۲۲مارچ ۶۱۰۲ ئ کو مسلم انسٹی ٹیوٹ اور آئی آر ڈی ﴿IRD﴾، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیر اہتمام یوم پاکستان کی مناسبت سے ’’تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان‘‘ کے عنوان سے اسلامک یونیورسٹی فیصل مسجد کیمپس میں سمینار کا انعقاد کیا گیا- سمینار کا مقصد ’’دو قومی نظریہ‘‘ ، اس کی اہمیت ، افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو تحریکِ پاکستان کے جذبے سے روشناس کروانا تھا تاکہ تعمیر پاکستان ممکن ہوسکے- سیمینار کے مہمان خصوصی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سینیٹر عبد القیوم ملک تھے جبکہ مقررین میں ڈاکٹر معصوم یسیٰن زئی ، ﴿ریکٹر اسلامک یونیورسٹی﴾، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، سینیٹراکرم ذکی، سابق وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب خان ، ڈائریکٹر آئی آر ڈی ڈاکٹر طالب حسین سیال، شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق احمد ڈار اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ ایس ایچ قادری شامل تھے-
سیمینار میں غیر ملکی وفود، یونی وَرسٹیز کے پروفیسر و طلبا، مختلف اداروں کے محققین، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے حصہ لیا- یومِ پاکستان کی مناسبت سے تقریب کا آغاز قومی ترانہ سے ہوا-
مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
تحریکِ پاکستان کا روحِ رواں یہ جذبہ تھا کہ ہم آزاد مملکت میں اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کریں گے، جہاں سماجی انصاف ہوگا، تمام شہریوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر ہوں گی- علامہ اقبال نے اپنے خطبہ میں کہا تھا:-
"It is not the unity of language or country or the identity of econimc interest that constitute the basic principles of our Nationality, it is because we all believe in a certain view of this universe that we are members of a society founded by the Prophet (PBUH)."
’’یہ کسی زبان یا ملک کا اتحاد یا کسی معاشی مفاد کا تشخص نہیں جو ہماری قومیت کے بنیادی اصول ہیں ، کیونکہ ہم سب اس کائنات کے بارے میں مخصوص تصور رکھتے ہیں کہ ہم سب اس معاشرہ کے افراد ہیں جس کی بنیاد پیغمبر اسلام ﴿ﷺ﴾ نے رکھی‘‘-
اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے ۸۴۹۱ئ میں ایک پیغام کے ذریعے ہماری قومیت کی اور پاکستان کے طرزِ حکومت کی اس طرح وضاحت کی:-
"Pakistan constitution should incorporate the essential principles of Islam, which are as good and relevant in a day as they were Thirteen hundred years ago".
’’پاکستان کے قانون میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو ضرور اپنایا جائے، جو آج کے دن بھی ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے 1400سو سال قبل ‘‘-
قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت ہو-
دنیا کے اندر کئی تحرکیں اٹھتی ہیں لیکن کامیابی کا سہرا صرف اسے نصیب ہوتا ہے جس کے پسِ منظر میں زمینی حقائق ہوتے ہیں- تحریکِ پاکستان بھی اگر کامیاب ہوئی ہے تو اس کے پیچھے بھی زمینی حقائق تھے اور ان زمینی حقائق میںسے ایک بہت بڑی حقیقت جسے Ignore نہیں کیا جا سکتا وہ ہے دو قومی نظریہ ﴿Two Nation Theory﴾ - اورنگزیب عالمگیر کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کو برصغیر کا عظیم لیڈر تسلیم کیا گیا- قائداعظم نے اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’ہمارا شمار ان قوموں میں ہوتا ہے جو گِر چکی ہیں اور ہم نے نہایت ہی برے دن دیکھے ہیں- اٹھارویں اور انیس ویں صدی کی زبردست تباہی میں مسلمان خاکستر ہو چکے تھے مغل سلطنت کے خاتمہ سے لے کر اب تک برصغیر کے مسلمانوں کو اتنی بڑی ذمہ داری سے کبھی واسطہ نہیں پڑا جو پاکستان کی ذمہ داری قبول کرنے سے پیدا ہوا ہے- ہم نے اس برِصغیر میں 800 سال تک حکومت کی ہے اور ہمارا مطالبہ ہندئوں سے نہیں کہ برِصغیر کبھی ہندئوں کی عمل داری میں نہیں رہا، صرف مسلمانوں ہی نے اس خطہِ زمین پر حکومت کی ہے- انگریزوں نے اس برصغیر کو مسلمانوں سے حاصل کیا تھا، اس لیے ہمارا مطالبہ بھی انگریز سے ہے کہ اب یہ ملک ان کے قبضہ میں ہے ‘‘-
تقسیم کے وقت اس پورے خطہ کا اقتدار ہندئوں کے ہاتھ میں آنے کا مطلب تھا مسلمانوں کا خاتمہ، لیکن اس خاتمے سے مراد مسلمانوں کے وجود کا خاتمہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہندوستان میں بھی موجود ہیں اور وہاں پاکستان سے زیادہ موجود ہیں، اس خاتمہ سے مراد مسلمانوں کی اعلیٰ اَقدار کا خاتمہ تھا، جس کے ناپید ہونے کا ڈر مصورِ پاکستان علامہ اقبال کو بڑی شدت سے تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں یوں فرمایا:-
"چوں کہ میں یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ نسل اور وطن پہ مبنی نظریۂِ قومیت عالمِ اسلام میں داخل ہوتا جا رہا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں اہلِ اسلام اپنے مخصوص تصورِ انسانیت کی عالمگیریت سے کم نگاہی کر کے علاقائی قومیت کی نظر فریبی کے دلدادہ نہ ہو جائیں اس لیے ایک مسلمان اور محبِ انسانیت ہونے کی حیثیت سے میں اس کو اپنا فریضہ خیال کرتا ہوں کہ انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلائوں اور عالمِ انسانیت کے ارتقا کے لیے ان کا کیا کردار ہوگا وہ انہیں یاد دلائوں‘‘-
علامہ اقبال اگرچہ قیامِ پاکستان سے کئی سال قبل وفات پا گئے تھے لیکن آپ کی فکر نے قائداعظم اور برصغیر کی مسلم قیادت پر گہرا اثر چھوڑا - قائداعظم نے بذات خود اس بات کا اعتراف کیا جیسا کے آپ علامہ اقبال کے خطوط کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
’’ان ﴿اقبال﴾ کے خیالات میرے خیالات سے مطابقت رکھتے تھے او رانڈیا کو درپیش قانونی پیچیدگیوں کا بغور مطالعہ و جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی بالآخر اسی نتیجہ کی طرف مائل کیا جوانڈیا کے مسلمانوں کی متفقہ امنگ کی صورت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے طور پہ پیش کیا گیا جس کو بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا جو کہ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ئ کو منظور ہوئی‘‘-
مقررین نے کہا کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کے ۲۹۳ دن قیادت کے اعتبار سے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ہمیں تعمیرِ پاکستان کے لیے قائد کے اصول اور نظم و ضبط کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہوگا اور قائد کے فرمان کہ ’’کام کام اور بس کام‘‘ کو اپنا شعار بنانا ہوگا اور قائد کے فرمودات کی روشنی میں قانون کی بالا دستی، داخلی معاملات اور خارجہ پالیسی کو وضع کرنا ہوگا تاکہ اقوامِ عالم میں پاکستان سربلند اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا سکے-
مقررین کا کہنا تھاکہ ہم نے انگریز اور ہندو سامراج سے تو آزادی حاصل کر لی ہے لیکن ہمیں جمہوریت اور نظریاتی اَساس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بدعنوان اور نا اہل اشرافیہ سے بھی جان چھڑانا ہوگی- قوم کو تعلیم اور تحقیق کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی اپنانا ہوگا اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوگا- ضلعی انتظامیہ کو فعال اور طاقتور بنا کے ہی تعمیرِ پاکستان کر سکتے ہیں-
مقررین نے چند سوالات اٹھائے :-
کیا ہم تعمیرِ پاکستان میں کامیاب ہوئے؟
کیا ہم نے اپنی نوجوان نسل کو تعمیرِ پاکستان کے لیے تیار کیا؟
کیا ہم نوجوان نسل کو اس جذبے سے روشناس کروا سکے جس کے تحت پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا؟
تعمیرِ پاکستان کے لیے تحریک پاکستان کی رُوح کو اجاگر کرتے ہوئے تعلیم اور تحقیق کو اپنا شعار بنانا ہوگا- پاکستان میں ۳۵ ملین نوجوان موجود ہیں جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں- ہمیں قومی یکجہتی ، بین المسالک ہم آہنگی، برداشت، امن اور محبت کے پیغام کو فروغ دیتے ہوئے اسلام کو اپنے دلوں اور گھروں میں داخل کرنا ہوگا تاکہ سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پا سکے اور کسی بھی فرد کے ساتھ ناانصافی کی گنجائش ختم ہو جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ پاکستان ترقی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے ہو- پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں، پاکستان کی تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پیش آئے گی-
۲۲مارچ ۶۱۰۲ ئ کو مسلم انسٹی ٹیوٹ اور آئی آر ڈی ﴿IRD﴾، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیر اہتمام یوم پاکستان کی مناسبت سے ’’تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان‘‘ کے عنوان سے اسلامک یونیورسٹی فیصل مسجد کیمپس میں سمینار کا انعقاد کیا گیا- سمینار کا مقصد ’’دو قومی نظریہ‘‘ ، اس کی اہمیت ، افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو تحریکِ پاکستان کے جذبے سے روشناس کروانا تھا تاکہ تعمیر پاکستان ممکن ہوسکے- سیمینار کے مہمان خصوصی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سینیٹر عبد القیوم ملک تھے جبکہ مقررین میں ڈاکٹر معصوم یسیٰن زئی ، ﴿ریکٹر اسلامک یونیورسٹی﴾، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، سینیٹراکرم ذکی، سابق وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب خان ، ڈائریکٹر آئی آر ڈی ڈاکٹر طالب حسین سیال، شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق احمد ڈار اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ ایس ایچ قادری شامل تھے-
سیمینار میں غیر ملکی وفود، یونی وَرسٹیز کے پروفیسر و طلبا، مختلف اداروں کے محققین، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے حصہ لیا- یومِ پاکستان کی مناسبت سے تقریب کا آغاز قومی ترانہ سے ہوا-
مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
تحریکِ پاکستان کا روحِ رواں یہ جذبہ تھا کہ ہم آزاد مملکت میں اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کریں گے، جہاں سماجی انصاف ہوگا، تمام شہریوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر ہوں گی- علامہ اقبال نے اپنے خطبہ میں کہا تھا:-
"It is not the unity of language or country or the identity of econimc interest that constitute the basic principles of our Nationality, it is because we all believe in a certain view of this universe that we are members of a society founded by the Prophet (PBUH)."
’’یہ کسی زبان یا ملک کا اتحاد یا کسی معاشی مفاد کا تشخص نہیں جو ہماری قومیت کے بنیادی اصول ہیں ، کیونکہ ہم سب اس کائنات کے بارے میں مخصوص تصور رکھتے ہیں کہ ہم سب اس معاشرہ کے افراد ہیں جس کی بنیاد پیغمبر اسلام ﴿
ö﴾ نے رکھی‘‘-
اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے ۸۴۹۱ئ میں ایک پیغام کے ذریعے ہماری قومیت کی اور پاکستان کے طرزِ حکومت کی اس طرح وضاحت کی:-
"Pakistan constitution should incorporate the essential principles of Islam, which are as good and relevant in a day as they were Thirteen hundred years ago".
’’پاکستان کے قانون میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو ضرور اپنایا جائے، جو آج کے دن بھی ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے 1400سو سال قبل ‘‘-
قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت ہو-
دنیا کے اندر کئی تحرکیں اٹھتی ہیں لیکن کامیابی کا سہرا صرف اسے نصیب ہوتا ہے جس کے پسِ منظر میں زمینی حقائق ہوتے ہیں- تحریکِ پاکستان بھی اگر کامیاب ہوئی ہے تو اس کے پیچھے بھی زمینی حقائق تھے اور ان زمینی حقائق میںسے ایک بہت بڑی حقیقت جسے Ignore نہیں کیا جا سکتا وہ ہے دو قومی نظریہ ﴿Two Nation Theory﴾ - اورنگزیب عالمگیر کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کو برصغیر کا عظیم لیڈر تسلیم کیا گیا- قائداعظم نے اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’ہمارا شمار ان قوموں میں ہوتا ہے جو گِر چکی ہیں اور ہم نے نہایت ہی برے دن دیکھے ہیں- اٹھارویں اور انیس ویں صدی کی زبردست تباہی میں مسلمان خاکستر ہو چکے تھے مغل سلطنت کے خاتمہ سے لے کر اب تک برصغیر کے مسلمانوں کو اتنی بڑی ذمہ داری سے کبھی واسطہ نہیں پڑا جو پاکستان کی ذمہ داری قبول کرنے سے پیدا ہوا ہے- ہم نے اس برِصغیر میں 800 سال تک حکومت کی ہے اور ہمارا مطالبہ ہندئوں سے نہیں کہ برِصغیر کبھی ہندئوں کی عمل داری میں نہیں رہا، صرف مسلمانوں ہی نے اس خطہِ زمین پر حکومت کی ہے- انگریزوں نے اس برصغیر کو مسلمانوں سے حاصل کیا تھا، اس لیے ہمارا مطالبہ بھی انگریز سے ہے کہ اب یہ ملک ان کے قبضہ میں ہے ‘‘-
تقسیم کے وقت اس پورے خطہ کا اقتدار ہندئوں کے ہاتھ میں آنے کا مطلب تھا مسلمانوں کا خاتمہ، لیکن اس خاتمے سے مراد مسلمانوں کے وجود کا خاتمہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہندوستان میں بھی موجود ہیں اور وہاں پاکستان سے زیادہ موجود ہیں، اس خاتمہ سے مراد مسلمانوں کی اعلیٰ اَقدار کا خاتمہ تھا، جس کے ناپید ہونے کا ڈر مصورِ پاکستان علامہ اقبال کو بڑی شدت سے تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں یوں فرمایا:-
"چوں کہ میں یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ نسل اور وطن پہ مبنی نظریۂِ قومیت عالمِ اسلام میں داخل ہوتا جا رہا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں اہلِ اسلام اپنے مخصوص تصورِ انسانیت کی عالمگیریت سے کم نگاہی کر کے علاقائی قومیت کی نظر فریبی کے دلدادہ نہ ہو جائیں اس لیے ایک مسلمان اور محبِ انسانیت ہونے کی حیثیت سے میں اس کو اپنا فریضہ خیال کرتا ہوں کہ انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلائوں اور عالمِ انسانیت کے ارتقا کے لیے ان کا کیا کردار ہوگا وہ انہیں یاد دلائوں‘‘-
علامہ اقبال اگرچہ قیامِ پاکستان سے کئی سال قبل وفات پا گئے تھے لیکن آپ کی فکر نے قائداعظم اور برصغیر کی مسلم قیادت پر گہرا اثر چھوڑا - قائداعظم نے بذات خود اس بات کا اعتراف کیا جیسا کے آپ علامہ اقبال کے خطوط کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
’’ان ﴿اقبال﴾ کے خیالات میرے خیالات سے مطابقت رکھتے تھے او رانڈیا کو درپیش قانونی پیچیدگیوں کا بغور مطالعہ و جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی بالآخر اسی نتیجہ کی طرف مائل کیا جوانڈیا کے مسلمانوں کی متفقہ امنگ کی صورت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے طور پہ پیش کیا گیا جس کو بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا جو کہ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ئ کو منظور ہوئی‘‘-
مقررین نے کہا کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کے ۲۹۳ دن قیادت کے اعتبار سے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ہمیں تعمیرِ پاکستان کے لیے قائد کے اصول اور نظم و ضبط کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہوگا اور قائد کے فرمان کہ ’’کام کام اور بس کام‘‘ کو اپنا شعار بنانا ہوگا اور قائد کے فرمودات کی روشنی میں قانون کی بالا دستی، داخلی معاملات اور خارجہ پالیسی کو وضع کرنا ہوگا تاکہ اقوامِ عالم میں پاکستان سربلند اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا سکے-
مقررین کا کہنا تھاکہ ہم نے انگریز اور ہندو سامراج سے تو آزادی حاصل کر لی ہے لیکن ہمیں جمہوریت اور نظریاتی اَساس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بدعنوان اور نا اہل اشرافیہ سے بھی جان چھڑانا ہوگی- قوم کو تعلیم اور تحقیق کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی اپنانا ہوگا اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوگا- ضلعی انتظامیہ کو فعال اور طاقتور بنا کے ہی تعمیرِ پاکستان کر سکتے ہیں-
مقررین نے چند سوالات اٹھائے :-
کیا ہم تعمیرِ پاکستان میں کامیاب ہوئے؟
کیا ہم نے اپنی نوجوان نسل کو تعمیرِ پاکستان کے لیے تیار کیا؟
کیا ہم نوجوان نسل کو اس جذبے سے روشناس کروا سکے جس کے تحت پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا؟
تعمیرِ پاکستان کے لیے تحریک پاکستان کی رُوح کو اجاگر کرتے ہوئے تعلیم اور تحقیق کو اپنا شعار بنانا ہوگا- پاکستان میں ۳۵ ملین نوجوان موجود ہیں جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں- ہمیں قومی یکجہتی ، بین المسالک ہم آہنگی، برداشت، امن اور محبت کے پیغام کو فروغ دیتے ہوئے اسلام کو اپنے دلوں اور گھروں میں داخل کرنا ہوگا تاکہ سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پا سکے اور کسی بھی فرد کے ساتھ ناانصافی کی گنجائش ختم ہو جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ پاکستان ترقی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے ہو- پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں، پاکستان کی تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پیش آئے گی-