چائنہ تائیوان تنازعہ : موجودہ صورتحال اور مستقبل کے ممکنات کے تناظر میں

چائنہ تائیوان تنازعہ : موجودہ صورتحال اور مستقبل کے ممکنات کے تناظر میں

چائنہ تائیوان تنازعہ : موجودہ صورتحال اور مستقبل کے ممکنات کے تناظر میں

مصنف: محمد محبوب ستمبر 2022

ابتدائیہ:

حالیہ دنوں میں چائنہ اور تائیوان کے درمیان تنازعہ میں شدت اور بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پوری دنیا کی توجہ اپنے جانب مبذول کروائی ہے- اس تنازعہ میں شدت پیدا ہونے سے نہ صرف علاقائی امن و امان بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوتے نظر آئے ہیں کیونکہ اس تنازعہ سے عالمی طاقتوں کے براہ راست مفادات جڑے ہوئے ہیں-اس حالیہ کشیدگی کی وجہ چائنہ کا بار بار تنبیہ کرنے کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر اور تیسری سب سے بڑی شخصیت نینسی پیلوسی (Nancy Pelosi) کا اپنے وفد کے ہمراہ تائیوان کا دورہ کرنا ہے- انہوں نے اپنا یہ دورہ ایشیا ءکے چار ممالک (جس میں سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان شامل تھے) کے دورے کے دوران کیا-نینسی پیلوسی 1997ء کے بعد سے تائیوان کا دورہ کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی سیاست دان ہیں-اس سے قبل چینی صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر جوبائیڈن سے بات کرتے ہوئے تائیوان کے معاملے پر امریکا کو خبردار کیا تھا کہ تائیوان کے معاملے پر ’’آگ سے کھیلنے سے گریز کریں‘‘-چین اس دورے کو اپنی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کے اصول کیلئے ایک چیلنج سمجھتا ہے-اس دورے کے ردِعمل میں اپنی پہلی جوابی کاروائی کے طور پر چین نے تائیوان کے آس پاس فوجی مشقوں کا اعلان کیا جن کے دوران بیلیسٹک میزائل بھی استعمال کیے گئے-

زیرِ نظر مضمون ’چائنہ-تائیوان تنازعہ‘ کی تاریخ، تنازعہ کے متعلق چائنہ اور تائیوان سمیت عالمی برادری کے مؤقف اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں مستقبل کے ممکنات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس تنازعہ میں کشیدگی کس طرح عالمی امن کو متاثر کر سکتی ہے اور اس کے خطے پر خطرناک منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں -

چائنہ-تائیوان تنازعہ کی تاریخ:

جغرافیائی طور پر تائیوان ایک جزیرہ ہے جو چینی سرزمین  (مین لینڈ) کے جنوب مشرقی ساحل سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے-آبنائے تائیوان (Tiwan Starit) اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے-تائیوان کا رقبہ تقریباً 36 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 2 کروڑ 36 لاکھ کے قریب ہے- اس کی شمال مغربی سرحد سمندری پانیوں پر مشتمل ہے جو چین کاسمندری علاقہ ہے- شمال مشرقی سمندری سرحد جاپان جبکہ جنوب میں فلپائن کا سمندر ہے-

اگر ہم چائنہ اور تائیوان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جزیرہ پہلی مرتبہ 17ویں صدی میں چِنگ خاندان (Qing dynasty) کے زیر کنٹرول آیا اور 1895ء  میں پہلی چین-جاپان جنگ کے بعد اس جزیرے کا کنٹرول جاپان کے پاس چلا گیا-جب 1945ء میں دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی تو چین (جو کہ اتحادی افواج کا حصہ تھا) نے تائیوان کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا- لیکن ساتھ ہی مین لینڈ چائنہ پر ماؤزے تنگ کی سربراہی میں کمیونسٹوں اور چیانگ کِائی شیک کی سربراہی میں نیشنلسٹوں کے درمیان خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا تھا- اس خانہ جنگی کے دوران 1949ء میں جنرل چیانگ اور اس کی کوومنتانگ (KMT) حکومت کو کمیونسٹوں کے ہاتھوں شکست ہوئی- نیشنلسٹوں کی اس شکست کے نتیجے میں کیمونسٹ پارٹی نے بیجنگ کا کنٹرول سنبھال لیا اور مین لینڈ چائنہ کو پیپلز ریپبلک آف چائنہ ڈکلیئر کر دیا گیا-[1] دوسری طرف چیانگ اور ان کی باقی ماندہ کیومنتانگ (کے ایم ٹی) حکومت کے ارکان نے 1949ء میں ہی تائیوان کے جزیرے پر پناہ لی اور اس خطے میں ’جمہوریہ چین‘ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہی اب بھی قانونی حکومت ہیں-تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور آزادانہ حکومت قائم ہے اور تائیوان کو سرکاری طور پر ’’جمہوریہ چین‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ چین (مین لینڈ) کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے-[2]

تائیوان کی تزویراتی اہمیت:

تائیوان اگرچہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے لیکن اس کی جغرافیائی حیثیت اسے تجارتی، اقتصادی، سیاسی، معاشی اور دفاعی لحاظ سے اہم بناتی ہے- سمندر کے گہرے ہونے کی وجہ سے تجارتی اعتبار سے تائیوان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے-تائیوان مشرقی بحیرہ چین، بحیرہ جنوبی چین اور فلپائن سمندر کے کناروں پر واقع ہے- یہ جاپانی جزیروں کی چین کے قریب جنوب مغرب میں بھی واقع ہے اور اوکی ناوا کے بہت قریب ہے اس لیے جاپان سے نمایاں طور پر قریب ہے- پچھلی کئی صدیوں سے، تائیوان ایک تزویراتی جزیرہ رہا ہے اور ساتھ ہی جاپان اور چین پر حکمرانی کرنے والے مختلف خاندانوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بھی رہا ہے-

 عالمی سطح پر تائیوان کی معیشت بہت اہمیت کی حامل ہے جو کہ 22ویں سب سے بڑی اکنامی ہے- تائیوان عالمی منڈی میں الیکٹرانک آلات کا بہت بڑا Exporter ہے جس کی اکانومی کا حجم 2021ء میں 790 بلین ڈالرز کے قریب ہے-[3]

تائیوان، چین کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے- تائیوان پر کنٹرول چین کیلئے سمندری پانی اور تجارتی راستوں خصوصاً بحیرہ جنوبی چین میں جانے والے راستوں پر کنٹرول آسان بناتا ہے- آبنائے تائیوان کو خطے کی مصروف ترین شپنگ لین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں ایشیا، مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کی طرف چینی، جاپانی اور کوریائی تجارت کا تقریباً 90 فیصد حصہ اسی آبنائے سے گزرتا ہے- چونکہ چین کی تمام بڑی بندرگاہیں Yellow Sea میں واقع ہیں، اس لیے اس کی تجارت چین کے لیے خاصی اہمیت رکھتی ہے- ایک طرف چین آبنائے تائیوان کے ذریعے تجارت کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف آبنائے سے گزرنے والی اپنی شپنگ لین کی حفاظت کرنا چاہتا ہے- چونکہ چینی معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے، اس لیے چین کو تائیوان پر کنٹرول کی ضرورت ہے تاکہ اس تجارتی راستے پر مکمل کنٹرول ہو-

اگر تائیوان چین کا حصہ ہوتا تو چین بحرالکاہل کے علاقے میں اپنی طاقت کو مزید آسانی سے آگے بڑھانے کے لیے آزاد ہوتا اور اس علاقے میں واقع گوام اور ہوائی جیسے امریکی فوجی اڈوں کو بھی خطرہ لاحق ہوتا - اس کے علاوہ چین کا اثرورسوخ جاپان، فلپائن اور دوسرے آسیان ممالک تک بڑھ جاتا -

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عالمی منظر نامے پر چین اور امریکہ کے مابین پاور گیم جاری ہے اور دنیا Unipolarity سے Multipolarity کی طرف جا چکی ہے تو تائیوان، اس خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لئے امریکہ کے لئے اہم ہتھیار ہے- امریکہ تائیوان کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے اور یہ جانتا ہے کہ تائیوان ایک ایسا علاقہ ہے جس کے اثرات جنوبی جاپان سے شروع ہوتے ہوئے فلپائن اور بحیرۂ جنوبی چین تک پھیلتے چلے جاتے ہیں- سارے علاقے امریکہ کے اتحادیوں سے بھرے ہوئے ہیں- اگر یہاں چین کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے تو اس صورت میں امریکہ کی خطے میں تزویراتی حیثیت میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی-[4]

تائیوان پر اثر و رسوخ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی اور مشرقی سمندروں میں طاقت کا توازن اس کے حق میں ہوگا جس کا اثرو رسوخ یہاں زیادہ ہوگا- اسی لیے امریکہ اور چین کے درمیان طاقت کے حصول کو برقرار رکھنے کی کشمکش جاری رہتی ہے-جس طرح سرد جنگ میں کیوبا امریکہ مخالف کا کردار رہا ہے اسی طرح امریکہ تائیوان کو چین کے خلاف نئی سرد جنگ میں چین کے لئے کیوبا دیکھنا چاہتا ہے-اس خطے میں First island chain ہونے کی وجہ سے تائیوان کو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اہم حیثیت حاصل ہے- اس کے علاوہ امریکہ کی انڈو پیسفک پالیسی میں بھی تائیوان کا مرکزی کردار ہے- ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی امریکہ کا تائیوان پر انحصار ہے- اگر تائیوان چائنہ کے زیر انتظام آ جاتا ہے تو چین اکیلا اس میدان میں Dominate کر جائے گا جو کہ امریکہ کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے-

 چائنہ کا مؤقف:

 تائیوان کے متعلق چائنہ کا ایک واضح اور اصولی مؤقف یہ ہے کہ:

“Taiwan is an Inalienable Part of China. There is only one China in the world, and Taiwan is part of China”.[5]

’’ تائیوان، چین کا غیر منفک اور ناقابل انتقال حصہ ہے- دنیا میں صرف ایک چین ( پیپلز ریپبلک آف چائنہ) ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے‘‘-

اگرچہ 1949ء کی خانہ جنگی کے بعد سے تائیوان پر چین کا مکمل کنٹرول نہیں ہے لیکن چین کی یہی پالیسی ہے کہ وہ تائیوان کو جلد ہی اپنا دوبارہ حصہ بنا لے گا-عالمی امورِ خارجہ میں چین سرکاری طور پر ’’ون چائنہ پالیسی‘‘کا استعمال کرتا ہے جس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیا میں صرف ’’عوامی جمہوریہ چین‘‘ کے نام سے ایک ہی ملک ہے اور اس کے علاوہ چین کے نام پر کوئی دوسرا ملک موجود نہیں ہے- اسی بناء پر عوامی جمہوریہ چین نے اپنا مؤقف واضح الفاظ میں عالمی برادری کے سامنے پیش کیا کہ وہ ممالک جو ’’ون چائنہ پالیسی‘‘ پر یقین نہیں رکھتے اور تائیوان سے بطور جمہوریہ چین دوطرفہ تعلقات قائم رکھتے ہیں-ایسے تمام ممالک سے عوامی جمہوریہ چین اپنے سفارتی تعلقات ختم کردے گا- اس پالیسی کے تحت بیجنگ کی تمام سرکاری دستاویزات اور میڈیا میں ری پبلک آف چائنہ یا حکومتِ تائیوان کہنے کی ممانعت ہے-چینی صدر شی جن پنگ اکثر مواقعوں پر اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ :

’’تائیوان کے ساتھ ’دوبارہ اتحاد‘ ضرور ہو گا‘‘-[6]

انہوں نے واضح کہا کہ کوئی شخص چینی عوام کی قومی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کا دفاع کرنے کی ہمت، عزم اور صلاحیت کو کم تر نہ سمجھے- مکمل اتحاد حاصل کرنے کی تاریخی ذمہ داری ہمیں پوری کرنی ہے اور یہ پوری ہو کر رہے گی-چینی صدر شی جن پنگ نے مستقبل کے ممکنات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد ’’ایک ملک دو نظام‘‘ کے تحت ہو گا اور یہ اسی نظام سے ملتا جلتا ہو گا جو ہانگ کانگ میں رائج ہے- ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن وہ کافی حد تک خود مختار بھی ہے-

تائیوان کا موقف:

تائیوان کا مؤقف، چائنہ کے مؤقف سے یکسر مختلف اور متضاد ہے- تائیوان خود کو ایک خودمختار اور جمہوری ملک سمجھتا ہے اور چین کی ’’ون چائنہ پالیسی‘‘کو مسترد کرتا ہے- تائیوان سرکاری سطح پر خود کو ریپبلک آف چائنہ ڈکلیئر کرتا ہے-تائیوان کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ :

The authorities in Beijing have never exercised sovereignty over Taiwan or other islands administered by the ROC.[7]

’’بیجنگ میں حکام نے کبھی بھی تائیوان یا ROC کے زیر انتظام دیگر جزائر پر خودمختاری کا استعمال نہیں کیا‘‘-

تائیوان کی صدر سائی اینگ نے بار بار اس مؤقف کو دہرایا ہے کہ:

’’تائیوان بیجنگ کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے جمہوری اقدار کا دفاع کرے گا-تائیوان ایک آزاد ملک ہے جسے جمہوریہ چین کہا جاتا ہے، اس کا باقاعدہ نام ہے؛ اور یہ کہ وہ اپنی خودمختاری یا آزادی کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا‘‘-[8]

عالمی برادری کا مؤقف:

تائیوان کے معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی یکساں مؤقف نہیں پایا جاتا ہے لیکن اقوام متحدہ، امریکہ اور روس سمیت اکثریت ممالک چین کی ’’ون چائنہ پالیسی‘‘ کی حمایت کرتے ہیں اور ان ممالک کے تائیوان کے ساتھ باضابطہ  کوئی سرکاری سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں-

 تائیوان خانہ جنگی کے دوران 1945ء میں اقوام متحدہ کے بانی اراکین میں شامل تھا- لیکن 1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 25 اکتوبر 1971ء میں 2758ویں قرارداد کی منظوری کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں ریپبلک آف چائنہ (تائیوان) کی جگہ لے لی- اقوام متحدہ نے سرکاری طور پر ’ون چائنہ پالیسی‘ کو قبول کیا ہے-

حالیہ کشیدگی میں اقوام متحدہ نے چین کے مؤقف کی تائید کی ہے اور سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعلقہ قراردادوں اور ایک چین کے اصول کی پاسداری کرتے ہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اسی اصول کی رہنمائی میں کرتے ہیں-[9]

امریکہ نے شروع میں 1945ء سے 1979ء تک جمہوریہ چین (تائیوان) کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات اور دفاعی تعلقات قائم رکھے لیکن تین دہائیوں بعد عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے- امریکہ سرکاری سطح پر چین کی’’ون چائنہ پالیسی‘‘ کی حمایت کرتا ہے لیکن اس کے تائیوان کے ساتھ غیر رسمی سفارتی اور معاشی تعلقات قائم ہیں -امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے ’تائیوان ریلیشنز ایکٹ‘ کے تحت اسے ہتھیار فروخت کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے جزیرے کو اپنے دفاع کیلیے وسائل ضرور فراہم کرنا ہوں گے-

 تائیوان ریلیشنز ایکٹ 10 اپریل 1979ء کو امریکی کانگریس نے منظور کیا، جو آج بھی نافذ العمل ہے جس کے ذریعے امریکہ نے تائیوان کی حکومت کو حملے کی صورت میں دفاع کے لیے ضروری آلات فراہم کرنے کا وعدہ دے رکھا ہے-اسی قانون نے چین کو اس علاقے کے الحاق سے روکنے کے لیے ’اسٹرٹیجک ابہام‘ قائم رکھا ہے-

چین اور امریکہ کے درمیان تین مشہور اعلامیے (communiques) میں آمریکہ نے ’’ Beijing as the sole legal Government of China‘‘قرار دیا ہے - امریکہ تائیوان کے متعلق سرکاری پالیسیی ’سٹریٹجک ابہام‘ کی پالیسی اس بارے میں غیر واضح ہے کہ کیا تائیوان پر حملے کی صورت میں امریکہ اس کا دفاع کرے گا یا نہیں- لیکن حالیہ دنوں میں صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا-[10]

صدر بائیڈن کے اس بیان کو امریکہ کی طویل عرصے سے چلی آنے والی ’سٹریٹجک ابہام‘ والی پالیسی سے فاصلہ اختیار کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے-

عالمی برادری کی اکثریت ممالک کی تعداد جو کہ 150 سے زائد ہیں ’’ون چائنہ پالیسی‘‘ کی حامی ہے اور ان کے تائیوان کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں-ان میں روس، ایران، ترکی، سعودی عرب ،افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، میانمار، نیپال، پاکستان اور سری لنکا وغیرہ شامل ہیں- دوسری طرف ایک درجن کے قریب ممالک تائیوان کو بطور آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سفارتی تعلقات قائم ہیں - جن میں درج ذیل شامل ہیں:

Belize, Guatemala, Haiti, Holy See, Honduras, Marshall Islands, Nauru, Palau, Paraguay, St Lucia, St Kitts and Nevis, St Vincent and the Grenadines, Swaziland and Tuvalu”.[11]

پاکستان کا اصولی مؤقف:

پاکستان اور چین کے مابین مثالی نوعیت کے دوطرفہ دوستانہ تعلقات ہیں- دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے-

پاکستان نے چین کی نہ صرف ’’ون چائنہ پالیسی‘‘ کی حمایت میں اصولی مؤقف اختیار کیا ہے بلکہ ہر انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر اس کی تائید کی ہے- چین نے ہمیشہ پاکستان کے اس غیر متزلزل مؤقف کو سراہا ہے-حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے طویل المدتی عزم کا اعادہ کیا ہے-

Pakistan reaffirms its strong commitment to ‘One-China’ Policy and firmly supports China’s sovereignty and territorial integrity”.[12]

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ’ون چائنا‘ پالیسی پر قائم ہے اور وہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہے- پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات باہمی احترام، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مسائل کے پرامن حل پر مبنی ہیں-

چائنہ تائیوان تنازعہ کی موجودہ صورتحال:

ان سطور کو تحریر میں لاتے وقت امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر کے دورہ تائیوان کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے- میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے تائیوان کے گرد سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے- چین کی سرکاری ٹی وی ’سی سی ٹی وی‘ کے مطابق ان مشقوں کے لیے جزیرے کے گرد 6 سمندری راستوں کا انتخاب کیا گیا ہے-ان میں سے کچھ زونز تو تائیوان کے 20 کلومیٹر تک کے فاصلے پر ہیں-[13]

دوسری طرف تائیوانی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ متعدد چینی بحری جہازوں اور میزائلوں سے لیس جنگی جہازوں نے ایک مرتبہ پھر ’’میڈیئن لائن‘‘( وہ لائن جو چائنہ اور تائیوان کو تقسیم کرتی ہے) عبور کی- اس کے علاوہ تائیوان کی فوج نے بھی جزیرے کے دفاع کیلئے لائیو فائر آرٹلری مشقیں کی ہیں- ایک گھنٹہ طویل تائیوان کی مشقیں ختم ہونے کے فوراً بعد، چین کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ نے اعلان کیا کہ وہ تائیوان کے اردگرد سمندروں اور فضائی حدود میں اپنی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہے-فوجی مشقوں کے علاؤہ چین نے موسمیاتی تبدیلی، ملڑی سطح کے مذاکرات اور بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے کی کوششوں سمیت کئی اہم شعبوں میں امریکہ کے ساتھ اپنا تعاون روکنے کا اعلان کیا ہے-[14]

مستقبل کے ممکنات:

بظاہراً چین اور تائیوان کا تنازعہ صرف دو پارٹیوں کا ہے لیکن عالمی سطح پر کئی ممالک اس تنازعہ سے براۂ راست وابستہ ہیں- خصوصاً حالیہ کشیدگی کے باعث تائیوان ایک بار پھر امریکا اور چینی قیادت کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ کے طور پر ثابت ہو رہا ہے جہاں چین کی طرف سے تائیوان کو حملے کا خطرہ لاحق ہے-امریکہ کی ایوان نمائندگان کی صدر نینسی پیلوسی کا دورہ ’’تائیوان کی متحرک جمہوریت کی حمایت کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل وابستگی‘‘ کو ظاہر کرنا تھا-[15] جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ، تائیوان کے معاملے پر چائنہ کے لئے لانگ ٹرم پالیسی اختیار نہیں کرے گا بلکہ تائیوان کے لئے اپنی حمایت جاری رکھے گا-دوسری طرف چینی قیادت بار بار تنبیہ کر رہی ہے کہ اگر اسے تائیوان کے معاملے پر عسکری طاقت کا استعمال کرنا پڑا تو وہ دریغ نہیں کریں گے- حالیہ فوجی مشقیں اس بات کی طرف نشاندھی کرتی ہیں- اگر چین کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تائیوان پر پریشر برقرار رکھنے کیلئے چین صرف جارحانہ بیانات اور فوجی مشقیں جاری رکھے گا- چین بہت بڑے فوجی تصادم سے گریز کرے گا- یہ بات بھی قابل غور ہے تائیوان نے آج تک چین سے مکمل طور پر آزاد ہونے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے- اگر تائیوان ایسا قدم اٹھاتا ہے تو چین براہ راست فوجی تصادم کی طرف جا سکتا ہے- چین کی پیپلز لبریشن آرمی اگر تائیوان پر حملہ کرتی ہے تو ہونے والی لڑائی یک طرفہ ہو گی کیونکہ یہ ایک ایسا تصادم ہو گا جس میں ایک فریق (چین) فوجی صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے فریق (تائیوان) سے بہت زیادہ مضبوط ہو گا- چین کا دفاعی بجٹ تائیوان کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہے اور اس کے علاوہ چینی فوج کا سائز، فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں میں بھی تائیوان سے کئی گنا بڑا ہے- اگر ہم روس اور یوکرین جنگ کا موازنہ اس تنازعہ سے کریں تو واضح ہوتا ہے کہ یوکرین کے مقابلے میں روس کی طاقت زیادہ ہونے کے باوجود مکمل طور پر روس غلبہ حاصل کرنے میں ناکام ہے کیونکہ کامیابی کا دار و مدار عسکری طاقت نہیں بلکہ عوامی اور بین الاقوامی حمایت ہونا ضروری ہے- چین اگر مستقبل میں تائیوان کو حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کا استعمال کرتا ہے تو چین کو نہ صرف تائیوان کی عوام کو پبلک سپورٹ حاصل کرنا مشکل ہوگا بلکہ عالمی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے-

اختتامیہ:

 جنگ، مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافہ کرتی  ہے اور شدید تباہی لاتی ہے- چین تائیوان تنازعہ کا پر امن حل ہی کشیدگی سے بچنے کا واحد حل ہے- تائیوان چونکہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کا ایک عنصر بن چکا ہے اس لئے اگر یہ تنازعہ شدت اختیار کرتا ہے تو اس کے دیرپا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے نہ صرف معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ کرونا وباء سے سنبھلنے والی عالمی معیشت کو بھی دھچکا لگے جس کے نیتجے میں کرۂ ارض پر بسنے والے ایک عام فرد کی زندگی شدید متاثر ہوگی جیسا کہ روس - یوکرین جنگ کی صورت میں ہورہا ہے-

٭٭٭


[1]Brown,David: China and Taiwan: A really simple guide https://www.bbc.com/news/world-asia-china-59900139

A Brief History of Modern China and Taiwan

https://www.csis.org/programs/international

[2]ibid

[3]Bansal, Amit: Significance Of Taiwan; Why The Tiny Island Matters So Much?

https://www.india.com/news/world/significance

[4]ibid

[5]Taiwan - an Inalienable Part of China https://www.mfa.gov.cn/ce/ceus/eng/

[6]Xi Jinping says 'reunification' must be fulfilled

https://www.bbc.com/news/world-asia-china-

[7]Tiwanese Perspective

https://www.taiwan.gov.tw/content_3.php

[8]Taiwan won't be forced to bow to China, president says

https://www.reuters.com/world/asia

[9]UN reiterates support for one-China principle https://news.cgtn.com/news/2022-08-03

[10]Biden says US would defend Taiwan if attacked by China

https://www.aljazeera.com/news/2022/5/23

Taiwan Relations Act,https://www.washingtonpost.com/politics/2022/08/06

[11]Friends of Tiwan https://www.bloomberg.com/news/articles/2021-12-10/

[12]Pakistan reaffirms ‘One-China’ policy

https://mofa.gov.pk/pakistan-reaffirms-one-china-policy/#:~:text=Pakistan

[13]China says military drills in six zones surrounding Taiwan underway https://mybs.in/2axl2JG

[14]China ends cooperation with U.S. on climate change and anti-drug efforts

https://www.japantimes.co.jp/news/2022/08/05/world/china-scraps-cooperation-us/گ

[15]https://www.bbc.com/urdu/world-62430203?at_medium

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر