آذربائیجان پاکستان تعلقات: علمی سماجی و ثقافتی تناظر

آذربائیجان پاکستان تعلقات: علمی سماجی و ثقافتی تناظر

آذربائیجان پاکستان تعلقات: علمی سماجی و ثقافتی تناظر

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2022

آذربائیجان پاکستان سفارتی تعلقات کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں ’’آذربائیجان پاکستان تعلقات: علمی، سماجی و ثقافتی تناظر‘‘ پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا- اس موقع پر سالگرہ کا خصوصی کیک بھی کاٹا گیا- آذر بائیجان کے سابق وزیر اعظم جناب نوروز ممدوف ، پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر عزت مآب خضر فرہادوف، آذربائیجان کی ممبر پارلیمنٹ محترمہ تمم جعفروا، بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن بلال، ڈاکٹر ثروت رؤف ایسوسی ایٹ پروفیسر نمل یونیورسٹی اسلام آباد، احمد رضا پروگرام منیجر مسلم انسٹیٹیوٹ اور ایڈووکیٹ آصف تنویر کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ مقررین تھے- جناب اسامہ بن اشرف ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے سیمینار میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- سیمینار میں آذربائیجانی وفد کے ساتھ ساتھ محققین، سکالرز، طلباء، یونیورسٹی کے پروفیسرز،  وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے  تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-

مقررین کے بیانات کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

پاکستان اور آذربائیجان، دو برادر مسلم ممالک، منفرد تاریخی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی مشترکات رکھتے ہیں- پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے 1991ء میں آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کیا- اس کے بعد 1992ء میں دونوں ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے-پاکستان باکو میں اپنا سفارت خانہ کھولنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا- آذربائیجان اور پاکستان حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں- دونوں ریاستوں نے ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے مختلف فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے- مثال کے طور پر، آذربائیجان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہے- دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا- دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ حکومتی سطح پر اعلیٰ سطحی رابطوں کا تبادلہ اور مضبوط تعلقات قائم کیے گئے- مزید یہ کہ پاکستان اور آذربائیجان کی قیادت باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئی ہے-

پاکستان میں 2005ء کے زلزلے اور 2010ء-2011ء  کے سیلاب میں اپنے آذربائیجانی بھائیوں کی طرف سے دی گئی عظیم مدد کو یاد کرتے ہیں- آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے 2011ء میں سیلاب کے متاثرین کے لیے 2 ملین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی- پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں بھی اہم کردار ادا کیا- جہاں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا مستقل حصہ ہے- پاکستان نے آرمینیا کے ساتھ جنگ کے دوران آذربائیجان کی کثیر الجہتی پر مبنی حمایت کی اور آذربائیجان کے حق میں اپنی آواز بلند کی- پاکستانی عوام اور حکومت نے آذربائیجان میں اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا- اس جنگ کے وقت مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی صاحبزادہ سلطان محمد علی اور چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بھی مشکل وقت میں آذربائیجان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کئی تقریبات آذربائیجان کے شہداء کے نام کیں -

دونوں ممالک کے لوگ ایک ہی انداز میں اسلامی تہوار مناتے ہیں- دونوں ممالک کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار رہے ہیں جو ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کرتی ہیں مثلاً آذربائیجان میں ملتان کاروان سرائے کو ملتان کے تاجروں کو آذربائیجان میں ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا- مشہور شاعر صائب تبریزی نے 17ویں صدی میں برصغیر کا دورہ کیا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کیا- 1992ء میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد دونوں فریقوں نے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھا- مثال کے طور پر انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے آذربائیجان کی حیدر علییف فاؤنڈیشن کی خدمات بے مثال ہیں- یہ فاؤنڈیشن تعلیم کے شعبے میں انسانی اور سماجی منصوبے پیش کرتی ہے- ان کے کام کے اعتراف میں آذربائیجان کی خاتون اول مہربان علیئیوا کو ہلال پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا-

دونوں ممالک کے درمیان مزید مضبوط عوامی روابط قائم کرنے کے لیے جامعات اور تھنک ٹینکس کے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں فریق ثقافتی روابط کے فروغ پر بھی کام کر رہے ہیں- اسلام آباد میں آذربائیجان کا سفارت خانہ پاکستانی شہریوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ تین دن کے بجائے صرف تین گھنٹے میں باآسانی آن لائن ویزے حاصل کر سکیں- ای ویزا سسٹم اور پاکستان سے آذربائیجان کیلئے براہ راست پروازیں شروع ہو گئی ہیں جس سے عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ ملے گا- آذربائیجانی یونیورسٹیز (خزر یونیورسٹی اور اے ڈی اے یونیورسٹی) کی طرف سے پاکستانی طلباء کو مختلف سکالرشپس کی پیشکش کی جا رہی ہے- پاکستانی و آذربائیجانی طلباء کے لئے سائنسی تحقیق، میڈیکل،  انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز کی تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں جو ممکنہ طور پر ایک نالج کوریڈور بنا سکتے ہیں-

آذربائیجانی عوام خاص طور پر طلباء پاکستانی زبان اور ثقافت کے بارے جاننے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں- یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آذربائیجان کے طلباء اپنی ریاستی یونیورسٹیز میں پاکستان کی قومی زبان سیکھ رہے ہیں- اردو سیکھنا آذربائیجان کے طلباء کو پاکستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے متاثر کر رہا ہے- حال ہی میں اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں آذربائیجان لینگویج اینڈ کلچرل سینٹر کا افتتاح کیا گیا- یہ پاکستان میں آذربائیجانی زبان اور ثقافت کو فروغ دے گا اور آذربائیجان لینگویجز یونیورسٹی میں اردو زبان اور ثقافت کی چیئر قائم کی جائے گی- مزید برآں، باکو میں یونیورسٹی آف لینگوئجز میں ایک فعال پاکستان کلچرل سینٹر ہے جو پاکستان کی ثقافت اور ادب کی تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے- یہ آذربائیجان لسانیات، اردو لسانیات اور عمومی لسانیاتی سائنس کو بھی فروغ دے گا- ہمارے پاس آذربائیجان، ترکی اور اردو زبان میں روزمرہ استعمال کے  ایک ہزار سے زیادہ ملتے جلتے الفاظ ہیں -

دونوں ممالک کے عوام قریب آتے جا رہے ہیں- اس سے دیگر شعبوں بالخصوص تجارت میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد ملے گی- 2020ء میں آذربائیجان نے پاکستان کے ساتھ معدنی مصنوعات 1.6 ملین ڈالر، ٹیکسٹائل 1.2 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 8.74 ہزار ڈالر کی تجارت کی- 2020ء میں پاکستان نے آذربائیجان کے ساتھ ٹیکسٹائل 4.68 ملین ڈالر، کیمیائی مصنوعات 2.32 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 1.51 ملین ڈالر کی تجارت کی - تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اور اس میں اضافہ ہونا چاہیے- چونکہ حکومت آذربائیجان کی طرف سے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے ثقافتی تعلقات کو سیاحت کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے- پاکستان سے آذربائیجان آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ویزا کا طریقہ کار آسان ہو گیا ہے-

تیس برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے تعلقات کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے- دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان مفاہمتی یاداشتوں کی ایک طویل فہرست پر دستخط کیے گئے ہیں- 2005ء میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان اطلاعات و مواصلات، ٹرانسپورٹ، ایوی ایشن ، ثقافت، مالیات اور تعلیم سے متعلق چھ معاہدے ہوئے- دونوں ممالک کے درمیان ایک کمیشن بھی ہے جو ہر دو سال بعد اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہم اپنے اقتصادی تعلقات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں- باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی شاخیں ہیں اور پاکستانی فارما انڈسٹری نے بھی آذربائیجان میں سرمایہ کاری کی ہے اور بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں ہم بنیادی طور پر دفاعی نظام پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، دفاعی ساز و سامان اور توانائی کے شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے - آذربائیجان کو تیل اور گیس کے شعبے میں کافی مہارت حاصل ہے- سرکاری مندوبین کے باقاعدہ دوروں کے ذریعے، ہم ٹھوس نتائج کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعاون پیدا کر سکتے ہیں- تعلیمی تعاون اس پائیدار بندھن کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے اور دونوں ریاستوں میں سماجی و اقتصادی خوشحالی لا سکتا ہے- مجموعی طور پر سماجی و اقتصادی تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات کی ترقی دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی- ماضی کی طرح اگر بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے تو ان کی طاقت دوگنی ہو جائے گی-

وقفہ سوال و جواب :

سیمینار کے اختتام پر ایک انٹرایکٹو سیشن بھی منعقد ہوا جس کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

آذربائیجان اور پاکستان نے آذربائیجان کی آزادی کے پہلے دن سے ہر مسئلہ پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے خاص طور پر بین الاقوامی فورمز پر دونوں ممالک کا مؤقف ایک رہا ہے-آذربائیجان OICکے کشمیر رابطہ گروپ کے چند ارکان میں سے ایک ہے جہاں رکن ممالک کے خصوصی رابطہ گروپ کی طرف سے اس مسئلے کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے- پاکستان بھی آذربائیجان کے خلاف جارحیت کے معاملے میں او آئی سی کے رابطہ گروپ کے چند ارکان میں سے ایک ہے- ہم ہر میدان میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور کشمیر پر آذربائیجان کا مؤقف ہے کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل دیکھنا چاہتا ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر