تاریخ کے گزشتہ ادوار کی طرح اکیسویں صدی کے سولہویں (۱۶)سال میں بھی دنیا کے سیاسی منظر نامے میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئی اور سائنسی میدان میں بھی نئی ایجادت ہوئی جن میں کئی ایسی تبدیلیاں اور ایجادات ہیں جن کے اثرات آنے والے دنوں میں بہت زیادہ ہوں گے- ذیل میں ۲۰۱۶ء میں ہونے والی اہم سیاسی تبدیلیاں اور اہم سائنسی ایجادات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے-
روضۂ رسول (ﷺ) پہ حملہ کی مکروہ و ناپاک جسارت:
رمضان المبارک کے آخری ایام میں امتِ اسلامی کے عقیدہ و عقیدتوں کے مرکز تاجدارِ انبیا شاہِ لولاک خاتم النبیّین (ﷺ) کے روضۂ اقدس پہ حملہ کی ناپاک کی گئی ، دہشت گردوں کا نشانہ گنبدِ خضریٰ تھا مگر وہاں تک وہ نہ پہنچ سکے جس وجہ سے مسجد نبوی شریف کا ایک حصہ اُس سے ضرور متاثر ہوا – اِس سے بڑھ کر کسی قوم و ملت کے لئے غم و اندوہ اور بد بختی و بد نصیبی کی کوئی اور انتہا نہیں ہو سکتی کہ جس ہستی پاک سے محبت مال و دولت ، خویش قبیلہ ، ماں باپ ازواج و اولاد سے بڑھ کر حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کرنا شرطِ ایمان ہو اُس ہستی پاک کے روضہ ٔ اقدس پہ ایسی مکروہ ، ناپاک اور خبیث حرکت کم از کم کسی مسلمان کا ضمیر برداشت نہیں کر سکتا –مسلم شریف کی حدیث کے مطابق ’’مدینہ پاک میں فتنہ کا کام ایجاد کرنے والے پہ اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کی کوئی عبادت قبول نہ ہو گی‘‘ - ایک اور روایت میں ہے کہ ایسا کرنے والے کو’’ جہنم میں ایسے پگھلایا جائے گا جیسے سیسہ آگ میں اور نمک پانی میں پگھلتا ہے ‘‘-
مدینہ طیبہ وہ مبارک و مقدس شہر ہے جس کے درخت کاٹنے ، پرندے اور جانور شکار کرنے کی ممانعت ہے ، اس شہر کے باسیوں کو دہشت زدہ کرنے والوں ، دھوکہ دینے والوں اور ان کا برا سوچنے والوں کو خود رسالت مآب (ﷺ) نے عذاب کی وعید سُنائی -
پاناما پیپرزلیک:
اپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز کی صورت میں انسانی تاریخ کے سب سے بڑے دستاویزی انکشافات کی ایک تہلکہ خیز خبر سامنے آئی جس نے پوری دنیا میں سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات کےپوشیدہ جائیدادوں کا راز کھول دیا- ایک کروڑ پانچ لاکھ دستاویزات جو کے گاہکوں کی دو لاکھ چودہ ہزار آف شور (بیرون ملک قائم ) جائیدادوں کی تفصیلات پہ مشتمل تھی ان تفصیلات کا تعلق ’’پانامہ کی لاء فرم و کارپوریٹ سروس‘‘ فراہم کرنے والی فرم موساک فونسیکا (Mossack Fonseca)سے متعلق تھا جس فرم کا ایک اہم کاروبار بیرون ملک قائم کمپنیاں کھولنے میں گاہکوں کی مدد کرنا ہے-ٹیکس ہیون میں دولت چھپانے والوں کی فہرست میں لیڈر،اداکار،کھلاڑی،کاروبار سے جڑی کئی نامور شخصیات کے نام ہیں-انکشافات کےمطابق ولادیمیر پوٹن (Vladimir Putin)اور نواز شریف کے بچوں کے علاوہ دنیا کے تقریباًایک سو چالیس(۱۴۰)بڑے لیڈروں نے اپنی بڑی دولت ٹیکس ہیون ملک میں چھپا رکھی ہے- اس فہرست میں،بےنظیربھٹو،چین کےصدر شی جن پنگ(Xi Jinping)، مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، شام کے صدر بشار الاسد کا نام بھی شامل ہے-
چلکوٹ رپورٹ:
عراق میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کا ڈھونگ رچا کر نیٹو افواج نے عراق پہ جو جنگ مسلط کی جس سے پورے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ وبرباد ہو گیا اور لاکھوں لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں اس کی تفتیش کےلیے برطانیہ میں ایک پبلک انکوائری،سر جان چلکوٹ کی سربراہی میں ۲۰۰۹ءمیں قائم کی گئی اس کی رپورٹ ۶ جولائی ۲۰۱۶ء کو پیش کی گئی جس میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر (Tony Blair)اور امریکی صدرجارج ڈبلیو بش (George W Bush) کی عراق جنگ میں سنگین جنگی جرائم کے چشم کشا انکشافات ہوئے-عراق پر جنگ مسلط کرتے ہوئے ایک جانب تو اقوام متحدہ کا ادارہ برائے سلامتی کی اتھارٹی کو پامال کیا گیا اور دوسری جانب بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں-اس رپورٹ کےمطابق عراق جنگ ایک غیر ضروری اور تباہ کن قدم تھا-اس رپورٹ کے شائع ہونے کے فوراً بعد ٹونی بلئیر نے شرمندگی کے عالم میں پریس کانفرنس میں اقبالِ جرم کیا-لیکن مہذب اقوام کے اس سوال کا جواب ابھی باقی ہے کے کرۂ ارض کے ایک پورے خطے میں خون کی ندیان بہا دینے کے بعد کیا ایک اعترفی بیان کافی ہے؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی:
یورپی یونین جو کہ یورپ کےاٹھائیس (۲۸)ممالک پرمشتمل ایک سیاسی و اقتصادی اتحاد ہے برطانیہ ۱۹۷۳ءسے ۲۰۱۶ء تک اس اتحاد کا حصہ رہا- گزشتہ سالوں میں برطانیہ کے اقتصادی مفادات کے پیش نظر برطانیہ میں یہ بحث چھڑ گئی کہ برطانیہ کو یورپ کا اتحادی رہنے میں فائدہ ہے یا نقصان- اس مسئلہ پر فیصلہ کن مؤقف اور عوامی رائے جاننے کے لیے برطانوی حکومت نے ۲۳ جون ۲۰۱۶ء کو ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جس میں باون (۵۲) فیصد لوگوں نے یہ فیصلہ دیا کہ برطانیہ کو یورپ سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے- یورپی یونین پر اس فیصلے کے تو برے اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن برطانیہ پر اس کے دوررس نتائج کیا واقع ہوں گے؟ماہرین نے ابھی اس پہ کوئی حتمی رائے نہیں دی مگر فی الفور اثرات یہ ہیں کہ برطانیہ کی معیشت کو اس فیصلہ سے ایک جھٹکا ضرور لگا ہے جیسا کہ پاونڈ کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے- ساتھ ہی ساتھ کچھ ماہرین مغرب میں بڑھتی نسل پرستی اور لسانی و جغرافیائی بنیادوں پر قومیت پرستی کے زور پکڑتے تصورات کو اس عوامی فیصلے کا سبب قرار دے رہے ہیں-
شمالی کوریا : ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ
ایٹمی ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے اور پورے ملک کو صفحٔہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں-ایٹمی ہتھیاروں کی دو اقسام ہیں جن میں سے ایک کو ایٹم بم اور دوسرے کو ہائیڈروجن بم کہتے ہیں- ایٹم بم انتہائی مہلک ہتھیار ہے جبکہ ہائیڈروجن بم اس سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار ہے-ادارہ برائے بین الاقوامی امن سٹاک ہوم کے تحت اس وقت دنیا میں کل نو ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے پاس کل سولہ ہزرا تین سو(۱۶،۳۰۰) ایٹمی ہتھیار ہیں- شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربہ کا دعویٰ کیا- اگر یہ سچ ہے تو شمالی کوریا کا ۲۰۰۶ء کے بعد سے اب تک ایٹمی ہتھیاروں کا یہ چوتھا تجربہ ہے- مختلف ممالک کے رہنماؤں نے ان تجربات پہ کڑی تنقید کی جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو خودبھی ایٹمی ہتھیاروں کی طاقت رکھتے ہیں اور ان کو عالمی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے-
ترکی کی فوج کا حکومت پہ قبضہ کاناکام منصوبہ:
۵جولائی ۲۰۱۶ء کو ترکی کی فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک ناکام کوشش کی- ترکی کے عوام نے حکومت کے خلاف فوجی بغاوت اپنے لیڈررجب طیب ایردوان(Recep Tayyip Erdoğan) کے کال پہ ناکام بنا دی- صدر کی ایک اپیل پر چند لمحوں میں ملک کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد باہر نکل آئےجنہوں نے جمہوریت کا ساتھ دیا- بلکہ صدر ایردوان بھی اس پوری مہم جوئی (adventure) کے دوران اپنے عوام کے ساتھ ساتھ، بلکہ ان کے درمیان نظر آئے،جس سے عوام کا ان پر اعتماد مزید مضبوط ہوا ہے- اس پورے کھیل کا ماسٹر مائنڈ (Master Mind)ترک حکومت کی جانب سے ہزمت تحریک کو قرار دیا گیا ہے -امریکا روس، برطانیہ ، اقوام متحدہ اور باقی عالمی برادری کی جانب سے ترکی میں جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا- طیب ایردوان جو کہ ترکی میں اسلامی روایات کو بھی بتدریج فروغ دے رہے ہیں اور ان کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے - اس ناکام مارشل لاء سے ان کی مخالفت کرنے والوں کی بھی شکست ہوئی ہے-اس میں کوئی شک نہیں کہ رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکی ایک بار پھر امتِ مسلمہ کے لیڈر کی صورت میں ابھر رہا ہے-
ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر منتخب ہونا:
بڑی عالمی طاقت ہونے کے ناطے امریکی صدر کا انتخاب عالمی حلقوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے- موجودہ امریکی صدر کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے اس لیے نئے امریکی صدر کے انتخاب کے لیے ۸ نومبر ۲۰۱۶ءکو امریکہ میں انتخابات منعقد ہوئے- یہ انتخابات اس لئے بھی اہم ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنی انتخابی مہم میں لگائے گئے نعرے بہت زیادہ زیرِ بحث اور تنقید کا نشانہ بھی بنے رہے مثلاً تمام مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنا،میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر وغیرہ - امریکہ میں دو جماعتی نظام کی وجہ سے ’’ری پبلیکنز اور ڈیموکریٹ ‘‘آمنے سامنے ہوتے ہیں- ری پبلکنز بنیادی طور پر قدامت پسند اور دائیں بازو کی جماعت ہے- ڈیموکریٹس دوسری جانب معتدل اور بائیں بازو کی جماعت ہے حالیہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جانب سے ہیلری کلنٹن صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں جو کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیں اوردوسری جانب ری پبلکنز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار کے طور پہ سامنے آئے- ڈونلڈ ٹرمپ ہیلری کلنٹن کو اپ سیٹ شکست دے کر چار (۴)سال کے لیے امریکا کےپنتالیسویں(۴۵) ویں صدر منتخب ہوگئے- ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے درمیان عہدہ صدارت کے لیے کانٹے کا مقابلہ ہوا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نےدو سو نوے(۲۹۰) الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ صدر منتخب ہونے کے لیےپانچ سو اڑتیس(۵۳۸) میں سے کم سے کم دو سو ستّر (۲۷۰)الیکٹورل ووٹ کی ضرورت تھی-
کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی:
حریت نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت کے ردِّ عمل میں کشمیر میں اٹھنے والی عظیم تحریک کے بعد بھارت نے معصوم اور نہتے کشمیریوں پرریاستی دہشت گردی کے ذریعے ظلم و بربریت کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے-مقبوضہ کشمیرمیں کرفیو نافذ ہونے کے بعد بھارتی قابض افواج کی جانب سے بچوں کو زخمی کرنا اور پیلٹ گن کے غلط استعمال سے ان کی بینائی چھیننے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے- بھارتی سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈھونگ بھی دراصل عالمی برادری کی کشمیر کی تشویشناک صورتحال اور انسانی حقوق کی پامالی سے توجہ ہٹانے کے لیے رچایا گیا تھا - اگر ذرائع ابلاغ کی بات کریں تو بھارت نے مقبوضہ ریاست میں اخبارات پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ کشمیریو ں کی آواز کو دبا دیاجائےاور جنگی جرائم اور بربریت کو چھپایا جاسکے-کشمیر میں نافذ کرفیو کشمیر کی تاریخ میں سب سے طویل کرفیو ہے جوکہ ابھی تک کچھ علاقوں پہ نافذ ہے- مگر کشمیری قیادت اور عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ بھارتی تسلط کی زنجیریں ٹوٹنے تلک تحریک اِسی طرح جاری رہے گی -
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی:
۲۰۱۶ء کی ایک اندوہ ناک خبر یہ ہے کہ میانمار (برما)کی افواج روہنگیا کےمسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں جس کے باعث مسلمان اقلیت بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی پرمجبور ہے-اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر)کےسربراہ مک کسک کے مطابق میانمار میں روہنگیا کےمسلمانوں کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے-انہوں نے کہا ہےکہ میانمار کی فوج اور سرحدی افواج مشترکہ طور پر روہنگیا کے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کررہی ہیں،سیکیورٹی فورسز کے اہلکار مردوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا رہے ہیں، بچوں کو ذبح کر رہے ہیں اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں-اس کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کے گھر لوٹے جا رہے ہیں اور انہیں دریا پار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے-آسیان ممالک اور عالمی برادری کو چاہیے کہ اگر میانمار کی حکومت باز نہ آئے تو ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں- عالمی ضمیر کے منہ پہ سب سے بڑا طمانچہ یہ ہے کہ اس وقت میانمار میں امن کا نوبل ایوارڈ لینے والی آنگ سانگ سوشی برسرِ اقتدار ہیں اور اُن کی ناک تلے ان کی ایما پہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ امن کا نوبل ایوارڈ ہے یا قتلِ عام کا ؟
ایران اور عرب ممالک میں کشیدگی:
۲۰۱۶ءکےآغازسے سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت دیگرچھالیس(۴۶)افراد کو موت کی سزا دینے کے فیصلے کے بعد علاقے میں فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا ہوگئی-ایران میں سعودی سفارتخانہ کےسامنے مظاہرے سے اس کشیدگی میں اضافہ ہو گیا-جس کے بعد سعودی عرب اور اس کے متعدد اتحادی ممالک نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم یا محدود کردیا-یہ کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ایسے نازک حالات میں سعودی عرب میں موجود ایرانی سفارتخانہ پر حملہ ہوا جس کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دیگر کئی ممالک نے مذمت کی-سعودی عرب نے یہ بیان جاری کیا کہ اس واقع سے سعودی عرب کی حکوت کا تعلق نہیں-لیکن اس واقعے کے بعد ایران و سعودی عرب کے تعلقات خطرناک ترین موڑ پہ پہنچ گئے- وقت گزرنے کے ساتھ اس کشیدگی میں کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن ابھی سفارتی تعلقات مکمل طور پہ بحال نہیں ہوئے-ان دونوں ممالک میں بہتر تعلقات خطے میں امن کے لیے انتہائی ضروری ہیں، ان دونوں ممالک کا عالمِ اسلام میں ایک قد و کاٹھ ہے جس وجہ سے ان کی کشیدگی پورے عالمِ اسلام پہ اثر انداز ہوتی ہے -
موسمیاتی تبدیلی کے سدباب کا کامیاب تجربہ:
موسمیاتی تبدیلی جو کہ عصر حاضر میں بنی نوع انساں کو لاحق بڑے خطرات میں سے ایک ہے اس کا بڑا محرک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو کہ فوسل فیول کو جلانے کے باعث فضا میں خارج ہوتی ہے-اس کے باعث کرۂ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے-آئس لینڈ میں کی گئی ریسرچ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پانی میں حل کر کے زیر زمین چٹانوں میں چونے کے پتھر کی صورت میں دفن کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دو سال کا عرصہ درکارہے-سائنس دانوں کے نزدیک یہ ایک بڑی ایجاد ہے جس کے ذریعےموسمیاتی تبدیلی کا کسی حد تک تدارک ممکن ہے- لیکن اس امر کے لیے سربرہان مملکت کے مصمم ارادے اور خطیر رقم بھی درکار ہے پھر ایسی قانون سازی کی بھی ضرورت پڑے گی جس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیر زمین دفن کرنے کے اس عمل پر سختی سے کاربند ہوں-
ثقلی لہریں:
فروری ۲۰۱۶ءمیں ثقلی لہروں کی دریافت کے دعویٰ نے سو سال قبل پیش کئے گئے البرٹ آئین سٹائن کے نظریہ (General Theory of Relativity) کی توثیق کر دی-اس دریافت کے مطابق ثقلی لہریں دراصل زمان و مکان میں پیش آنے والی لہر یں ہیں- انتہائی باریک بینی کے ساتھ کئے جانے والے اس مشاہدہ میں ۱.۳ کروڑ سال قبل دو بلیک ہولز کے ملنے کے دوران پیدا ہونے والی ثقلی لہروں کو ماپا گیا ہے- اس دریافت کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کے مطالعہ کے لئے ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے اور آنے والے سالوں میں ثقلی لہروں کے مطالعہ سے کئی اہم رموز سے پردہ اٹھے گا-
زمین جیسے سیارے کی دریافت:
اگست میں ماہرین فلکیات نے قریباً چار نوری سال کے فاصلہ پر واقع زمین سے سب سے قریبی ستارےProxima Centauri کے گرد گھومنے والے ایک سیارے Proxima b کی دریافت کا اعلان کیا جس کی ماہیت زمین سے بہت ملتی جلتی ہے-مزید برآں Proxima Centauri کی کچھ خصوصیات بھی ہمارے سورج سے مماثلت رکھتی ہیں- Proxima bکا درجہ حرارت اپنی سطح پر پانی کی موجودگی کے لئے موزوں قرار دیا جارہا ہے جو زندگی کی موجودگی کے لئے ضروری ہے- اگرچہ یہ واضح نہیں کہ کیا وہاں کوئی زندگی موجود ہے یا نہیں تاہم اس کے امکانات موجود ہیں- اس دریافت کے بعد خلائی مخلوق کی موجودگی کی بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے-
خودکار نرم(soft) روبوٹ’’آکٹوبوٹ‘‘کی تیاری:
ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک چھوٹا نرم روبوٹ جو مکمل طور پر لچکدارہے تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں کسی قسم کا برقی سسٹم یا بیٹری استعمال نہیں کی گئی بلکہ مائع اور کیمیائی مادوں کےذریعے اس کے افعال سر انجام پاتے ہیں- اس روبوٹ کو آکٹوپس سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ہے-سائنسدانوں کے مطابق نرم مادوں سے تیار ہونے والے اس روبوٹ کے بعدزندہ اشیاء کے مشابہ روبوٹ کی تیاری کی بھی امید ہے-
دماغ واعضاء میں مصنوعی رابطہ:
انسانی دماغ کے سگنلز کو سمجھنے اور پرکھنے میں اس وقت بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے کہ جب پانچ (۵)سال قبل گردن میں چوٹ لگنے پرحرام مغز کو نقصان پہنچنے کے باعث معذور ہونے والے شخص کے دماغ اور ہاتھوں میں مصنوعی طریقے سے رابطہ ممکن ہوا-اس ضمن میں چوبیس (۲۴)سالہ معذور شخص کے دماغ میں ایک چِپ لگائی گئی جس کا رابطہ ایک کمپیوٹر کے ذریعے اس کے ہاتھ سے کیا گیا- دو سال کےعرصہ میں اس شخص نے دماغ میں موجود چِپ کے ذریعے اپنے ہاتھ کو ڈائریکٹ سگنل بھیجنا سیکھ لیا ہے اور اب اسے اپنی مرضی سے حرکت دے سکتا ہے- تاہم اس کے لئے اسے کمپیوٹر کے پاس رہنا ضروری ہے- ڈاکٹرز اور محققین پُر امید ہیں کہ آنے والے وقت میں اس مجبوری کا حل بھی تلاش کر لیا جائےگا اور اب اعصابی نظام کو پہنچنے والے حادثاتی نقصانات یا بیماریوں کے باعث معذور افراد کے علاج کی راہ ہموار ہوگی-
ہائیڈروجن سے ایٹمی توانائی (فیوژن) کے حصول کے لئے تجربات:
ایٹمی توانائی کے حصول کے موجودہ طریقہ کار میں تابکاری مادہ کے ذریعے توانائی حاصل کی جاتی ہے جس میں ایک ایٹم ٹوٹ کر چھوٹے ایٹموں میں تبدیل ہوتاہے (fission)جبکہ سائنسدان ایسے طریقہ کار کو عمل میں لانے کےلئے کوشاں ہیں جس میں دو چھوٹے ایٹم مل کر ایک بڑا یٹم بناتے ہیں (fusion)- فیوژن کا عمل فشن کی نسبت بہت زیادہ توانائی پیدا کرتا ہےاوریہ تابکاری مادہ (یورینیم، پلوٹونیم) کی بجائے ہائیڈروجن کی خاص قسم (آئیسوٹوپس) کو بطور ایندھن استعمال کرتا ہے اور ہائیڈروجن، آکسیجن کے ساتھ پانی کا بنیادی جز ہے- مزید برآں فیوژن کے عمل میں بننے والا فاسد مادہ اتنا خطرناک بھی نہیں اور اس سے جلد نمٹنا ممکن ہے تاہم فیوژن میں سب سے بڑا چیلنج اس عمل کو شروع کرنے کے لئے دس کروڑ ڈگری سنٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت کی ضرورت ہے-اتنے زیادہ درجہ حرارت پر مادہ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس چیلنج پر گزشتہ سات دہائیوں سے سائنسی حلقے کام کر رہے ہیں جس کےلئے بہت پیچیدہ اور زیادہ مقناطیسیت کی ضرورت ہوتی ہے- حالیہ تجربہ میں جرمنی کے سائنسدانوں نے سٹیلاریٹر (stellarator) نامی مشین سے پندرہ کروڑ ڈگری درجہ حرات پر مقناطیسیت کے ساتھ مادہ کے ذرات کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کیا ہے-اس تجربہ کو فیوژن توانائی کے زیرِ استعمال آنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے-
٭٭٭