مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام 28 اگست 2022ء بروز اتوار کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تعاون سے ’’ڈائمنڈ جوبلی آف پاکستان: وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا- پاکستان میں قازقستان کے سفیر عزت مآب یرژان کستافن سیمینار کے مہمان خصوصی تھے- سیمینار کے مقررین میں محترم صاحبزادہ سلطان احمد علی (دیوان آف جوناگڑھ ریاست و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)، پاکستان میں قازقستان کے سفیر عزت مآب یرژان کستافن، شمشاد احمد خان (سابق سیکرٹری خارجہ پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین (چیئرمین شعبہ تاریخ و پاکستان اسٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) اور جناب ناہید عمران گل (سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ) شامل تھے - جناب آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ (پبلک ریلیشنز ایسوسی ایٹ) نے ماڈریٹر کے امور سر انجام دیئے-
مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کی نظریاتی اور جغرافیائی اہمیت کا اندازہ علامہ اقبالؒ کے الہ آباد میں صدارتی خطبہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں علامہ اقبالؒ نے مصر کی مثال دی- انہوں نے فرمایا کہ مصر کی پشت جغرافیائی طور پر افریقی دنیا کی طرف ہے اور اس کا چہرہ مشرق وسطی کی طرف ہے- علامہ اقبال نے فرمایا کہ مصر کی طرح برصغیر کا شمالی مغربی خطہ (موجودہ پاکستان) کی پشت ہندوستان کی طرف ہے اور اس کا چہرہ وسط ایشیاءکی طرف ہے جو وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا ہے- مزید برآں،عمرانیات کی روح سے یہ خطہ ہمیشہ جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں سے مختلف رہا- اس کی سماجی و ثقافتی ماہیّت وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے ملتی جلتی ہے-
پاکستان کیلئے وسطی ایشیا کی اہمیت کا اندازہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تاریخی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جو 23 مارچ 1940ء کو آپ نے ارشاد فرمائی جس دن کہ قرارداد پاکستان کی شکل میں منظور ہوئی- اپنی تقریرمیں قائداعظمؒ نے لالہ لاجپت رائے کے خط کا حوالہ دیا- لاجپت رائے جو ایک انتہا پسند ہندو تھا اور شدھی اور سنگھٹن جیسی کئی انتہا پسند تحریکوں سے وابستہ تھا- لالہ لاجپت رائے نے اپنے ایک لیڈر کو خط لکھا اور کہا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں سے نہیں ڈرتے- لیکن، اگر ان مسلمانوں کو متحد ہو کر ایک ریاست بنانے کا موقع دیا گیا تو وہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں سے ضرور ہاتھ ملائیں گے- ان کے درمیان ایک ہزار سال سے موجود تاریخی تعلقات دوبارہ بحال ہوں گے- قائداعظمؒ نے اس خط کا تذکرہ اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب انہیں اپنا ملک ملے گا تو ان کا رخ وسطی ایشیا اور نو زائیدَہ ریاست پاکستان کے مغرب میں پھیلی ہوئی اسلامی دنیا کی طرف ہو گا-
علامہ محمد اقبالؒ کا مزار اسلامی تہذیب کی دو نمایاں خصوصیات کو جوڑتا ہے- علامہ اقبال کے مزار کے ایک طرف شاہی قلعہ (قلعہ لاہور) واقع ہے جو برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی علامت ہے- جبکہ مزار کے دوسری طرف شاہی مسجد واقع ہے جو مسلم تہذیب کے روحانی پہلو کی عکاسی کرتی ہے- شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد دونوں کا بنیادی ڈھانچہ وسطی ایشیائی طرز کا ہے- پاکستان کے ایک عظیم اسلامی فلسفی اور قومی شاعر علامہ اقبال اپنے افکار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مولانا رومی، عرفی شیرازی، فخر الدین عراقی اور فرید الدین عطار کی تعلیمات میں مدتوں غوطہ زنی کے بعد اس راز کا علم ہوا- اس علم و حکمت کی بدولت علامہ اقبالؒ نے عجم (مشرق) کے نوجوانوں اور وسطی ایشیا کے نوجوانوں کو متاثر کیا- علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے اپنا مستقبل وسطی ایشیا کے اس ورثے میں پایا ہے، تم بھی اپنا مستقبل میری آنکھوں سے دیکھو کیونکہ میری آنکھوں کے اندر ان عظیم ہستیوں کی آگ سلگتی ہے‘‘-علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ()کا مزار بھی اسی سمت میں آپ کی راہنمائی کرتا ہے-
چشتی سلسلے کے بانی، معین الدین چشتی اجمیریؒ، چشت قندھار میں پیدا ہوئے، اس لیے ان کے روحانی نسب کا علاقہ بھی وسطی ایشیا ہے- ان کے عزیز استاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی افغانستان میں پیدا ہوئے اور ان کی تمام تر تربیت وسطی ایشیا میں ہوئی- برصغیر میں جتنی مسلمان حکومتیں قائم ہوئیں جیسے غزنوی، غوری، لودھی، تغلق، خلجی اور مغل یہ سب لوگ وسطی ایشیا سے یہاں آئے تھے- یہ بات قابل ذکر ہے کہ برصغیر کی شاہی ریاستوں میں مسلم سربراہان مملکت کی اکثریت وسطی ایشیائی نژاد تھی- برصغیر میں مسلم حکمرانی کے دوران فارسی کو دوسری مقامی زبانوں کے بجائے سرکاری زبان کے طور پر اپنایا گیا- اس سے ان دونوں خطوں کے درمیان سماجی و ثقافتی امتزاج بھی ثابت ہوتا ہے- عدالتی زبان اور تمام عدالتی فیصلے فارسی میں لکھے جاتے تھے- دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو بھی وسطی ایشیا کے لوگوں کی ایجاد کردہ ہے- اردو ادبی شخصیات کے عظیم نام جیسے مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر، قلی قطب شاہ بھی وسطی ایشیائی نژاد تھے- اس لیے یہ بات مسلم ہے کہ پاکستانیوں کے وسطی ایشیا کے ساتھ صدیوں پرانے مضبوط تعلقات ہیں-
موجودہ تاریخ بتاتی ہے کہ زبان، طرزِ زندگی، لباس، خوراک، مذہب اور عقیدہ جس کے پیروکار برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت ہے، زیادہ تر وسطی ایشیا اور عرب سے آئے تھے- جہاں اس قدر مضبوط روحانی، تاریخی، ادبی اور علمی رشتے ہوں وہاں پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان اقتصادی، سفارتی، دفاعی اور سیاسی تعلقات کو مضبوط کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے- برصغیر میں برطانوی راج اور وسطی ایشیاء پر سوویت یونین کے قبضہ کی وجہ سے وسطی ایشیا اور برصغیر کے درمیان خلیج پیدا ہوئی- نوآبادیاتی طاقتوں کے درمیان سرحد کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں خطوں کے درمیان ایک آہنی پردہ کھینچا گیا تھا- پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ استوار کر سکتا ہے- سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتوں نے دوطرفہ تعلقات کی بحالی کیلئے کوششیں کی ہیں- وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات انسانی ترقی، توانائی کے شعبے، ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، میڈیا، صنعت اور تجارت کے محاذات پر استوار کیے جا سکتے ہیں-
اقتصادی تعاون تنظیم(ECO) کا قیام ایران، پاکستان اور ترکی نے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کیا تھا- 1992ء میں تنظیم کو وسعت دی گئی جس میں سات نئے اراکین شامل کیے گئے، یعنی افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان- وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے 1992ء میں ایران میں اقتصادی تعاون تنظیم کی چھتری تلے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا- پھر ان ریاستوں کے ساتھ تاریخ اور ثقافت کی مماثلت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان میں وزراء کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس وقت کوئٹہ ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا- اس کا مقصد تمام شراکت دار ممالک کے درمیان زمینی رابطہ قائم کرنا تھا - 1993ء میں قازقستان میں اس مقصد کے لیے بڑے ٹرانسپورٹرز کا اجلاس منعقد ہوا- اس اجلاس میں مذکورہ تمام ممالک کو سڑکوں اور ریلوے سے جوڑنے کے لیے ایک میگا پلان ترتیب دیا گیا- 1996ء میں اس میگا پلان کا پہلا منصوبہ ترکمانستان اور ایران کے درمیان ریلوے کو بحال کر کے مکمل کیا گیا-
سماجی تعلقات استوار کرنے میں قازقستان کے سفیر کی کوششیں قابل تعریف ہیں-آپ قازقستان کے پہلے سفیر ہیں جنہوں نے پورے پاکستان کا سفر کیا- آپ اسلام آباد میں ان سفراء میں شامل ہیں جنہوں نے سفارت کاری میں نئے آئیڈیاز اور حکمت عملی متعارف کروائی ہے-
یہ پاکستان کا 75 واں جشن آزادی ہے اور اس میں پاک قازقستان دوستی کے 30 سال مکمل ہو رہے ہیں- قازقستان 1991ء میں وجود میں آیا اور پاکستان پہلا ملک تھا جس نے قازقستان کی آزادی کو تسلیم کیا- وسطی ایشیاء اور پاکستان کے پاس دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں- دیانتدار، مخلص اور موثر قیادت تمام وسائل بروئے کار لا سکتی ہے- اس کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت کو بھی فروغ دینا چاہیے اور دونوں خطوں کے درمیان باہمی امن اور خوشحالی کے لئے دفاعی معاہدوں پر بھی دستخط کیے جا سکتے ہیں-
موجودہ حالات میں پاکستان سیلاب کی وجہ سے آفت زدہ ہے جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے- قازقستان زندگی کے ہر شعبے میں پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے- قازقستان پاکستان کو ہر فورم پر برادر ملک کے طور پر دیکھتا ہے چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور ادارہ- قازقستان نے ہمیشہ بین الاقوامی مسائل پر پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان کے حق میں آواز بلند کی- علاقائی ترقی اور نمو کے لیے علاقائی روابط اور انفراسٹرکچر کی بہتری انتہائی لازم و ملزوم ہے- دونوں ریاستوں کو سڑک اور ریل راستوں کے ذریعے علاقائی رابطوں پر توجہ دینی چاہیے-
٭٭٭