UN Thank You To Combat Islamophobia

UN Thank You To Combat Islamophobia

UN Thank You To Combat Islamophobia

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مئی 2022

مسلم انسٹیٹیوٹ نے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف نفرت انگیزاور اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے ،اقوام عالم کو اس مسئلے پہ متحد کرنے اور اس کے متعلق شعور بیدار کرنے کیلئے انسدادِ اسلاموفوبیا کی مہم کا آغاز کر دیا ہے- مسلم انسٹیٹیوٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال طور پر مختلف سرگرمیوں میں مسلم اور غیر مسلم اسکالرز کو اکٹھا کر کے اسلامو فوبیا کے مسئلے پر اپنی فکری رائے دیتا رہا ہے- اسی تسلسل میں مسلم انسٹیٹیوٹ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کے حوالے سے ’’یو این تھینک یو‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کا ایک انسانی ماڈل ترتیب دیا- یہ تقریب پاکستان کے ضلع جھنگ میں دربار حضرت سلطان باھوؒ پہ منعقد ہوئی- انسانی ماڈل کے علاوہ اقوام متحدہ کے لوگوں کے اردگرد57 مسلم ممالک کے جھنڈےبھی آویزاں تھے- شرکاء نے سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھے اور ’’شکریہ اقوام متحدہ ‘‘ اور ’’اسلام امن ہے‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلندکئے- یہ تقریب مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی عزت مآب حضرت سلطان محمد علی صاحب کی سرپرستی میں منعقد ہوئی- اس موقع پر چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ و دیوان آف ریاست جوناگڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے بھی خطاب کیا- تقریب میں میڈیا، سول سوسائٹی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی- اس تقریب کو بہت سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا چینلز نے کورکیا-

انسانی ماڈل بنا کر پاکستانی عوام نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں پر اظہار تشکر کرنے کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا- او آئی سی کے رکن ممالک خصوصاً پاکستان نے تقریباً 2 ارب مسلمانوں کی تشویش کو اجاگر کرنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا پر قرارداد منظور کرانے کیلئے فعال کردار ادا کیا ہے-

اسلامو فوبیا کا بڑھتا ہوا رجحان انتہائی خطرناک اور دنیا میں امن کے فروغ میں رکاوٹ ہے- اسلامو فوبیا بنیادی طور پر مغرب میں پھیل رہا ہے اور یہ 11/9سے بھی بہت پہلے کا ہے- میڈیا میں مسلمانوں کو صرف دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے سے لے کر مشرق وسطیٰ میں کبھی نہ ختم ہونے والی جارحیت تک جس طرح سے مسلمان پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، پوری دنیا میں واضح طور پر مسلم مخالف تعصب پایا جاتا ہے- اسلام کے خلاف نفرت ایک تلخ حقیقت ہے- مسلمانوں کو اکثر غیر قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ کچھ ممالک میں انہیں آزادی سے اپنے لباس کا انتخاب کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے- اسلامو فوبیا مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہا ہے چاہے وہ ثقافتی ہوں ، نظریاتی ہوں یا ساختی ہوں خطرناک طور پر اسلامو فوبیا نے مسلمانوں پر مسلح حملوں کی شکل اختیار کر لی ہے-

عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کے عروج اور اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر مندرجہ ذیل مضمرات سامنے آئے ہیں:

  • دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا
  • دنیا کے کئی حصوں میں مسلمان مہاجرین اور تارکین وطن پر پابندی لگانا
  • کچھ ریاستوں میں حجاب پر پابندی
  • مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے
  • مسلمان خاندانوں پر حملہ کرنا وغیرہ-

 15 مارچ، جس دن کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی دن کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، اس دن کی ایک اندوہناک نسبت اس واقعہ سے ہے جب 2019 ءمیں، ایک انتہا پسند نے نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے میں 50 سے زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا- کرائسٹ چرچ مسجد کے واقعے کے بعد دنیا بھر میں متعدد اسلامو فوبک حملے ہوئے ہیں- اس دن کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی ضرورت کی سالانہ یاد دہانی کے طور پر منایا جائے گا-

جدید دنیا میں پرامن بقائے باہمی کے لیے کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی معاشرہ وقت کی اہم ضرورت ہے- تاہم، ایسی دنیا میں جہاں اسلام کے خلاف نفرت غالب ہو، بقائے باہمی ایک نہ تعبیرہونےوالا خواب ہے-

تقریب کے دوران مسلم انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین اور دیوان ریاستِ جونا گڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے دن کا مختص ہونا اس ذہنیت کی طرف توجہ دلانے اور اس سے نمٹنے میں مدد کرے گا جو تمام مسلمانوں کو مشتبہ تصور کرتا ہے اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کو معمول بناتا ہے- اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کی یاد منانے سے امید ہے کہ اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک پر زور دے گا کہ وہ اس قرارداد پر مکمل عمل درآمد کریں- اسلاموفوبیا کے خلاف پہلے ہی دنیا بھر کے سربراہان مملکت کی جانب سے اسلاموفوبیا کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو کہ ایک مثبت علامت ہے- او آئی سی اسلام کے خلاف نفرت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک معاہدہ یا کنونشن بھی ترتیب دے سکتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ ممالک کو شامل کیا جا سکتا ہے- بعد ازاں غیر مسلم ریاستوں کو اس معاہدے کی توثیق کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر