مسلم انسٹیٹیوٹ اور ایمبیسی آف آذربائیجان اسلام آباد کے باہمی تعاون سے 24 فروری 2022ء بروز جمعۃ المبارک کو اسلام آباد میں’نسل کُشی اور نسلی قتل عام: انسانیت کے خلاف جرم‘کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا- سیشن کی صدارت جناب سید فخر امام (وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ) نے کی جبکہ جناب عمر ایوب خان (وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور) اس موقع پر مہمان خصوصی تھے- عزت مآب صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اپنے ابتدائی کلمات ادا کیے جبکہ عزت مآب خضر فرہادوف (پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر) نے خصوصی خطاب کیا- ایم حمزہ افتخار (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- سیمینار میں محققین، طلباء، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس کے نمائندوں، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-
مقررین کی طرف سے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
افتتاحی کلمات
صاحبزادہ سلطان احمد علی
(دیوان آف ریاست جوناگڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ تنازعہ بیسویں صدی کے بڑے مسائل میں سے ایک تھا- اگرچہ ورسییلس امن کانفرنس نے نگورنو کاراباخ کو باضابطہ طور پر آذربائیجان ڈیموکریٹک ریپبلک (1920-1918) کے حصے کے طور پر تسلیم کیا مگر آرمینیا نے اس علاقے پر اپنے مطالبے کو ترک نہیں کیا- آرمینیائی قوم پرست اور جنگجو وطن پرست گزشتہ 200 سالوں سے آذربائیجان کے لوگوں کی نسلی کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں- فروری 1992ء میں آرمینیا کی افواج نے آذری آبادی والے قصبے خوجالے پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے کے بعد 106 خواتین اور 83 بچوں سمیت 613 بے گناہ آذربائیجانیوں کا قتل عام کیا گیا- خوجالے نسل کشی 20ویں صدی کا ناقابل فراموش سانحہ ہے جو آرمینیا کی جارحانہ اور مجرمانہ پالیسی کا نتیجہ تھا- بلاشبہ یہ نسل کشی انسانیت کے خلاف ایک جرم تھا- آرمینیائی حکومت پروپیگنڈا اور جنگی تنازعات سے سچائی کو غلط طریقے سے پیش کر کے اپنی بربریت اور مجرمانہ کاروائیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے- ایسے میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سچائی کو عوام تک پہنچائیں اور شیطانی قوتوں کا اسی انداز میں مقابلہ کریں- خوجالے کے قتل عام کو پاکستان سمیت 18 ممالک، امریکہ کی 26 ریاستوں اور اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ ساتھ ترک کونسل نے نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا ہے- پاکستان نے آج تک آرمینیا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا- ہم اپنے آذربائیجان کے بھائیوں کے جائز اور قانونی حق کیلئے ان کی حمایت جاری رکھیں گے-
خصوصی خطاب
عزت مآب خضر فرہادوف
(پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر)
خوجالے نسل کشی نہ صرف آذربائیجان کے خلاف تھی بلکہ یہ انسانیت کے خلاف کی گئی تھی اور یہ ایک جنگی جرم ہے جس میں شہریوں کا قتل عام کیا گیا تھا- 1994ء میں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے، حیدر علیوف (مرحوم) کی قیادت میں آذربائیجان کی پارلیمنٹ نے اس جرم کا سیاسی اور قانونی جائزہ لیا اور ایک قرارداد پیش کی- ترکی اور پاکستان نے ہمیشہ آذربائیجان کے منصفانہ مؤقف کی حمایت کی ہے- آرمینیا کی طرف سے آذربائیجان کے شہریوں کے خلاف جارحیت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا- 27 ستمبر 2020ء میں آرمینیائی افواج نے جان بوجھ کر عام شہریوں اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا- اتنی بربریت کے باوجود ہم نے کبھی بھی آرمینیا کے کسی شہری اور شہری انفراسٹرکچر پر حملہ نہیں کیا- آرمینیا ایک نسل پرست ریاست ہے اور نسل کشی کی پالیسی کے نتیجے میں آرمینیا کی آبادی تین ملین سے کم ہو کر تقریباً ایک ملین رہ گئی ہے- آج خطے کا چہرہ بدل چکا ہے اور ہم اپنے بھائیوں، سٹریٹجک پارٹنرز، اتحادیوں، ترکی، پاکستان اور پڑوسی ممالک کی مدد سے ان علاقوں کی آزادی کے بعد خطے میں خوشحالی لائیں گے- آذربائیجان قانون کی حکمرانی، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اصولوں کی تعمیل پر یقین رکھتا ہے- آذربائیجان کے لوگ انتظامیہ کی ہدایت کے بغیر بھی ترکی اور پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں- ہم ہر معاملے میں دونوں ریاستوں کے ساتھ کھڑے ہیں- ہم ہر فورم پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں اور کشمیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں-
معزز مہمان
عزت مآب احسان مصطفیٰ یردکل
(پاکستان میں ترکی کے سفیر)
پاکستان اور ترکی روز اول سے خوجالے کے قتل عام کی مذمت کرتے آرہے ہیں مگر جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار اس معاملے پر خاموش رہے ہیں- وہ 30 برس تک خاموش رہے اور اسے ایک منجمد تنازعہ قرار دیا- خوجالے تنازعہ کے حوالے سے بین الاقوامی تنظیموں اور دیگر فورمز پر مختلف اجلاس ہوئے لیکن ان سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور اس میں موجود فریقین اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اس دوران یہ معاملہ مزید زیر بحث نہیں لایا گیا- آذربائیجان نے ان مقبوضہ علاقوں کو واپس لے لیا ہے جو گزشتہ 30 برسوں سے بین الاقوامی قانون کے مطابق زیر قبضہ تھے- آذربائیجان نے یہ ایک قابل ستائش کام کیا اور اب ان علاقوں کی تعمیرنو اور بحالی کا کام جاری ہے جنہیں گزشتہ 30 برسوں میں بہت زیادہ مظالم کا سامنا کرنا پڑا- خطے میں امن کے قیام، سلامتی اور دیرپا ترقی کیلئے ہماری کوششیں جاری رہیں گی چنانچہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے- میں پاکستان، پاکستانی عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ وہ آذربائیجان اور ترکی کے بہت مضبوط دوست ہیں ہمارے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لئے متحرک رہتے ہیں-
مہمان خصوصی
جناب عمر ایوب خان
(وفاقی وزیر، اقتصادی امور)
آج ہم خوجالے آذربائیجان میں معصوم لوگوں کے خلاف کیے گئے جرائم اور نسل کشی کو یاد کر رہے ہیں- ہندوستان کے غیرقانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادی میں رونما ہونے والے متعدد واقعات اور خوجالے کا سانحہ ایک ہی نوعیت کا ہے-آرمینیا کا آذربائیجان پر مسلط کردہ تنازعہ 26 فروری 1992ء اور حالیہ تنازعہ 2020ء میں کیا فرق تھا؟ اس وقت سے لے کر آج تک آذربائیجان میں جو کچھ بدلا ہے وہ فوجی اور دفاعی طاقت ہے- وقت بہت بدل چکا ہے، آذربائیجان اب اپنے دفاع کیلئے مضبوط دفاعی نظام اور ہتھیار رکھتا ہے- آذربائیجان ڈرون ٹیکنالوجی اور طاقتور ہتھیاروں کے نظام سے اپنا دفاع کرنے کے قابل ہو گیا ہے- کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت اس کی مضبوط قومی ہم آہنگی، مضبوط معیشت اور قابل اعتماد دفاعی نظام پر مبنی ہوتی ہے- اگر ان میں سے کسی کو بھی ناک آؤٹ کر دیا جائے تو ملکی اور علاقائی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے- پاکستان کے پاس مضبوط قابل اعتماد دفاعی نظام، بشمول روایتی ہتھیار اور غیر روایتی جوہری دفاعی نظام ہے جو ملک کی دفاعی اور علاقائی سالمیت کو سنبھالے ہوئے ہے- ہمیں ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی- اس کے ساتھ ساتھ ہمیں فوڈ ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی جس سے ہم اپنے آپ کو مضبوط کر سکیں گے- اس طرح ہم خوجالے جیسی نسل کشی اور مقبوضہ کشمیر میں ہر روز ہونے والی نسل کشی سے بچ سکیں گے-
صدارتی کلمات
عزت مآب سید فخر امام
(وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ)
آج ہم یہاں شہداء کی یاد منانے کیلئے موجود ہیں، جسے ہم انسانی تاریخ کا ایک بہت دردناک اور افسوسناک قتل عام کہتے ہیں- میں پچھلے 2000 سالوں کی ریکارڈ شدہ تاریخ کے قتل عام کو دیکھ رہا تھا اور کچھ بہت بڑے قتل عام ہوئے ہیں- جدید دور میں اسرائیلی اور ہندوستانی ریاست بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں تاکہ ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر اور اسرائیلی فلسطین کے زیر قبضہ علاقوں کے معصوم شہریوں میں خوف پیدا کر سکیں- کشمیر وہ جگہ ہے جہاں 9لاکھ بھارتی فوجی 80 لاکھ کشمیریوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں- یہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے جہاں ظلم، تشدد اور عصمت دری کو ریاستی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے- دنیا کیا سوچ رہی ہے؟ تمام ممالک اپنے معاشی، قومی، ریاستی اور ذاتی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں- میں ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اس طرح کے دہشتگردانہ طریقوں سے قتل کر دیئے گئے لیکن وہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹے رہے- سب سے زیادہ وہ لوگ دنیا پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں جو ان تمام شعبہ جات میں اپنے آپ کو مضبوط کر رہے ہیں، چاہے وہ کاروبار ہو، ٹیکنالوجی ہو، جنگ ہو، سائبر وار ہو یا پھر ڈیجیٹلائزیشن ہو، جس کے ذریعے معیشتیں لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتی ہیں- ہمیں ان پہلوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہمیں امید ہے کہ پاکستانی عوام کا مستقبل روشن ہے-
معزز مہمان
ڈاکٹر محمد علی شاہ
(وائس چانسلر، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)
ہم انسانیت کے خلاف تمام جرائم کی مذمت کرتے ہیں- ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ میں کیا ہوا- ہم سب اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ جو بھی اس جرم میں ملوث ہے اسے سزا ملنی چاہیے- اس وقت بھارت کے غیر قانونی قبضہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایسے جرائم کی ہی مثال ہے- ہم اس کے بھی گواہ ہیں کہ ہندوستان کے بہت سے دوسرے حصوں میں کیا ہو رہا ہے- حکومت پاکستان ہمیشہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والے جرائم کی مذمت کرتی ہے کیونکہ ہم امن کے علمبردار ہیں- اسی طرح صوفی تعلیم ہماری طاقت کا ذریعہ ہے- اس کی مثال حضرت سلطان باھُوؒ کی شاعری ہے- ان کی شاعری سے پی ایچ ڈی کے ہزاروں مقالے تیار کیے جا سکتے ہیں- یہ صوفی تبلیغ کا سائنسی یا شعوری علم ہے- صوفیاء ہمیشہ انسانیت کیلئے محبت اور احترام کی تبلیغ کرتے ہیں اور امن کا پیغام دیتے ہیں- اگر ہم کسی بھی قسم کی نسل کشی یا انسانیت کے خلاف جرم کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے خطے میں صوفی تبلیغ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے- امن کے اس پیغام کو پھیلائیں جو صوفیاء نے پوری دنیا میں دیا- ہم سب آذربائیجان کے عوام کے ساتھ ہیں اور اس کے خلاف آرمینیائی بربریت کی مذمت کرتے ہیں- ہماری ریاست کا اصولی مؤقف امن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب تک متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا ہم آرمینیا کو کبھی قبول نہیں کریں گے-
سفارشات
سیمینار میں ہونے والی بحث سے اخذ کردہ سفارشات :
- تمام بین الاقوامی اداروں اور ریاستوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خوجالے کے قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کریں کیونکہ یہ واقعہ قانون کے تمام اصولوں کے مطابق نسل کشی قرارپاتا ہے-
- خوجالے میں ہونے والے انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم کو یاد رکھا جائے، کیونکہ مجرموں کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ کسی بھی صورت میں استثنیٰ کا کلچر غالب نہیں آسکتا اور جلد انصاف کی فتح ہوگی-
- خوجالے نسل کشی کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کے لیے اقوامِ متحدہ کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے -
- اقوام متحدہ کی توجہ نسل کشی کی روک تھام اور تحفظ کی ذمہ داری پر مبذول ہونی چاہئے تاکہ آرمینیا کو خوجالے نسل کشی کے متاثرین کو معاوضہ دینے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکے-
- آرمینیائی حکام سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں اور ان جرائم کی تحقیقات اور ٹرائل میں سہولت فراہم کریں-
- اسلامی تعاون تنظیم کا انسانی حقوق کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے-
- مسلم دنیا خوجالے نسل کشی کا معاوضہ ادا کرنے کے لیے آرمینیا پر سفارتی دباؤ ڈالے-
- مسلم دنیا فلسطین، مقبوضہ جموں و کشمیر اور میانمار کی ریاست اراکان میں جاری نسلی کشی کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے-
- انسانی حقوق کی تنظیمیں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے اپنا فعال کردار ادا کریں خاص طور پر خوجالے نسل کشی، بھارتی گجرات کے قتل عام، مقبوضہ کشمیر، میانمار کی ریاست اراکان میں ہونے والی نسل کشی کے ملزمان کو کٹہرے میں لایا جائے-
- ہر انفرادی ریاست کو ذمہ داری کا اعادہ کرنا چاہیے کہ وہ ملک کی سول سوسائٹیز کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کیلئے سرمایہ کاری کرے تاکہ مقامی کمیونٹی کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور مذہبی گروہوں کو شامل کیا جا سکے تاکہ لوگوں کے خلاف جرائم اور انسانی نسل کشی کی روک تھام کے لیے زیادہ مربوط اور جامع طریقہ کار کو یقینی بنایا جا سکے-
11. مظالم اور جرائم کی بروقت روک تھام کے لئےان کمیونٹیز کےساتھ براہ راست کام کیا جائے جو تنازعات سے متاثر ہو سکتی ہیں-
- بین الاقوامی میڈیا خوجالے نسل کشی کو اجاگر کرے اور ہر سال 26 فروری کو اس دن کی یاد منائے-
13. نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کی اہمیت کا اعادہ کیاجاناچاہیے اور ممبر پارٹیوں کی طرف سے مذکورہ کنونشن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے-
٭٭٭