سے ہی مسئلہ سر اٹھانے سے قبل حل ہو سکتا ہے-
٭٭٭