مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام 24 دسمبر بروز جمعہ فلیٹیز ہوٹل، لاہور میں ’’قائد اعظمؒ - فکر اور اثر‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا- راجہ یاسر ہمایوں سرفراز (صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم و انفارمیشن ٹیکنالوجی) اس موقع پر مہمان خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے سیشن کی صدارت کی- معزز مقررین میں ڈاکٹر ہمایوں احسان (پرنسپل پاکستان لاء کالج، لاہور) اور میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد مبشر شیخ شامل تھے - آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ ) نے ماڈریٹر کے امور سر انجام دئیے- سیمینار میں سفراء، علماء، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، طلباء، وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-
مقررین کی طرف سے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
قائد اعظمؒ نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1900ء میں کیا جب ان کی عمر صرف 24 سال تھی- وہ ممبئی میں عارضی پریزیڈنسی مجسٹریٹ تھے- ڈاکٹر رئیس احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 6 ماہ میں قائداعظم نے 76 ایسے کیس لڑے جو بعد میں قانونی حوالوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں- اس وقت مسٹر چارلس نے 1500 ماہانہ تنخواہ پر قائد اعظم کو مستقل پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی پیشکش کی لیکن قائد اعظم نے یہ کہہ کر پیشکش ٹھکرا دی کہ میں روزانہ 1500 کمانے کے قابل ہوں- بعد میں تاریخ نے ثابت کیا کہ قائد اعظم اب تک کے سب سے مہنگے وکیل تھے-
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش نے دریافت کیا کہ قائداعظم ٹی بی میں مبتلا ہیں کیا ان کو اپنی بیماری کا علم ہے؟ قائد اعظم نے جواب دیا کہ وہ اس کے بارے میں 12 سال سے جانتے ہیں- یہ بیماری میرے اور ڈاکٹر رتن جی پٹیل کے درمیان ایک راز تھی- اگر یہ راز میرے سیاسی مخالفین کے علم میں آ جاتا تو پاکستان کا قیام ممکن نہ ہوتا- یہ قائداعظم کا وژن اور عزم ہی تھا جس نے انہیں یہ احساس دلایا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی صرف ایک آزاد اور خود مختار ریاست میں ہی بقا ہے- اقبال نے اپنی 1930ء کی تقریر میں پاکستان کا وژن دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست کی ضرورت ہے جہاں وہ اسلام کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں- یہ ایک واضح وژن اور عزم تھا کہ ہمیں کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ایک آزاد ریاست کی ضرورت ہے قائد اعظم نے نہ صرف مسلمانوں کو بالکل تمام اقوام کو حریت اور خودمختاری کا نظریہ دیا-
اسٹینلے وولپرٹ جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح پر کتاب لکھی وہ قائد اعظم کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
“Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation-state. Mohammad Ali Jinnah did all three”.
یہ ایک انگریز مصنف کا قائد اعظم کیلئے کتنا بڑا خراج تحسین ہے- پاکستان کا معرض وجود میں آنا ایک معجزہ تھا اسی طرح قائد اعظم جیسے عظیم لیڈر کا ہمارے درمیان میں ہونا بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھا- آئینی سیاست کا سب سے بڑا قد آور شخص جس پر کبھی جھوٹ خیانت اور وعدہ خلافی کا الزام تک عائد نہ ہوا- جس کی درد مندی، دلیری اور فراست کی کہانیاں تا ابد کہی جاتی رہیں گی-
قائد اعظم سچ کے علمبردار تھے جھوٹ کا ان پر کوئی الزام نہیں ہے، کبھی گاندھی یا نہرو نے یہ نہیں کہا کہ قائد اعظم جھوٹ بولتے ہیں جبکہ وہ اپنے بیانات کو بدلتے رہے اور متعدد بار اپنے بیان سے انحراف کیا- قائد اعظم نے اپنے کردار سے مخالفین کو متاثر کیا، وہ ایک وکیل تھے اور آج ایک وکیل کیلئے رول ماڈل ہیں، وہ ایک سیاستدان تھے اور آج سیاستدانوں کیلئے رول ماڈل ہیں- وہ ایک عظیم لیڈر اور ایک عظیم انسان کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مسلمان تھے جن کے بارے میں مولانا شبیر عثمانی نے کہا کہ برصغیر کا سب سے بڑا مسلمان محمد علی جناح ہیں- قائد اعظم کا دین سے لگاؤ، حضور نبی کریم (ﷺ) سے محبت مثالی تھی-
دنیا آج ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت دیکھے وہاں لنچنگ (قانونی اختیار کے بغیر کسی کو قتل کرنا) ہو رہی ہے، وہاں مسلمانوں پر ظلم ستم کیے جا رہے ہیں، کوئی نوجوان گائے کا ایک پاؤ گوشت لے کر جاتا ہے تو قتل کر دیا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی بدسلوکی اور ناانصافیاں ہو رہی ہیں؛ اقبال کے پیش کردہ دو قومی نظریے نے قیام پاکستان سے قبل ہی ان حالات کی نشاندہی کر دی تھی اور یہ وہ قائد کی سوچ تھی جس نے مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ اور خود مختیار ریاست کا انتخاب کیا- آج پاکستانی اگر تعلیم یافتہ ہیں، آزاد ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ ہے اور عزت و وقار ہے تو یہ سب پاکستان کا فیضان ہے- جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ایک مملکت ہو اور دو قومی نظرے کا بائیکاٹ کیا تھا آج بھارتی پالیسوں اور ہندتوا سوچ نے اس کو واضع کر دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا دو قومی نظریہ ہے - بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے عنقریب ان میں یہ احساس پیدا ہو گا جس کے نیتجے میں ایک اور پاکستان بنے گا-قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان سے انکار کرنے والوں کو ایک دن یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم ہندوستانی ہیں-
پاکستان اُمت مسلمہ کے لیے قائداعظم کا ویژن ہے- جناح نے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں کو دیکھا جیسے تاجر، جنگجو، ہیرو، علماء اور بہت سے دوسرے ہندوستان آئے اور ہندوستانی تہذیب کو مضبوط کیا اور ایک وسیع تر نظریہ رکھنے والے شخص نے ہندوستان کا مستقبل دیکھا اور ہندوستان کے حالات کی سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا شخص محمد علی جناح ہے- دوسری طرف بعض مذہبی علماء نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا اور بعض اشرافیہ کے گروہوں نے بھی پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا- یہ وہ مسائل تھے جن کا قائد اعظم نے سامنا کیا اور ایک جہد مسلسل اپنائے رکھا جس کے نتیجہ میں یہ مملکت خداد حاصل ہوئی- قائداعظم کے سامنے سب سے خوبصورت مثال عرب تہذیب تھی جب حضور نبی کریم (ﷺ)اس سرزمین پر تشریف لائے تو ظلم و ستم کا بازار گرم تھا- آپ کے آنے سے سر زمین عرب پر انصاف و عدل کا ایک منظم نظام قائم ہوا جو آج تک پوری دنیا کیلئے مشعل راہ ہے- قائد اعظم محمد علی جناح کا وژن سچائی، محنت اور اخلاقیات تھیں یہ صفات حضور نبی کریم(ﷺ) کی سیرت سے ملتی ہیں -
پاکستان کے آج کے لوگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جو چیزیں چھوڑنی ہیں ان میں سے ایک امید ہے- ہماری تاریخ میں صلح حدیبیہ جیسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مسلمان مایوسی کا شکار ہوئے تو اس وقت فتح المبین کی قرآنی آیات کا نزول ہوا ہے جس نے مسلمانوں کے اندر کامیابی کی امید پیدا کر دی - اسی طرح جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی اور عالم اسلام کے بیشتر ممالک شکست و ریخت کا شکار تھے اس وقت علامہ اقبال نے ’’طلوع اسلام‘‘ نظم لکھی اور مسلمانوں میں امید کی فضا قائم کی -
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے |
ہم جس تاریخ کے اندر سانس لیتے ہیں اگر ہم اپنے آپ کو اُس تاریخ سے منقطع کردیں تو ہم کچھ نہیں- اس قوم کی 1400برس پہ مشتمل تاریخ جناح ؒ جیسے عظیم لوگوں سے بھری پڑی ہے اور اس قوم کے آنے والے 1400برس بھی کبھی جناحؒ جیسے عظیم لوگوں سے محروم نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ہمارا یقین ہے جو ہمیں زندہ رکھتا ہے- پاکستانی قوم کو قائد اعظم، علامہ اقبال، سر سید احمد علی خان، اورنگ زیب عالمگیر اور بلبن کو منانا چاہیے اور داتا علی ہجویری، محی الدین اجمیری اور سلطان باھُو کو منانا چاہیے - اگر پاکستانی ان ہستیوں کو بھول گئے تو پاکستان کے تصور سے منقطع ہو جائیں گے- پاکستانی قوم کو زیب النساء، نور جہاں اور ان جیسی دیگر شخصیات اور سکالرز کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو اس علاقے کا ادبی ورثہ ہیں- پاکستانی فاطمہ جناح کو کبھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے ثابت کیا کہ جو لوگ حضرت زینبؓ کی پیروی کرتے ہیں وہ اپنے لیڈر کو تنہا نہیں چھوڑتے-
پاکستانی قوم کو اپنی مکمل سیاسی اور ثقافتی تاریخ کو ایک منظم انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے- جان والبرج نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے منطق کی ثقافت کو اس وقت زندہ کیا جب یہ علم دنیا میں خاتمے کے قریب تھا- پاکستانی قوم کو اپنے نظریے سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ قائداعظم کے نظریے پر اپنے آپ کو گامزن کرکے سخت محنت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے-
وقفہ سوال و جواب
دو قومی نظریہ پر اس طرح عمل درآمد نہ ہو سکا جس طرح قائد اعظم چاہتےتھے اور ایک ہی وقت میں 10 کروڑ مسلم آبادی کو قائل کرنا انسانی طور پر ممکن نہیں تھا- اگر ہم اس نظریہ کی مقبولیت کو جاننا چاہیں تو صرف ایک سطر کا جواب ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھارت سے پاکستان کی طرف ہجرت دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی- دوسری بات یہ ہے کہ دو قومی نظریہ کا نفاذ کامیاب ہے اور اب اس کا مستقبل ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس طرح سے نمٹاتے ہیں- ہر چیز کے وقت کے مطابق اس کے نفاذ کے مختلف طریقے ہوتے ہیں-
اب ہماری نسل بہت جدت پسند اور ترقی پسند ذہن کی ہے، حالات بدلنے والے ہیں- ہم نے ففتھ جنریشن وار کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے لیکن ہم مستحکم ہیں-
٭٭٭