’’دی مسلم ڈبیٹ‘‘ معروف تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی مکالمہ و مباحثہ کا ایک آن لائن فورم ہے جس میں ’’اوکسفرڈ ڈبیٹ فارمولہ‘‘ کے تحت مباحثہ کیا جاتا ہے - ایک سوال پیش کیا جاتا ہے جس پہ دو مختلف آرأ رکھنے والے اس موضوع کے ماہرین اپنے اپنے مؤقف کے حق میں علمی و دانشورانہ دلائل دیتے ہیں اور دُنیا بھر سے لوگ ووٹ اور کمنٹس کے ذریعے مباحثہ میں شامل ہوتے ہیں - لوگوں کی آرأ اُن کے ذاتی خیالات پہ مبنی ہوتی ہیں جن سے ادارہ کا کوئی تعلُّق نہیں ہوتا - اِس قبل بھی عالمی اہمیّت کے متعدد موضوعات پہ اس فورم کے تحت مباحثہ جات کروائے جا چکے ہیں ، جبکہ حالیہ دنوں میں بھی مسلم انسٹیٹیوٹ کے آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ کے زیرِ انتظام ’’کیا مہاجرین کو دوسرے ممالک میں ہمیشہ قبول کیا جانا چاہئے؟ ‘‘
کے موضوع پر آن لائن ڈیبیٹ ﴿مباحثہ﴾ کا اہتمام کیا گیا جو ۱۲ مارچ ۶۱۰۲ئ سے لیکر ۰۱ اپریل ۶۱۰۲ئ تک جاری رہی- یونیورسٹی آف وارویک ﴿یوکے﴾ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کرسٹن مک کوناشی نے موضوع کے حق میں جبکہ دی انٹرنیشنل ہب ﴿یوکے﴾ کے ڈائیریکٹر ، صحافی اور مصنف جناب ڈیوڈ گُڈ ہارٹ نے مخالفت میں دلائل دیئے- ڈیبیٹ میں پاکستان کے سابق سفیر ایمبیسیڈر طارق عثمان حیدر اور انسٹیٹیوٹ فار مائیگریشن ریسرچ اینڈ انٹر کلچرل سٹڈیز، اوسنابرک یونیورسٹی ﴿جرمنی﴾ کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر جے اولف کلائیسٹ نے بطور مہمانانِ خصوصی حصہ لیا اور اپنی ماہرانہ اور محققانہ رائے کا اظہار کیا- مسلم انسٹیٹیوٹ ﴿یو کے چیپٹر﴾ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب حمزہ افتخار نے ڈیبیٹ میں ماڈریٹر ﴿منتظمِ مباحثہ﴾ کی خدمات سرانجام دیں- ڈیبیٹ میں اپنے ووٹ اور تبصرہ کے ذریعے ۹۲ سے زائد ممالک کے لوگوں نے حصہ لیا-
ڈیبیٹ کی مختصر رپورٹ پیشِ خدمت ہے:-
ڈیبیٹ کا ابتدائی حصہ ﴿۱۲ مارچ تا ۸۲مارچ، ۶۱۰۲ئ﴾
ماڈریٹر جناب حمزہ افتخار نے ڈیبیٹ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس مباحثے کی اہمیت کا اندازہ ﴿اقوامِ متحدہ کی مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے قائم تنظیم﴾ ﴿UNHCR﴾ کی جانب سے فراہم کئے گئے مہاجرین کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے- ۴۱۰۲ئ کے اختتام پر دنیا بھر میں انیس اعشاریہ پانچ ملین ﴿تقریبا دو کروڑ﴾ مہاجرین موجود ہیں- مشرقِ وسطیٰ، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا، وسطی امریکہ یا افریقہ، مہاجرین کے مسئلہ نے دنیا کے ہر خطے کو متاثر کیا ہے- اقوامِ متحدہ کے ۱۵۹۱ئ کے مہاجرین کنونشن کے مطابق ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر محفوظ ہونے پر پناہ طلب کر سکے- ایسے ممالک جو مہاجرین کو قبول نہیں کر رہے وہ اپنے مسائل مثلاََ معاشی ، آبادیاتی شماریات میں تبدیلی، سیکیورٹی اور سیاسی مسائل کو بطور وجہ پیش کرتے ہیں- کیا مہاجرین کو قبول نہ کرنے کی ایسی وجوہات قانونی ہیں؟ کیا یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ مہاجرین کہاں سے آ رہے ہیں یا تمام حقیقی مہاجرین سے ایک ہی طرز پر برتائو ہونا چاہئے؟ کیا مہاجرین کا انتخاب مخصوص ممالک یا کمیونٹی سے ہونا چاہئے؟ کیا ۱۵۹۱ئ کے کنونشن کی ذمہ داری تمام ممبر ممالک پرعائد ہوتی ہے؟ کیا مہاجرین کنونشن میں ترامیم کی ضرورت ہے؟ کیا ۱۵۹۱ئ سے اب تک مہاجرین کو قبول کرنے کے لوازمات تبدیل ہوئے ہیں؟ کیا خانہ جنگی کے باعث ہجرت کرنے سے مہاجرین کی حیثیت پر فرق پڑتا ہے؟ کیا مہاجرین کو قبول کرنے کا فیصلہ کوئی اکیلا ملک کر سکتا ہے یا عالمی برادری اس میں کسی طرح مداخلت کر سکتی ہے؟
ایسے اور ان جیسے دیگر سوالات کے جوابات اور ان پر دلائل کیلئے ہم مقررین کی گفتگو اور دلائل کی جانب بڑھتے ہیں-
ڈاکٹر کرسٹن مک کوناچی
نے موضوع کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں موجود مہاجرین کی زندگیاں ہمارے اس سوال کے جواب پر منحصر ہیں- عالمی قانون میں مہاجر کی تعریف اور ان کیلئے ریاستوں کی ذمہ داری کی نوعیت تسلسل کے ساتھ واضح کی گئی ہے لیکن پھر بھی ان کے متعلق سمجھ بوجھ میں کمی پائی جاتی ہے- مہاجرین کے متعلق موجودہ حکمت عملی دوسری جنگِ عظیم کے بعد مرتب کی گئی تھی جب دسیوں ملین افراد بے گھر ہوئے تھے- مہاجرین سے متعلق اقوامِ متحدہ کا مرکزی ردِ عمل ۱۵۹۱ئ کا کنونشن تھا- مہاجر اس فرد کو کہتے ہیں جو اپنے آبائی ملک سے باہر ہو اور بہت مخصوص وجوہات کی بنا پر اپنی جان کو خطرے کے پیشِ نظر واپس نہ جا سکے- یہ تعریف عام مشہور تعریف کی نسبت محدود ہے- اوّلاََ اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو اپنے ہی ملک کے اندر ہجرت کرتے ہیں- دوئم یہ ماضی کے تجربات کو چھوڑ کر مستقبل کی تکالیف کے خوف پر مبنی ہے- سوئم اس میں جان کے خطرے اور اس سے متعلق کنونشن میں دی گئی وجوہات کے درمیان ایک ربط کی ضرورت ہے اور اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو قدرتی آفات کی وجہ سے یا خالصتاََ معاشی مسائل کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑتے ہیں - مہاجر کا درجہ کسی بیرونی سرکار کی جانب سے نہیں دیا جاتا بلکہ یہ فرد میں ذاتی طور موجود ہے- مزید برآں مختلف گروہوں کے درمیان تفریق نہیں ہونی چاہئے- اقوامِ متحدہ کے ممبر ۳۹۱ ممالک میں سے ۵۴۱ نے مہاجرین کنونشن کو باضاطہ اپنایا ہے- جن ریاستوں نے اسے نہیں اپنایا وہ قانونی طور پر اس کی پابند نہیں سوائے اخلاقی ﴿non-refoulement﴾ ذمہ داری کے- جنگِ عظیم دوئم کے بعد یورپ عدمِ استحکام اور ظلم و جبر کی وجہ سے معاشی اور سیاسی طور پر تباہ ہو چکا تھا تاہم لوگوں کا ردِ عمل انسانی اور باہمی ذمہ داری کی بنیاد پر باہمی تعاون کا تھا- ایسی سیاسی بلوغت آج نظر نہیں آتی اور اس کی جگہ ڈر اور خوف نے لے لی ہے- میرے نقطہ نظر کی حمایت میں معاشی اور اخلاقی حوالے سے بھی مضبوط دلائل موجود ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے- تمام تر قانونی ذمہ داریوں کو واضح کرنے سے یہ عیاںہے کہ ’ہاں‘ مہاجرین کو دوسرے ممالک میں ہمیشہ قبول کیا جانا چاہئے-
جناب ڈیوڈ گُڈ ہارٹ
نے موضوع کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک یہ وعدہ نہیں کر سکتا کہ وہ لاتعداد غیر ملکیوں کو قبول کرے- امیر، لبرل اور عیسائی ممالک ، جیسا کہ برطانیہ، تکلیف میں مبتلا انسانیت کیلئے اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں لیکن اسے نبھانے کے بہت سے طریقے ہیں جیسا کہ غریب اور کمزور ریاستوں کی مالی معاونت، غربت کے خاتمہ کیلئے ان کی مدد، فوجی مداخلت کے ذریعے قانون کی بالادستی اور مشکل حالات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی عارضی یا مستقل پناہ- جبکہ میرے خیال میں بے آسرا لوگوں کی مدد کیلئے آخری آپشن پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے- ۱۵۹۱ئ کا کنونشن مسلسل قانونی ارتقائ سے گزرتا رہا ہے اور اس میں ۴۰۰۲ئ کے یورپی یونین کے انسانی دستورِ حفاظت ﴿humanitarian protective directive﴾ کی صورت میں اضافہ ہوا ہے اور اسے یورپ کے انسانی حقوق کے معاہدے ﴿European Convention on Human Rights ﴾ سے تائید ملی ہے- سابق لیبر ہوم سیکرٹری چارلس کلارک کے مطابق اب کئی ہزار ملین افراد ایسے ہیں جو قانونی طور پر پناہ طلب کر سکتے ہیں- ہمیں مختلف قوانین کی ضرورت ہے تاکہ مہاجرین کی تعداد کو یورپی عوام کیلئے قابل برداشت سطح تک رکھا جا سکے- ہمیں ان لوگوں کو کم از کم محدود وقت کیلئے پناہ دینی چاہئے جن کو قدرتی آفات یا ملکِ شام جیسے تنازعہ کا سامنا ہو- تمام سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ لوگ جتنا ممکن ہو اپنے گھروں کے قریب رہیں تاکہ امن بحال ہونے پر تعمیرِ نو کیلئے تیار ہو سکیں- یہ خیال کہ ڈیڑھ ملین ﴿پندرہ لاکھ﴾ مہاجرین سالانہ ، ۰۰۵ ملین ﴿پچاس کروڑ﴾ آبادی والے براعظم پر معمولی ہے، اس چھوٹی تبدیلی کا مجموعی اثر نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ حقیقت بھی کہ وہ برابر تقسیم نہیں ہو رہے بلکہ شمال مغربی یورپ کے تیس سے چالیس شہری علاقوں میں آ رہے ہیں- امریکہ میں غیر قانونی میکسیکن ہجرت ۰۷۹۱ئ کی دہائی میں شروع ہوئی اور اور اگلے بیس سالوں میں وہاں کی ایک تہائی آبادی ہسپانوی ہوگی- ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے- ڈچ مصنف پال شیفر نے اسے ایسے پیش کیا ہے کہ ہم یورپ میں اکثر اپنی سرحدوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو ﴿underestimate﴾ کرتے ہیں جبکہ اپنے پیچیدہ، لبرل اور جدید معاشرے میں دوسرے لوگوں کو ضم کرنے کی صلاحیت کو ﴿overestimate﴾ کرتے ہیں-
ایمبیسیڈر طارق عثمان حیدر
جناب طارق عُثمان حیدرنے مہمانِ خصوصی کے طور پر حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ پاکستان جیسے ملک کیلئے بھی ایک جذباتی مسئلہ بن گیا ہے اور کچھ عرصہ قبل پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک تھا اور اب ترکی سب سے بڑا ایسا ملک بن گیا ہے- یہ کوئی علمی یا بحث و مباحثہ کا سوال نہیں ہے بلکہ بہت سے پہلوئوں کے ساتھ قومی مسئلہ ہے- یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ پاکستان ۱۵۹۱ئ کے مہاجرین کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے چنانچہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ میں اس کا چار ملین ﴿چالیس لاکھ﴾ ﴿اس عرصہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد جو کہ ۵۰۰۲ئ میں 2.6 ملین اور اب 1.6 ملین ہے﴾ افغان مہاجرین کو پناہ دینا ایک غیر معمولی عمل ہے- حقیقی مہاجرین، نہ کہ معاشی مہاجرین، کو تمام ممالک کی جانب سے قبول کیا جانا چاہئے لیکن عارضی بنیادوں پر، نہ کہ مستقل بنیادوں پر- لیکن اگر تمام ممالک کی جانب سے بوجھ برداشت کرنے کی منصفانہ تقسیم اور منصفانہ برتائو نہ ہو تو کسی ایک ملک کو اعلیٰ معیار اور دوسروں سے زیادہ کردار ادا کرنے کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا- غیر مشروط اور مستقل پناہ ان ریاستوں اور ریاستی نظام کی ذمہ داریوں کو کم کر دے گا، جہاں سے یہ مہاجرین آتے ہیں، کہ وہ اپنے حالات بہتر کریں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو عالمی برادری ان مقاصد کیلئے اپنا کردار ادا کرے خاص طور پر جب بیرونی مداخلت مسلسل بحران، ناکامیوں اور بڑے پیمانے پر مہاجرین کے نکلنے کی بڑی وجہ ہو-
ڈاکٹر جے اولف کلائیسٹ
جے اولف کلائیسٹ نے بھی بطور مہمانِ خصوصی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اخلاقی اور قانونی حوالہ سے اُنہیں پناہ لینے کا حق ہے جو مہاجرین ہوں- البتہ سیاسی نقطہ نظر سے ہر چیز قابلِ بحث ہے- مہاجرین کی تعریف اتنی عالمگیر نہیں ہے جتنی یہاں تجویز کی گئی ہے- عملی طور پر جب مہاجرین کی تعریف کی جاتی ہے تو مطلق قانون اور اخلاقیات موقوف ﴿relative﴾ ہیں اور جب ہم مہاجرین کی بات کرتے ہیں تو یہ سیاست کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں- ریاستوں کو دوسروں کے اُن حقوق سے انکار نہیں کرنا چاہئے جن کا وہ اپنے شہریوں کیلئے ضمانت دیتی ہیں- یہ عالمی قانون یا اخلاقیات کے سبب کوئی بیرونی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سیاسی معاشروں بالخصوص جمہوریت میں اندرونی طور پر لازم ہے- ہم مہاجرین کی منصفانہ تقسیم سے بہت دور ہیں اور دنیا کے امیر ممالک اپنی سرحدوں کو بند کر کے اپنی بین الاقوامی ذمہ داری سے اپنے آپ کو دور کر لیتے ہیں اور عالمی اداروں کو مناسب فنڈ مہیا کرنے میں بھی ناکام ہیں کہ وہ جنوبی کرہ ارض کے مہاجرین کی مدد کر سکیں- آج جب ہر شخص اصولی طور پر اس بات پر رضامند نظر آتا ہے کہ زیادہ تر مہاجرین کو ان کے آبائی علاقہ میں رکھنا زیادہ بہتر ہے، یورپی ممالک اس ذمہ داری کو اب محسوس کرتے نظر آتے ہیں جب پناہ گزین یورپ میں پناہ طلب کر رہے ہیں- مہاجرین کو قبول نہ کرنے اور جو پہلے سے یورپ میں ہیںان کی ذمہ داریوں سے انکار کیلئے یہ دلیل دینا کہ شمالی کرہ ارض میں مہاجرین کو قبول کرنے کی نسبت انہیں انسانی امداد مہیا کرنا زیادہ بہتر ہے، محض ایک عذر ہے- ہم فقط دوسرے ممالک پر انگلی نہیں اٹھا سکتے یہ انتظار کرتے ہوئے کہ وہ مہاجرین کو قبول کریں جبکہ ہم پناہ طلب کرنے والوں کی جانب اپنی ذمہ داری کو نظر انداز کر یں- بالآخر ہم پر ذمہ داری ہے کہ ہم مہاجرین کو قبول کریں-
ڈیبیٹ کا درمیانی حصہ ﴿۹۲ مارچ تا ۵ اپریل، ۶۱۰۲ئ﴾
ماڈریٹر جناب حمزہ افتخار نے ڈیبیٹ کے ابتدائی حصہ میں طرفین کے دلائل، مہمانانِ خصوصی کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا اور ووٹنگ کی شرح پر روشنی ڈالی کہ ابتدائی حصہ کے اختتام پر ۷۷ فیصد شرکائ نے موضوع کے حق میں ووٹ دیا- انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈیبیٹ کے اگلے مرحلہ میں شرکائ کی جانب سے اپنے موقف کی وضاحت کیلئے مزید دلائل پیش کئے جائیں گے-
ڈاکٹر کرسٹن مک کوناچی
نے کہا کہ سب سے پہلے مَیں مہمانانِ خصوصی کے اظہارِ خیال پر شکریہ ادا کرتی ہوں جس سے اس ڈیبیٹ کی پیچیدگی اور اہمیت مزید واضح ہوتی ہے- ایمبیسیڈر حیدر نے صحیح زور دیا ہے کہ پاکستان نے ۱۵۹۱ئ کے مہاجرین کنونشن کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی کئی ملین مہاجرین کی میزبانی کی - کئی سال سے یورپی ممالک بڑھتے ہوئے مہاجرین کے عالمگیر بحران کو فراموش کرتی نظر آتی ہیں- دیگر ممالک جو سماجی اور معاشی طور پر یورپی اقوام سے پسماندہ ہیں انہوں نے بغیر عالمی امداد کے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو پناہ دی ہے- یہ بات ظاہر ہے کہ پناہ حاصل کرنے سے متعلق کسی بھی دستور کا حقیقی اصول پر استوار ہونا ضروری ہے نہ کہ اضطراری ردِ عمل پر- اگر ہم ڈیبیٹ کے حزبِ اختلاف کی وضع کردہ حدود کے اندر اصولی توجیہ میں امتیاز کرنے کی کوشش کریں گے تو ایسا لگتا ہے وہ صرف ایسے لوگوں کو ترجیح دیں گے جو تباہی کے دہانے پر ہوں- اسی طرح یہ تجویز بھی معصومانہ ہے کہ امیر ممالک رضا کارانہ طور پر مہاجر کیمپوں کا بوجھ اٹھا لیں گے- مالی بوجھ کی تقسیم سے متعلق تسلسل کے ساتھ تجاویز بنائی جاتی رہی ہیں اور تسلسل کے ساتھ نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں- اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین ﴿UNHCR﴾ کا ۰۸ فیصد آپریشنل بجٹ رضا کارانہ امداد پر منحصرہے اور نتیجتاً ادارے کو بجٹ میں بڑی کمی کا سامنا رہا ہے حتیٰ کہ ۵۱۰۲ئ میں جب مہاجرین کا مسئلہ عالمی سیاست میں نمایاں تھا ، اسے ملنے والا مالی تعاون ادارے کی طلب کا صرف ۰۴ فیصد رہا- نتیجہ واضح ہے کہ مہاجرین کی حفاظت سے متعلقہ کوئی نظام جو رضاکارانہ مالی تعاون پر مبنی ہو، اس کا انجام ناکامی ہے-
جناب ڈیوڈ گُڈ ہارٹ
نے کہا کہ آج کل مہاجرین گھر کے حصول کی کوشش نہیں کر رہے اور نہ انہیں مرکزی طور پر ظلم و جبر کا سامنا ہے خواہ وہ افغانستان سے ہوں ، صومالیہ سے یا شام سے- وہ ایک امیر ملک میں روشن مستقبل کی تلاش میں ہیں - اگر آپ جوان اور توانا ہیں تو آپ کو کیا ضرورت ہے کہ آپ مستحکم معیشت والے ملک، جیسا کہ زیادہ یورپی ممالک، میں رہنے کیلئے چار سے پانچ نسلوں کا انتظار کریں جبکہ آپ تھوڑی سی خوش قسمتی سے﴿ اور ممکنہ طور پر اپنی زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے﴾ ابھی جا کر رہ سکتے ہیں- یہ درست نہیں ہے- جتنے زیادہ کو ہم آنے دیں گے، اتنے مزید آئیں گے- موضوع کے دفاع میں ۱۵۹۱ئ کے کنونشن کی ایسے تکرار کی گئی ہے جیسا کہ وہ ناقابلِ تبدیل ہو لیکن ۰۵۹۱ کی دہائی کے کتنے ایسے قوانین ہیں جن پر عمل پیرا ہونا چاہئے؟ مظلوم ترین افرادکے چنائو کو چھوڑ کر ہم نے مشرقی یورپ کی سرحد پر سب کو آنے اور زیادہ وسائل رکھنے والوں کو اندر گھسنے کا راستہ دیا ہے کیونکہ ایک مرتبہ آپ کسی یورپی ملک میں پہنچ جائیں تو آپ کو بے دخل کئے جانے کے امکانات بہت کم ہیں- شام کے ڈاکٹرز اور انجینئرز کیلئے ہمیں افسوس ہو سکتا ہے لیکن ایسی دنیا جس میں ہر منٹ میں ایک بچہ ملیریا سے فوت ہوتا ہے، وہ ہماری فیاضی کی اولین ترجیح نہیں ہیں ان کی زندگیاں مہاجرین کیمپوں یا ترکی اور اردن کے شہروں کے مضافات میں خطرے میں نہیں ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں جن کی خود مُلکِ شام کو اپنی تعمیرِ نو کیلئے اشد ضرورت ہے- یورپی شہری اپنی بیرونی سرحدوں پر قانون کی بالادستی اور سیکیورٹی چاہتے ہیں- اگر انہیں یہ میسر نہ آیا تو ہماری سیاست ایک نسل کیلئے زہریلی ہو جائے گی اور ’’مستقبل کے یورپی ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ یہ یقینی بنائیں گے کہ مہاجرین کیلئے قطعاً ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے-
ڈیبیٹ کا اختتامی حصہ ﴿۶ تا ۰۱ اپریل، ۶۱۰۲ئ﴾
ماڈریٹر جناب حمزہ افتخار نے شرکائ کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک دونوں اطراف میں بہت زیادہ اختلافِ رائے موجود ہے اور دونوں نے ایک دوسرے کی رائے اور دلائل کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے- انہوں نے اس وقت تک کی ووٹنگ کی شرح کا بھی خلاصہ پیش کیا کہ اکثریتی رائے موضوع کے حق میں ہے-
ڈاکٹر کرسٹن مک کوناچی
نے کہا کہ اس ڈیبیٹ اور عوامی سطح کے بحث مباحثوں نے زیادہ تر خطرات، خدشات اور ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کو قبول کرنے کے بہت سے مثبت دلائل موجود ہیں- ڈیبیٹ کے حزب اختلاف قانونی ذمہ داریوں یا انسان سے رحم دلی کی جانب راغب نہیں ہیں بلکہ ذاتی مفادات کی ترجیح پر ہیں- انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ مہاجرین معاشی فائدہ دے سکتے ہیں، جبکہ اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے اور یہ دلیل بائیں بازو کی جانب سے نہیں بلکہ دائیں بازو کے نیو لبرلز کی جانب سے سامنے آ رہی ہے- آئی ایم ایف کے مطابق یورپ بھر میں موجودہ مہاجرین کو پناہ دینے سے جی ڈی پی میںسالانہ 0.19 فیصد کمی واقع ہو گی جبکہ جی ڈی پی میں 0.1 تا 0.3 فیصد سالانہ طویل مدتی مالی فائدہ ہوگا- ﴿برطانوی جریدے﴾ دی اکانومسٹ نے یورپ میں مہاجرین کو ’’ماہرِ آبادیات کے خواب‘‘ سے تشبیہ دی ہے- برطانیہ میں ہمیں مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کی بجائے دوراندیشی سے کام لینا چاہئے کہ وہ ہمیں معاشی مسائل سے باہر نکال سکتے ہیں- ہم نے برطانیہ میں Huguenots﴿فرانسیسی پروٹسٹنٹ عیسائی﴾، یہودی، روسی انقلاب کے مہاجرین، ۶۵۹۱ئ کے ’’ہنگری‘‘ کے مہاجرین اور ’’یوگنڈا‘‘ کے ایشیائی باشندوں کو قبول کیا ہے- ہم نے ’’سکاٹش‘‘ اور ’’آئرش‘‘ باشندوں کو امریکہ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور دیگر جگہوں پر بھیج کر جبراََ بے دخلی میں بھی اپنا حصہ لیا ہے- بالآخر جب لوگوں کی زندگی اور حفاظت دائو پر ہوگی وہ کہیں نہ کہیں پناہ کی تلاش میں نکلیں گے- ڈیبیٹ کے حزب اختلاف کے مطابق ان لوگوں کو برطانیہ اور یورپ میں قبول نہیں کیا جانا چاہئے جبکہ میرا موقف ہے کہ مہاجرین کو قبول کرنے کیلئے قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہیں اور ایسا کرنے سے ہم معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی اعتبار سے محفوظ ہوں گے-
جناب ڈیوڈ گُڈ ہارٹ
نے اپنے اختتامی خیالات میں کہا کہ UNHCR کو جس طرح کام کرنا چاہئے یہ اس طرح نہیں کر رہی جس کے سبب کیمپس میں حالات اچھے نہیں اور یہ مہاجرین کی ﴿یورپ میں﴾ حالیہ آمد کی وجہ ہے- امیر ممالک اور بالخصوص یورپی یونین کو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں مہاجرین کے کیمپس کا انتظام سنبھالنا چاہئے- یورپ کے پاس دولت، ٹیکنالوجی اور مہاجرین کے ماڈل کیمپ بنانے کا ہنر ہے جن میں سکول، ہسپتال اور ملازمت میسر ہوں- اس کے پاس یہ ترغیب اس لئے بھی ہے کیونکہ اس کی عوام اور سیاستدان نہیں چاہتے کہ سالانہ ایک سے دو ملین لوگ ان کے ہاں رہنے کیلئے آ جائیں- یہ ہر مرض کی دوا نہیں ہے لیکن اس سے یورپی یونین کو صحیح کردار ملے گا اور غریب ممالک سے بوجھ کم ہوگا- جب تک دنیا کی دولت میں عدم توازن رہے گا، غریب ممالک سے نوجوان امیر ممالک میں رہنے کیلئے آئیں گے بالخصوص جب آنا جانا آسان ہو- اگر وہ چاہیں تو ان کے پاس اپنا ملک چھوڑنے کا حق موجود ہے ، ہم پر بالکل کوئی ذمہ داری نہیں کہ ہم انہیں صرف اسلئے قبول کریں کہ وہ لاہور کی بجائے لندن میں رہنا چاہتے ہیں- درحقیقت اگر ہم پر کوئی ذمہ داری ہے تو وہ یہ کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ وہیں رہیں اور عالمی فرق کم کرنے کی کوشش کریں- حقیقی مہاجرین بھی موجود ہوتے ہیں جو انفرادی سطح پر ظلم و ستم اٹھاتے ہیں لیکن وہ موجودہ مہاجرین کا صرف چند فیصد ہیں- زیادہ تر افراد مہاجرین میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ تاریخی حقائق کے منافی لکھنے اور مغربی ممالک سے ان کی سرحدوں کی حفاظت کا حق چھیننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ یہ منصفانہ دنیا کی طرف جانے کا تیز ترین راستہ ہے-
ڈیبیٹ سے متعلق تبصرے:
دنیا کے مختلف حصوں سے لوگوں نے اس ڈیبیٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کی مختصر جھلک درج ذیل ہے :-
جیس بروئینگ
سادہ الفاظ میں مہاجرین کو ہر ملک کو قبول کرنا چاہیے- تاہم اگر میزبان ممالک خود اپنے مسائل سے دو چار ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ یہ مہاجرین کون ہیں؟ میرے خیال میں یہ حکمت عملی اہم ہے کہ نشاندہی کی جا ئے کہ کن کو ﴿اور کتنے عرصے کیلئے﴾ بطور مہاجرین قبول کیا جائے -
سی چارلس رُڈ
ہمیں تمام مہاجرین کو قبول کرنا چاہیے- تاہم حفظِ ماتقدم کے تحت انہیں عارضی رہائشی بستی میں رہائش دینی چاہئے جس کے دوران ان کے انٹرویوز اور ان سے میل جول رکھا جا سکتا ہے تاکہ بنیاد پرست، پر تشدد اور سماج دشمن عناصر کو الگ کیا جا سکے-
مُدثر ایوب
تمام ممالک پر ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں- دوسرایہ کہ بطور انسان ہمیں ہمیشہ ضرورت مند اور پسے ہوئے لوگوں کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آنا چاہیے-
لٹز عینکے
اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شام کی جنگ کے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم ا﴾- ترکی، اردن، اور لبنان میں قائم مہاجر بستیوں کو صحیح طرح فنڈ مہیا کریں- ب﴾-یورپی ممالک کو خود فیصلہ کرنے دیں کہ کون سے اور کتنے پناہ گزین وہ اپنے ملک لے جا سکتے ہیں- ج﴾- ایسے مہاجرین جو آسانی سے ضم ہو سکیں ،ان کو فوقیت دینا چاہیے- د﴾ -باقی تمام کے لیے یورپ کی سرحدیں لازماً بند کر دینی چاہیں-
شجاہت ایچ ہاشمی
دوسرے ممالک کو مہاجرین کو پناہ دینی چاہیے کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے- البتہ اصطلاح ’’مہاجرین‘‘کی واضح تعریف ہونی چاہئے اور قانونی حدود اور بین الاقوامی قوانین کو مدِ نظر رکھا جانا چاہیے-
جین باپٹیسٹ برٹرنڈ
اگر موقع دیا جائے، مہاجرین اپنے میزبان ملک میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں- اگر آپ انہیں اپنے سے بہت دور کیمپوں میں رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے نسبتاََ اس کے کہ اگر آپ انہیں اپنے ساتھ شامل ہونے دیں، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے دیں اور ٹیکس ادا کرنے دیں- اصل سوال یہ نہیں کہ کیا ہمیں مہاجرین کو قبول کرنا چاہئے، بلکہ ﴿اصل سوال یہ ہے کہ ﴾ کیسے ﴿قبول کرنا چاہئے﴾ ؟
مرکو نیسینن:فیصلے حقیقت پر مبنی ہونے چاہیں نہ کہ امیدوں اور خوابوں پر-
اسامہ بن اشرف
مہاجرین کی حفاظت کا بین الاقوامی نظامِ، جو ۱۵۹۱ئ کے مہاجرین کنونشن پر بنیاد کردہ ہے ،ایک بنیادی مسئلہ سے دو چار ہے یعنی اس میں ریاستوں کی مہاجرین کیلئے واضح ذمہ داریوں، اور دوسری ریاستوں کے لیے ذمہ داریوں کی واضح نشاندہی کی کمی ہے-
ارسلان وردگ
حضرت محمد ﴿ﷺ﴾ کا قول مبارک ہے کہ
’’تم میں سے کسی ﴿مسلمان﴾ کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی ﴿دوسرے مسلمان/انسان﴾ کے لیے وہی چیز پسند نہیں کرتا جو وہ خود اپنے لئے کرتا ہے‘‘-
اس لیے، اللہ نہ کرے، اگر کل کو آپ مہاجر ہوں تو آپ دوسرے انسانوں سے کیا امید رکھیں گے؟ جواب واضح ہے-
اوزگر زیرن
جِن کی زندگیاں خطرے میں ہیں انہیں بچانے سے انکار کی کوئی عقلی، قابلِ قبول دلیل نہیں ہے- البتہ اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ بہت سے ممالک اور بین الاقوامی مفادات مہاجرین کو خارجہ پالیسی کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جس سے میزبان ممالک غیر مستحکم ہو سکتے ہیں-
محمد عبد اللہ
ہم نیشنل جیوگرافک یا کوئی اور جنگلی حیات کا چینل دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سائنسدان یا محققین جانوروں کو بچانے کیلئے پوری کوشش کر رہے ہیں- چنانچہ ہمیں انسانوں کو بھی بچانا چاہیے اور مہاجرین کو اس طرح قبول کرنا چاہئے جس طرح انصار ِ مدینہ نے کیا، چاہے مہاجرین کسی رنگ یا نسل سے ہوں-
حسیب صدیقی
میں مکمل طور پر متفق ہوں کہ دوسرے ممالک کو مہاجرین کو قبول کرنا چاہیے چاہے وہ کسی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہم ان مسائل اور مصیبتوں کو در پردہ نہیں ڈال سکتے جو مہاجرین کی نقل و حرکت سے پیدا ہوتے ہیں-یا- مَیں ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ معاشی طور پر مستحکم ممالک مثلاََ برطانیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، دبئی اور برونائی وغیرہ اپنے دروازے مہاجرین کے لیے کیوں نہیں کھولتے، جبکہ وہ ایسا کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں-
کواکس فرینزی نوئمی
ایسے مہاجر کو قبول کرنا جو بہت قابلیت رکھتا ہو اور شاید میزبان ملک کو معاشی فائدہ پہنچائے گا جبکہ ایسے شخص کو داخلے کی اجازت نہ دینا جو فقط نوکری کی تلاش میں آئے، منافقت سے بھی برا ہے- بلاشبہ خداداد صلاحیت رکھنے والے لوگ اپنی اعانت کے اعتبار سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں لیکن جب بات زندگی کی آئے تو کوئی بھی زیادہ مستحق نہیں-
کیتھ چالمرز
جو لوگ یورپ کی سرحدوں پر رہ رہے ہیں یہ ان گھروں سے آئے ہیں جہاں ٹیلی ویژن ، فون، کھانے پکانے کے آلات اور دیگر جدید آلا ت موجود ہیں اور میرے مطابق ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے- ہمیں ایسے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں بلکہ ہمیں ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا چاہئے کہ جیسے وہ، ہم ہی ہیں-
منظور احمد خان
مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر قبول کیا جانا چاہئے نہ کہ مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر- وہ لوگ جو مسلمان مہاجرین کو بوجھ سمجھ رہے ہیں وہ نسل پرستوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں-
مباحثہ کا نتیجہ:
۰۱ ، اپریل، ۶۱۰۲ئ کو ماڈریٹر جناب حمزہ افتخار نے ڈیبیٹ کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ۳۷ فیصد لوگوں نے ڈیبیٹ کے موضوع کے حق میں جبکہ ۷۲ فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیا- اس طرح موضوع کے حق میں دلائل دینے والی ڈاکٹر کرسٹن مک کوناچی نے کامیابی حاصل کی-
اس کے ساتھ ساتھ موضوع کی مخالفت میں دلائل دینے والے جناب ڈیوڈ گڈہارٹ کے دلائل اور اس مباحثہ کے موضوع کے خلاف ووٹ دینے والے ۷۲ فیصد لوگوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ڈیبیٹ میں دئیے گئے منطقی دلائل، ماہرانہ گفتگو اور اظہاراتِ خیالات کی روشنی میں اس موضوع سے متعلقہ بہت سے نئے زاویے سامنے آئے- یہ بھی واضح ہوا کہ مہاجرین کا مسئلہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح کی سنجیدہ کاوشیں درکار ہیں-
امید ہے کہ اس ڈیبیٹ میں ہونے والی بحث اور پیش کئے جانے والی تحقیق ، تبصرے اور تجزیے آنے والے دنوں میں مہاجرین کے مسائل پر کام کرنے والے محققین، ایکٹیویسٹ اور پالیسی سازوں کیلئے کارآمد ثابت ہوں گے-
مکمل رپورٹ کے لئے دی مسلم ڈیبیٹ ڈاٹ کام کا وزٹ کریں -
http://www.themuslimdebate.com/debates/refugee-crisis/
’’دی مسلم ڈبیٹ‘‘ معروف تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی مکالمہ و مباحثہ کا ایک آن لائن فورم ہے جس میں ’’اوکسفرڈ ڈبیٹ فارمولہ‘‘ کے تحت مباحثہ کیا جاتا ہے - ایک سوال پیش کیا جاتا ہے جس پہ دو مختلف آرأ رکھنے والے اس موضوع کے ماہرین اپنے اپنے مؤقف کے حق میں علمی و دانشورانہ دلائل دیتے ہیں اور دُنیا بھر سے لوگ ووٹ اور کمنٹس کے ذریعے مباحثہ میں شامل ہوتے ہیں - لوگوں کی آرأ اُن کے ذاتی خیالات پہ مبنی ہوتی ہیں جن سے ادارہ کا کوئی تعلُّق نہیں ہوتا - اِس قبل بھی عالمی اہمیّت کے متعدد موضوعات پہ اس فورم کے تحت مباحثہ جات کروائے جا چکے ہیں ، جبکہ حالیہ دنوں میں بھی مسلم انسٹیٹیوٹ کے آن لائن ڈیبی