مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام 18 فروری 2022 بروز جمعہ ’’مولانا رومی اور علامہ اقبال‘‘ کے موضوع پر لاہور میں سیمینار کا انعقاد کیاگیا- اس موقع پر عزت مآب ڈاکٹر علی ارباش (وزیر مذہبی امور، ترکی) مہمان خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ ) نے افتتاحی کلمات ادا کیے- پیر نور الحق قادری (وفاقی وزیر برائے وزارت مذہبی امور، پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی (وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور) اور پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی) مہمان مقررین تھے- حمزہ افتخار (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے- ترکی کے پندرہ رکنی وفد کے علاوہ اراکینِ صوبائی و قومی اسمبلی، محققین، سکالرز، پروفیسرز، طلباء، وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے سیمینار میں شرکت کی-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
افتتاحی کلمات
صاحبزادہ سلطان احمد علی
(دیوان جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )
یہ ہمارے لیے بڑے اعزا ز کی بات ہے کہ عزت مآب ڈاکٹر علی ارباش،وزیر مذہبی امور ترکی نے لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں امامت کروائی - قیام پاکستان کے بعد استنبول پہلا شہر تھا جسے 1975ء میں لاہور کا ’’ساتھی شہر‘‘ قرار دیا گیا- پاکستان کا خواب دیکھنے والے اورپاکستان کے روحانی بابائے قوم حضرت علامہ محمد اقبال اپنی شاعری میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مولانا جلال الدین رومی سے متاثر تھے- حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ سے علامہ اقبالؒ کا اُنس بچپن ہی میں قائم ہو گیا تھا جب انہوں نے فارسی سیکھی اور بعد میں مولوی میر حسن سے تعلیم حاصل کی- ان کے والد کو روحانی (عارفانہ) لگاؤ تھا اور اکثر شیوخ اور صوفیاء ان کے گھر میں علم تصوف اور اولیاء اللہ کی تعلیمات پر محافل منعقد کرتے تھے- اسی لیے مولانا جلال الدین رومیؒ ،حضرت علامہ قبالؒ کیلئے روحانی اور ادبی نقطہ نظر سے اجنبی نہیں تھے- علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مولانا جلال الدین رومیؒ کی تعلیمات سے استفادہ کیا- علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کے مرض کی تشخیص کی اور ان کے حل کے طور پر مولانا جلال الدین رومیؒ کی تعلیمات کو پیش کیا اور ان کے فلسفہ سے مستفید ہوئے- ایک رباعی میں اقبالؒ کہتے ہیں :
چو رومی در حرم دادم اذان من |
مولانا رومیؒ کی طرح میں نے بھی حرم میں اذان دی اور لوگوں کو تقویٰ کی طرف بلایا انہی سے میں نے زندگی کے اسرار و رموز سیکھے- پرانے زمانے میں جب مصیبت آتی تھی تو وہ وہاں ہوتے تھے- موجودہ دور میں مشکلات سے نمٹنے کیلئے میں یہاں ہوں- علامہ اقبال کا مقدمہ بھی عقل پر روح کی فوقیت کا مقدمہ ہے اور یہی فکرِ رومی بھی ہے- مولانا رومی نے اپنے زمانے میں فطری فلاسفہ کی عقلِ محض پر تنقید کی اور علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں جدیدیت اور سائنٹزم کی مادیت پرستی پر تنقید کی اور باور کروایا کہ انسانی معاشرے کی بنیاد روحانی ہے- دونوں کی فکر واضح کرتی ہے کہ مسلم تہذیب میں قومیت کی بنیاد روحانی اصولوں پر ہے نہ کر رنگ، نسل، جغرافیہ یا زبان پر-
معزز مہمان
پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر
(وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی)
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کی زندگی میں عظیم روحانی انقلاب اس وقت آیا جب وہ اپنے مرشد شمس تبریزؒ سے آشنا ہوئے- اس سے قبل 40 برس کی زندگی میں وہ ایک مفتی، فقیہ اور ایک عالم کے طور پر نظر آتے ہیں- حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی ہو یا غزل، جہاں بھی سورج، روشنی، دن، چاند یا اس طرح کی کوئی ملتی جلتی چیز کا ذکر آیا ہو وہاں مولانا رومی مرشد شمس تبریز کا نام لیتے ہیں- یہی کیفیت ان کے معنوی شاگرد حضرت علامہ اقبالؒ کی ہے- علامہ اقبالؒ پر اقبالیات کا رنگ اس وقت چڑھا جب انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’The development of meta physics in Persia‘‘میونخ یونیورسٹی، جرمنی میں جمع کروایا اور اسی مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی-
مولانا جلال الدین رومیؒ کا ایک قطعہ ہے کہ :
تا در طلب گوهر کانی کانی |
اے انسان اگر تو کسی موتی کی جستجو میں ہے تو وہ موتی تو خود ہے- اگر تو روٹی کے نوالے کی جستجو میں لگا ہوا ہے تو تیری حیثیت بھی روٹی کے ایک نوالے سے بڑھ کر نہیں ہے- اگر تو حکمت اور دانائی کا یہ نکتہ جان لے تو سمجھ جائے گا- تو جس چیز کی تلاش میں لگا ہوا ہے یا جس چیز پر تیری توجہ ہے تو باطنی طور پر خود وہی چیز ہے-
معزز مہمان
پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی
(وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور)
مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ نہ صرف شاعر بلکہ مسلم فکر اور اسلامی تہذیب کے نمائندہ ہیں- پاکستان، ترکی اور عالم اسلام کے لیے ایسی عظیم ہستیوں کا ہونا انتہائی اعزاز اور فخر کی بات ہے- دونوں شخصیات نے ہنگامہ آرائی اور مشکلات کے دور میں زندگی بسر کی لیکن حیران کن طور پر انسانیت کو امید، یقین اور امن کا درس دیا- مولانا رومیؒ نے 13ویں صدی میں جو کچھ حاصل کیا علامہ اقبالؒ نے ان سے تحریک حاصل کرتے ہوئے 20ویں صدی میں حاصل کیا اور مولانا رومیؒ کو اپنا پیشوا بنایا- رومی کی تعلیمات انسان کی عظمت اور رفعت پر مبنی ہیں جبکہ دوسری طرف اقبالؒ کا تصورِخودی رومیؒ کے فلسفہ سے متاثر ہے- علامہ اقبالؒ، مولانا رومیؒ کی طرح کائنات میں تبدیلی اور ارتقاء کے فلسفے کو خدا کی قدرت اور قانون تصور کرتے ہیں- اسلام کا اصل چہرہ وہی ہے جو فکری اور روحانی طور پر صوفیاء، مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ جیسے مفکر، فلسفی اور شاعروں کی رہنمائی سے مسلم معاشرے میں صدیوں سے موجود ہے- ہمیں اسلام کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیلائے جانے والے اسلامو فوبیا اور منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے- اس پرفتن دور میں ہم اپنے نوجوانوں کو ان اقدار، روایات اور نظریات کے بارے میں سکھائیں جس کی بنیاد صوفیاء، مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ نے رکھی اور یہ ایک بہترین طریق زندگی ہے- پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل کے لیے رومیؒ اور اقبالؒ کے افکار بہت اہم ہیں- یہ نظریات باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انسانیت کو عظمت کا احساس فراہم کرتے ہیں، محبت پر مبنی انسانی رشتوں کےلیے بندھن فراہم کرتے ہیں اور انسانی مساوات کی بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں-
معزز مہمان
پیر نورالحق قادری
(وفاقی وزیر، برائے وزارت مذہبی امور )
علامہ اقبال اور مولانا رومی کا تعلق مرشد معنوی اور روحانی استاد کا ہے-جیساکہ اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ:
پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد |
میں تو ایک غبار راہ تھا اور اس غبار راہ کو تعمیر کرنا رومی کا کمال تھا- جب یہ فکر ایک مقام پر پہنچتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس روحانی تعلق میں دونوں(اقبال اور رومی) کی نشست آمنے سامنے ہے، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گفت و شنید کر رہےہیں اور دونوں کی تعلیمات کی بنیاد، معاشرے میں اعتدال اور میانہ روی کے رشتہ پر ہے- جب تک مولانا رومی کی تعلیمات کو مدارس میں پڑھایا جا رہا تھا تب تک مدارس کا نظام درست تھا- زیادہ عرصہ نہیں گزرا بلکہ 1960ءکے اواخر اور 1970ء کے اوائل تک مولانا رومی اور سعدی دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہوا کرتے تھے- پھر ہم رومی اور سعدی دونوں کو بھول گئے- اقبال نے جو پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ مولانا رومی کے تصور، فکر اور انسانیت کے فلسفہ پر تھا- آج والا پاکستان اقبال والے پاکستان سے بالکل مختلف ہے- لیکن ہمیں امید کے دامن کے ساتھ اقبال کے پاکستان کی تعمیر کرنی ہے-
مہمان خصوصی
عزت مآب ڈاکٹر علی ارباش
وزیر مذہبی امور ترکی
علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ نے اناطولیہ سے پاکستان تک کے لوگوں کے دلوں کو محبت کے موتیوں میں پرویا اور اپنے حکیمانہ افکار سے اتحاد، یکجہتی اور بھائی چارے کی آبیاری کی اور علم و حکمت سے ہماری راہوں کو روشن کیا- اقبال عصرِ حاضر کا رومی ہے- اقبال کہتے ہیں جب تک میرے جسم میں روح ہے میں قرآن مجید کا پیروکار ہوں میں آقا کریم (ﷺ) کے قدموں کی خاک ہوں- تصوف سستی، کاہلی اور رہبانیت نہیں ہے بلکہ کام اورمسلسل جدوجہد کا نام ہے، سخاوت کانام ہے- اگر بندے اللہ کے اسیر نہ ہوں تو وہ سونے چاندی کے اسیر ہو جاتے ہیں- مولانا کے مطابق اپنے آپ کو اخلاقی طور پر بلند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ خود کے عیب دیکھے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے- مزیدیہ کہ اچھے اخلاق، دوسروں کی بھلائی کا سوچنا اور شکر ادا کرنے کی تعلیم دیتے رہنا چاہیے - مولانا اور اقبال کہتے ہیں کہ وقت کی مشکلات کی شکایت کرنا بند کرو جو شخص مشکلات سے نہیں گزرتا وہ مکمل انسان نہیں بنتا- کیا تم نہیں جانتے جب دریا کا پانی پتھر سے ٹکرائے تو میٹھا اور لذیذ ہو جاتا ہے- دونوں شخصیات نے اس مقصد کیلئے اپنی تخلیقات لکھیں، لوگوں کو حقیقت شناس بنایا اور کہا نیک اعمال کو انعام کی توقع کیے بغیر قبول کرو اور مسلمان وہ ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے-
تقریب کے اختتام پہ معزز مہمان کو مسلم انسٹیٹیوٹ کی یادگاری شیلڈ پیش کی گئی اور ساتھ دیوان آف جونا گڑھ سٹیٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے علاقائی روایت کی نمائندہ دستار بھی معزز مہمان کو پہنائی-
٭٭٭