ابتدائیہ:
نسل پرستی، نسل کشی، انتہا پسندی، نفرت و تعصب، مذہبی منافرت، ظلم و تشدد، قتل و غارت گری اور مار پیٹ ایسے الفاظ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر پوری دنیا کے مقامی اور بین الاقوامی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں سامنے آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جمہوریت کی خود ساختہ علمبردار اور نام نہاد داعی ریاستوں نےانسان دشمنی اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی کو فروغ دینے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی جن میں فاشسٹ بھارت سرِ فہرست ہے- اس وقت بھارت میں بی جے پی (BJP) سرکار کی سرپرستی میں ’’ہندو راشٹر-مہابھارت‘‘ کے قیام اور ہندوتوا کے فروغ کے لئے ظلم و تشدد اور انسانی نسل کشی کی صورت میں اسلاموفوبیا شدت اختیار کر چکا ہے جس کی بھیانک مثال مختلف اصطلاحات اور نظریات کی بنیاد پر بھارت میں مختلف اقلیتوں بالخصوص 220 ملین کے قریب مسلمانوں کی نسل کشی ہے-
امریکہ کی معروف تنظیم ’ورلڈ وِد آؤٹ جینو سائیڈ‘ کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلن کینیڈی (Dr. Ellen Kennedy) نے امریکی کانگریس میں بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ:
’’بھارتی حکومت ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کمربستہ ہے‘‘- [1]
اسی طرح جنیو سائیڈ واچ کے بانی ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن (Gregory H. Stanton) نے بھی اس دوران ’’بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام‘‘پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
“We are warning that genocide could very well happen in India”.[2]
علاوہ ازیں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے مسلسل تیسرے سال سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے ’انتہائی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھا جائے-[3] مزید OIC نے اسلاموفوبیا پر اپنی 14ویں سالانہ رپورٹ میں ان واقعات کا تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے بھارت کو ’’مسلم اقلیت کےلیے خطرناک اور پُر تشدد جگہ‘‘قرار دیا ہے-[4] اسی طرح OIC نے 48 ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر قرار داد پاس کی اور اپنے اعلامیہ میں اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا-
بدقسمتی سے اس وقت بھارت میں جہاں ایک طرف ہندتوا نظریات کا پرچار زد عام ہے وہیں دوسری طرف اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر بھی تشویش ناک ہے- بھارت میں مقدس گائے،حجاب، لو جہاد اور گھر واپسی کے نام پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے-
زیر ِنظر مضمون میں بھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے خوفناک مظالم کا عالمی اداروں اور تنظیموں کے خدشات کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور بھارت میں خصوصاً بی جے پی سرکار کے ان اقدامات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن کی بنا پر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کے علاوہ مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں-
سیاسی و مذہبی اجتماعات میں نفرت و حقارت پر مبنی گفتگو:
موجودہ بھارت میں عوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پر مبنی گفتگو کو فروغ دیا جا رہا ہے- مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا، غلط معلومات اور فیک نیوز کی بنیاد پر ہتھیاروں سے لیس جتھوں کو مسلمانوں پر تشدد اور قتل عام کیلئے اکسایا جاتا ہے- عام سیاسی اور مذہبی اجتماعات کے علاوہ مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسا کہ وٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور ریڈ اٹ وغیرہ پر ویڈیوز اور میسیجز کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی بھر مار ہے-
CARE کی رپورٹ’’Experiences of Muslim in India on Digital platforms with Anti Muslim hate ‘‘کے مطابق ہندتوا کا ڈیجیٹل سٹرکچر منظم طریقے سے ڈس انفارمیشن اور نفرت انگیزی کو پھیلا رہا ہے- [5]
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 2014ء میں مودی گورنمنٹ آنے کے بعد حکومت اور سیاسی جماعتوں کی سینئرقیادت کی طرف سے نفرت انگیزی پر مبنی گفتگو میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے جس میں صرف BJP کا حصہ 80فی صد ہے-[6] مثلاً اگر دسمبر 2019ء میں پاس ہونے والے سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل(CAA) کے بعد مسلم مخالف جذبات ابھارنے والی تقاریر کا جائزہ لیا جائےتو ان اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے فروری میں دارالحکومت دہلی میں 53 افراد قتل ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے- [7]
مزید نفرت انگیز تقاریر اور گفتگو کی سب سے بڑی حالیہ مثال 17 تا 19 دسمبر 2021ء کو ہونے والے ہری دوار شہر میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک اجتماع دھرم سنسد میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام پر ابھارنے کی ہے- [8]بلکہ ایک انتہا پسند ہندو خاتون رہنما نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم دشمنی اور مذہبی منافرت و تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ:
’’چندسو ہندو اگر مذہب کے سپاہی بن کر 20 کروڑ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر ابھریں گے- اس خاتون رہنما نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل ’’سناتن دھرم‘‘ کو تحفظ حاصل ہو گا‘‘- [9]
مزید تقاریر میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر 20لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کردیا جائے تو بقیہ مسلمان بے چوں و چرا ’ہندو راشٹر‘ تسلیم کر لیں گے- مسلسل 3 دن اس اجتماع میں کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کیلئے تقاریر کی جاتی رہیں لیکن کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہندتوا سرکار کی مرضی سے ہورہا تھا-
ان اعلانات کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی نے مزید شدت اختیار کی جس کی سب سے خوفناک مثال جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی کے دن پرتشدد ہجوم کو ان جگہوں سے گزرنے دیا گیا جہاں زیادہ تر مسلمان رہتے ہیں- ہاتھوں میں تلوار، دیگر تیز دھار دار ہتھیاروں، پستول لہراتے ہوئے اور مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے اس پرتشدد ہجوم نے نماز کے وقت مسجد کے سامنے ہنگامہ برپا کیا- [10]
بھارتی جنتا پارٹی (BJP) کا اقتدار اور مسلمان مخالف اقدامات :
یہ بات دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 2014 ءکے بعد جب سے بی جے پی برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے مسلم مخالف جذبات میں بھی شدت دیکھنے کو ملی ہے-
2014ء کے بعد 2019ء میں دوبارہ نریندر مودی کا وزیر اعظم منتخب ہونا اور اسی طرح 2017ء کے بعد 2022ء میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ہندو انتہا پسند اور کٹر مسلم مخالف یوگی آدتیہ ناتھ (جس کو مرکز میں مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے) کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے سے واضح ہوتا ہے بھارت مکمل طور ہندو راشٹر بننے کی جانب گامزن ہے- حالیہ 5 میں سے 4 ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں واپس آگئی ہے- عام طور پر یہی تاثر اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس فتح سے مسلمانوں کے حالات مزید گھمبیر ہونگے- [11]
بھارت میں ریاستی انتخابات سے قبل یہ تاثر زد عام تھا کہ اگر مخصوص قسم کا زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی آدتیہ ناتھ خصوصاً اتر پردیش میں دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف مبینہ ظلم و تشدد کا سلسلہ تیز ہو جائے گا- اگر ان کے پچھلے پانچ سالہ مسلم مخالف اقدامات کا ذکر کریں تو ان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی، لو جہاد، گھر واپسی اور بین المذاہب شادیوں پر پابندی نمایاں ہے- ان کے 5 سالہ دورِ اقتدار میں مسلمانوں پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ان کے خلاف نفرت بھری تقاریر سر عام ہوتی رہی ہیں- مغل دور کا تعمیر شدہ تاج محل اور بابری مسجد سے نفرت یوگی آدتیہ ناتھ کی مسلم مخالف جذبات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے-
نریندرا مودی کی مرکزی حکومت کے مسلم مخالف سینکڑوں واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں- جن میں نمایاں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد غیر قانونی اور غیر انسانی کرفیو کا نفاذ اور شہریت ترمیمی قانون کے تحت 30 لاکھ مسلمانوں کی بے دخلی کی راہیں ہموار کرنا شامل ہیں-
بھارتی معاشرے میں مذہبی منافرت اور نسلی امتیاز کی بنا پر واضح تقسیم:
یہ حقیقت ہے کہ آج منافرت اور انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے بھارتی معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے- سخت گیر ہندو آئے روز عوامی جلسوں میں مسلمانوں کا سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر بائیکاٹ کا اعلان کر رہے ہیں-سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں واضح طور پر سنا جا سکتا ہے کہ ایک مجمع عام سے عہد لیا جا رہا ہے کہ :
’’ہم آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی دکانوں سے کسی قسم کا کپڑا، جوتا اور دیگر سامان نہیں خریدیں گے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا سامان فروخت کریں گے‘‘- [12]
بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھی سیاسی اور سماجی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے جن میں انڈیا کے 23 کروڑ دلت بھی شامل ہیں- بی بی سی کے مطابق دلت کمیونٹی سماجی زینے میں نیچے سے نیچے چلی جا رہی ہے اور اکثر فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بنتی ہے-اسی کے پیش نظر ہیومین رائٹس واچ نے واضح لکھا ہے یہ مناظر ’’Apartheid‘‘کا نمونہ پیش کر رہے ہیں- [13]
بھارت میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات:
بھارت میں سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک بیانیہ ’’ہندو خطرے میں ہیں‘‘ کو فروغ دے کر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے- اس بیانیے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں جن میں ایک سوال یہ قابل غور ہے کہ 15 فیصد والی اقلیت سے اکثریت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ اسی بیانیہ کو فروغ دے کر بھارت میں اسلاموفوبیا کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں- حالیہ دنوں میں بھارت کی 9 ریاستوں میں مسلم مخالف تشدد کے واقعات میں تیزی آئی ہے-یہ ریاستیں مدھیہ پردیش، گجرات، نئی دہلی، گوا، راجستھان، جھارکھنڈ، کرناٹک، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار ہیں- حال ہی میں ریاست کرناٹک کے سکولوں میں حجاب پہننے کو ایک سنگین مسئلے کے طور پر سامنے لایا گیا ہے-سکولوں میں حجاب کے مد مقابل ہندو طلبہ نے گلے میں کیسرانی رومال ڈالے ہوئے تھے-[14]
ان واقعات کا مقصد مذہبی منافرت کو فروغ دینا تھا جو اسلاموفوبیا کا منہ بولتا ثبوت ہے-اس کے علاوہ بی بی سی کی ایک ویڈیو رپورٹ میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مسلمانوں کی حفاظت کی بجائے انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے حملے کر رہی ہے-
بھارت میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور شعائر کی سرِ عام بے حرمتی کی جاتی ہے-اس کے علاوہ بھارت میں مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی اسلاموفوبیا کے مکروہ رجحان کی عکاسی کرتا ہے-بھارت میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا اور نفرت انگیزی مسلمانوں کی نسل کشی کی مترادف ہے- پاکستان نے ہمیشہ اس بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے- حالیہ اسلام آباد اعلامیہ میں او آئی سی نے بھی بھارت کے ان اسلامو فوبک اقدامات کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’ہم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور عدم برداشت کی منظم اور وسیع پالیسی کی مذمت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سیاسی، معاشی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہوئے ہیں- ہم حجاب کو نشانہ بنانے والے امتیازی قوانین اور پالیسیوں سے ظاہر ہونے والے ہندوستان میں مسلم تشخص پر سب سے زیادہ نقصان دہ حملوں سے بہت پریشان ہیں-ہم ہندوستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے امتیازی قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرے، ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنائے اور ان کی مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرے‘‘- [15]
بھارت میں مسلم مخالف ’’بلڈوزر سیاست‘‘ کا خطرناک رجحان :
حالیہ کچھ دنوں میں سیکولر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی ہے- مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور آثارِ قدیمہ کو گرانے کے بعد ان کے کاروباروں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے نام پر بلڈوزر سیاست کے ذریعے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے-
اتر پردیش، گجرات اور مدھیہ پردیش کے بعد دہلی کے مسلم علاقوں میں بلڈوزر سے گھروں، دکانوں اور مساجد کو منہدم کیا جا رہا ہے- مثلاً مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کی کم از کم 50 دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا- [16]
اسی طرح دہلی کے جہانگیر پوری کے علاقے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے-یوں بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنےکی علامت بن چکاہے- ان واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر کثرت سے موجود ہیں جن میں بھارت کے مسلمان دشمن سفاکانہ اقدامات سے پردہ اٹھایا گیا ہے-
شہریت کے غیرآئینی قوانین اور مسلمانوں کی اپنی سر زمین سے بے دخلی:
اگر دیکھا جائے تو مسلم مخالف سخت اقدامات میں سے آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کا اہم اقدام نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز ( این آر سی) اور سی اے اے جیسے متنازع شہریت کے ترمیمی بل ہیں- آئینی ماہرین کے مطابق یہ بل انڈین آئین کے آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 کی روح کے منافی اور اس کی صریحاً خلاف ورزی ہے جو کہ 30 لاکھ مسلمانوں سے شہریت چھیننے کی ایک کوشش ہے- بھارتی حکومت نے بظاہراً یہ قوانین انسانی ہمدردی کے تحت بنائے ہیں لیکن حقیقتاً ان کا مقصد ایک بڑے پیمانے پر بھارتی مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے دخل کرنا ہے- [17]
مذکورہ قوانین کے متعارف کروانے کے بعد پورے بھارت میں خصوصاً خونی مظاہرے ہوئے جن میں ہزاروں افراد زخمی اور 50 افراد لقمہ اجل بنے-
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی اے اے کی نوعیت بنیادی طور پر جانبدارانہ ہے- [18]مزید ہیومین رائٹس واچ نے ان قوانین کو:’’Discrimination Against Muslims under India’s New Citizenship Policy‘‘ کہا ہے-[19]
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس نے بھی ان قوانین کو ’’Fundamentally discriminatory‘‘کہا ہے- [20]اس کے علاوہ امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے قوانین لاکھوں مسلمانوں سے شہریت چھین لیں گے- [21]
یہ بات عیاں ہے کہ متنازع شہریت کے ان قوانین سے نہ صرف مسلمانوں میں خوف بڑھا ہے بلکہ اس کے عملی اقدامات بھی سامنے آئے ہیں- مثلاً سرکاری حکام کا شہریت ثابت کرنے کے لئے مسلمانوں کو تنگ کرنا، غیر قانونی گرفتاریاں، پر تشدد واقعات میں اضافہ اور گھروں کو مسمار کرنا شامل ہے-
جموں و کشمیر میں غیر قانونی اقدامات اور کشمیریوں سے غیر انسانی سلوک کی تاریخی داستان :
5 اگست 2019ء کو فاشسٹ بھارتی سرکار نے عالمی قوانین، دو طرفہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس غیر قانونی اقدامات کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے ساتھ کشمیریوں پر غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے شدید لاک ڈاؤن لگا کر انہیں کھلی جیل میں بند کر دیا-اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے 30 سے 40 لاکھ غیر کشمیریوں کو وادی کا ڈومیسائل جاری کردیا گیا - اس دوران کرونا وائرس کی عالمی وبا کی مشکلات میں بھی بھارت نے کشمیریوں کو جیلوں میں بند کرنے، انٹرنیٹ بلیک آؤٹ، جعلی اِنکاونٹر، عورتوں اور بچوں پر ظلم و تشدد ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہوا ہے- 10 لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں کشمیریوں پریہ غیر انسانی محاصرہ 1000 دنوں سے تجاوز کر چکا ہے- بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومین رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے بھی بھارت کے ان غیر قانونی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی ہے-
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق سال 2021ء میں قابض بھارتی فوج نے 210 کشمیریوں کو شہید کیا جن میں 65 افراد کو جعلی ان کاؤنٹر میں شہید کیا گیا- اس دوران 44 معصوم بچے یتیم اور 16 خواتین بیوہ ہوئیں اور بھارتی فوج نے 67 عمارتوں کو مسمار بھی کیا- اس عرصے میں بھارتی فوج نے 2716 کشمیریوں کو گرفتار اور 487 افراد کو زخمی کیا- رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے صرف دسمبر 2021ء میں 31 افراد کو شہید کیا- [22]
کچھ عرصہ قبل کشمیری حریت لیڈر سید علی گیلانی کی وفات پر بھارت نے غیر انسانی رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کی تدفین سخت سیکورٹی حصار میں کی گئی اور اہل خانہ کو جنازے میں بھی شامل نہیں ہونے دیا گیا- ماہِ رمضان المبارک میں بھی بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم جاری رہے حتیٰ کہ عید الفطر کے موقع پر مسلمانوں کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی-
اختتامیہ:
بی جے پی اور آر ایس ایس کے اقتدار میں آئے روز مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے مظالم کو رقم کرنے کے لئے سینکڑوں صفحات بھی نا کافی ہیں-اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مختصر مضمون میں اس بات کا جائزہ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ کس طرح بھارت میں مختلف غیر انسانی اقدامات سے 220 ملین مسلم آبادی کا نسلی صفایا اور قتلِ عام کیا جارہا ہے-یہ عمل صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندو راشٹر کے قیام کےلئے دیگر اقلیتیں بھی ہندتوا سوچ اور مذموم عزائم کے نشانے پر ہیں جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بھارت تاریخ میں انسانیت کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر یادرکھا جائے گا-
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا بالخصوص بھارت میں اسلاموفوبیا خوفنا ک شکل اختیار کرچکا ہے جس کی ہر قیمت پر روک تھا م کیلئے عالمی برادری کو اپنا ترجیحی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے -ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خصوصاً اقوام متحدہ اور انصاف کے عالمی اداروں نے اگر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے تیزی سے بڑھتے ہوئے واقعات سے مزید غفلت برتی اور بھارت کے فاشسٹ اقدامات کا ایکشن نہ لیا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ایک اور روانڈا قتل عام کا منظر پیش کرے گی جس کے نتائج پوری انسانیت کو بھگتنا پڑیں گے-
٭٭٭
[1]https://www.thenews.com.pk/amp/954206-indian-govt-gearing-up-for-muslim-genocide-like-holocaust
[2]https://www.genocidewatch.com/single-post/genocide-watch-expert-warns-of-genocide-of-muslims-in-india
[3]https://www.uscirf.gov/news-room/releases-statements/uscirf-releases-2022-annual-report-recommendations-us-policy
[4]https://www.oic oci.org/upload/islamophobia/2022/14th_Annual_Report_on_Islamophobia_March_2022_r2.pdf
[5]https://carecca.nz/2022/01/27/care-white-paper-experiences-of-muslims-in-india-on-digital-platforms-with-anti-muslim-hate/
[6]https://www.ndtv.com/india-news/bjp-tops-indias-vip-hate-pandemic-ndtv-finds-2703827
[7]https://interactive.aljazeera.com/aje/2020/delhi-riots-portraits/index.html
[8]https://aje.io/qnzt2d
[9]http://85.217.170.64/ur/%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%AC%DB%8C-%D8%A2%D9%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B4%DB%8C-%D9%86%D9%81%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B2-%D8%A2%D9%88%D8%A7%D8%B2%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%AA%D9%82%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AF%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%92/a-60366633
[10]http://thewireurdu.com/94365/after-jahangirpuri-violence-shops-of-muslims-demolished-no-cognisance-of-sc-order/
[11]https://www.urduvoa.com/a/polical-reaction-over-indian-state-elections-12mar2022/6480573.html
[12]https://youtu.be/6HFB-IReKYg
[13]https://www.hrw.org/report/2007/02/12/hidden-apartheid/caste-discrimination-against-indias-untouchables
[14]https://www.aljazeera.com/amp/news/2022/1/18/india-karnataka-muslim-college-students-hijab-ban-
[15]https://www.oic-oci.org/topic/
[16]https://www.firstpost.com/politics/bulldozer-baba-bulldozer-mama-bulldozer-justice-how-the-modest-machine-has-become-the-buzzword-in-indian-politics-10580201.html
[17]https://www.aljazeera.com/news/2019/12/16/what-you-should-know-about-indias-anti-muslim-citizenship-law
[18]https://news.un.org/en/story/2019/12/1053511
[19]https://www.hrw.org/report/2020/04/09/shoot-traitors/discrimination-against-muslims-under-indias-new-citizenship-policy
[20]https://news.un.org/en/story/2019/12/1053511
[21]https://www.uscirf.gov/news-room/releases-statements/uscirf-releases-new-factsheet-indias-citizenship-amendment-act
[22]https://www.kmsnews.org/kms/2022/01/01/indian-troops-martyred-210-kashmiris-in-2021.html