نظام شمسی (Solar System) میں وہ سیارے شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائے جسے ہم سائنسی زبان میں قدرتی سیارے (Natural Satellite) کہتے ہیں- نظام شمسی میں تقریباً 8قدرتی سیارے ہیں -جس میں مریخ (Mars)، زحل (Saturn)، یورینس (Uranus) ، زہرہ (Venus)، عطارد (Mercury)، مشتری (Jupiter)، نیپچون (Neptune) اور زمین(Earth) شامل ہیں- نظام شمسی میں ہر سیارے کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن سورج ایک واحد سیارہ ہے جو نظام شمسی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور یہ اس نظام کے وسط (درمیان) میں واقع ہےاس لئے اس نظام کو نظام شمسی کہا جاتا ہے-
سورج کیا ہے؟
زمین پر موجود ہر جاندار اپنی حیات کیلئے سورج کی روشنی کا محتاج ہے-ہم اس کا اندازہ سردیوں اور گرمیوں میں اجناس، پھل، سبزیوں اور زندگی کی تقریبا ً ہر اس چیز سے لگا سکتے ہیں جو سورج سے تیار ہو تی ہےیا جواللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے تخلیق فرمائی ہے-سورج کی کرنیں زمین تک تقریباً 8 منٹ میں پہنچتی ہے جس کی سپیڈ 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ یا پھر ایک لاکھ چھیاسی ہزار(186000) میل فی سیکنڈ ہے -اللہ تعالیٰ نے اس قدرتی سیارے کو اپنی ایسی حکمت سے پیدا فرمایا کہ اگر انسان قرآن مجید کی اس آیت ’’اللہ تعالیٰ نے اس میں عقل مند لوگوں کیلئے نشانیاں رکھیں ہیں‘‘کے مطابق غور کرے تو تجربات سے دنیا میں آگے بڑھا جا سکتا ہے- سورج کی اس بے پناہ طاقت سے بہت سے ممالک بجلی پیدا کر رہے ہیں جسے سولر انرجی کہتے ہیں- دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے مختلف ذرائع ہیں جن میں کوئلہ، تیل، پانی (ڈیمز)، ایٹمی ری ایکٹر اور شمسی توانائی سے بجلی پیداکرنا شامل ہے-
نیو کلئیر فشن کیا ہے؟ [1]
فِشن کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب نیوٹران ایک بڑے ایٹم میں ٹکراتا ہے اور اسے دو چھوٹے ایٹموں میں تقسیم کرتا ہےجسے فِشن پروڈکٹس بھی کہا جاتا ہے-آسان لفظوں میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ ایک بڑے ایٹم کا دو چھوٹے ٹکڑوں میں ٹوٹنا نیو کلئیر فشن کہلاتا ہے-قدرتی طور پر فشن انتہائی نایاب ہوتا ہےجس کے نتیجے میں تابکار مادے وجود میں آتے ہیں جو صدیوں تک خطرہ بنے رہتے ہیں جس کیلئے کریٹکل ماس اور نیوٹرون کی ضرورت ہوتی ہےجس میں ایٹم نیوٹرون کو دھکیلتا نہیں بلکہ بہت کم توانائی کا نیوٹرون ایٹم کو توڑ سکتا ہے-کیمیائی تعاملات کے مقابلے میں فشن سے بہت زیادہ توانائی نکلتی ہے مگر یہ فیوژن کے مقابلے میں کم ہوتی ہے- ایٹم بم میں فشن سے توانائی حاصل ہوتی ہے- دنیا میں یورینیم کے فشن سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کی جا رہی ہے- جوہری بجلی گھر میں اگر فشن کی آسودگی ہو جائے تو بڑے علاقے میں تابکاری پھیل جاتی ہے-کسی مخصوص جوہری ایندھن سے صرف ایک ری ایکشن ممکن ہے -
نیو کلئیر فیوژن کیا ہے؟ [2]
دو چھوٹے ایٹموں کا جڑ کر ایک بڑےایٹم میں تبدیل ہونا فیوژن کہلاتا ہےجو سورج سمیت سارے سیارےفیوژن کی وجہ سے روشن ہیں جس سے فیوژن بہت کم تابکاری جنم لیتا ہے اور اسے 10 کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ اور سخت دباو کی ضرورت ہوتی ہے-برقی چارج کی وجہ سے دو ایٹمز ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں جسے پاس لانے کیلئے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے فیوژن سے نکلنے والی توانائی، فشن کی توانائی سے تین یا چار گنا زیادہ ہوتی ہے- ہائیڈروجن بم میں فیوژن سے توانائی حاصل ہوتی ہے -ابھی تک فیوژن سے چلنے والا کوئی بجلی گھر نہیں بنایا جا سکا ہے- فیوژن والے بجلی گھر میں اگر meltdown ہو بھی جائے تو چین ری ایکشن خود بخود رک جاتا ہے اور بہت کم تابکاری نکلتی ہے- ہائیڈروجن کی فیوژن کے بہت سارے طریقے ہو سکتے ہیں مگر پیداوار صرف ہیلیئم ہوتی ہے-
آسان لفظوں میں ہم اس کو ایسے بھی کہ سکتے ہیں کہ ایٹمی ری ایکٹر میں تابکار دھاتوں مثلاً یورینیم کے ایٹموں کو توڑا جاتا ہے جس سے انرجی پیدا ہوتی ہےاور بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کے آخر میں تابکار عناصر پیدا ہوتے ہیں یہی عمل نیو کلئیر فشن کہلاتا ہے- اس عمل کو جاپان میں ایٹم بم کی صورت میں استعمال کیا گیا- جبکہ دوسری جانب نیو کلئیر فیوژن کا عمل وقو ع پذیر ہوتا ہے جہاں ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں جڑ کر بے پناہ توانائی اور حرارت خارج کرتے ہیں جس سے سیارے روشن اور حرارت پیدا کرتے ہیں-
فیوژن کے عمل سے مصنوعی سورج کا کامیاب تجربہ :
دنیا کے کئی ممالک عرصہ دراز سے فیوژن کے عمل کو لیبارٹریزمیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی سیکنڈ تک اسےکنڑول کرنے میں کامیاب بھی ہوئے جن میں امریکہ، روس ، فرانس ، کوریا اور چین شامل ہیں لیکن چین نے لیبارٹری میں فیوژن ری ایکٹرکی مدد سے سورج کی نسبت 5گنا زیادہ درجہ حرارت پیدا کیا جو کہ کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ ہے- تقریبا ً 18 منٹ تک حاصل کرکے ورلڈ ریکارڈ اور اس عمل سے بجلی پیدا کرنے میں سبقت حاصل کر لی ہے- اس عمل میں پلازما کے ذرات کی مقدار محدود ہوتی ہے اور اسے مقناطیسی فیلڈ کی مدد سے ری ایکٹر میں معلق رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سےیہ دیواروں سے نہیں ٹکراتا- اس کے نتیجے میں ہیلیم اور ٹریٹیم پیدا ہوتی ہے-
اس پیش رفت کا اعلان چینی اکیڈمی آف سائنسز (اے ایس آئی پی پی) کے انسٹیٹیوٹ آف پلازما فزکس کے محقق گونگ ژیانزو(Gong Xianzu) نے کیا، جو مشرقی چین کے صوبہ آنہوئی (Anhui)کے دارالحکومت ہیفی(Hefi) میں کیے گئے اس تجربے کے انچارج ہیں-گونگ نے کہا کہ:
”ہم نے 2021ء کی پہلی ششماہی میں ایک تجربے میں 101 سیکنڈز کے لیے 120 ملین ڈگری سیلسیس کا پلازما درجہ حرارت حاصل کیا- اس بار، 70 ملین ڈگری سیلسیس کے قریب درجہ حرارت پر 1,056 سیکنڈ تک سٹیڈی سٹیٹ پلازما آپریشن برقرار رہا، جس میں ایک ٹھوس سائنسی بنیاد رکھی گئی اور فیوژن ری ایکٹر کو چلانے کی تجرباتی بنیاد‘‘-[3]
جس میں محققین نے واضح کیا کہ ان کا حتمی مقصد، سورج کی طرح نیوکلیئر فیوژن بنانا ہے، جس میں صاف توانائی کا ایک مستحکم سلسلہ فراہم کرنے کے لیے سمندر میں موجود ڈیوٹیریم کا استعمال کیا جائےگا- ایندھن جیسے کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس کے برخلاف ہو گاجو ختم ہونے اور ماحول کیلئے خطرہ ہیں، ’’مصنوعی سورج‘‘ کے لیے درکار خام مال زمین پر تقریباً لامحدود ہے- لہٰذا، فیوژن توانائی کو انسان کیلئے مثالی ’’حتمی توانائی‘‘ سمجھا جاتا ہے-
اس عمل کی خوبی یہ ہے کہ ہیلیم انسانوں کیلئے نقصان دہ نہیں جب کہ ٹریٹیم دیگر تابکار عناصر کی نسبت بہت جلد ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس عمل کو نیوکلیئر فشن کی نسبت ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے- علاوہ ازیں زمین اور کائنات میں ہائیڈروجن کی مقدار دیگر عناصر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اس لئے ایندھن کے طور پر یہ بے حد سستا ہے حتی کہ پانی بھی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے-اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مادے کو نہ ختم اور نہ ہی بنایا جا سکتا ہے اس لئے ابتدائی طور پر کائنات کی تشکیل کے وقت ہر طرف زیادہ تر ہائیڈروجن ہی موجود تھی جو آپس میں مل کر ہیلئیم میں تبدیل ہوتی گئی اور ستارے وجود میں آتے گئے -
٭٭٭